اصل مجرموں کی تلاش

Spread the love

عدنان ملک

نت نئی چیزوں کو جاننا، کسی راز کی حقیقت تک پہنچنا ، یا کسی امر لاینحل کی تہ تک رسائی کرنا، اس کے صدق وصداقت کو تلاشنا انسانی فطرت ہے. ہر شخص کی تلاش وجستجو کا ایک معیار وپیمانہ ہوا کرتا ہے جسے اپنا کر وہ اپنی تلاش کے سفر پر رواں دواں ہو جاتا ہے. نیز ہر کسی کی تلاش کی منزل بھی دوسروں سے مختلف وجدا ہوتی ہے. کسی کو اپنے خدا کی تلاش ہوتی ہے تو کوئی اپنی عقیدت کے راز کو بھیدنے میں سرگرداں رہتا ہے. کوئی اپنی سرگزشت ماضی کا اہم ترین حصہ لیلیٰ کی طلب میں پریشان رہتا ہے. تو کوئی مستقبل کے آئینہ میں اپنی رانجھا کو ڈھونڈتا ہے. تلاش کے اس سفر میں کوئی کامیاب ہوتا ہے، تو کوئی تھک ہار کر بیٹھ جاتا.میری تلاش کی کہانی بھی عجیب ہے. دسمبر کی کڑاکے کی ٹھنڈک تھی، برفیلی ہواؤں کے جھونکے میرے اعضاء کو شل کررہے تھے . ہر طرف کہروں کی حکمرانی تھی. اس فضا میں میں اپنے مقصد کی تلاش میں نکل پڑا. تہہ در تہہ کہروں کی چادروں کو چیرکر اپنی تلاش کے دھن میں گاؤں کی سنکڑی گلیوں، شہر کے وسیع شاہراہوں سے گزر رہا تھا کہ اچانک میں راہ بھٹک کر انسانی آبادی سے دور کسی ویرانے میں پہونچ گیا.سورج مائل بہ غروب تھا. شب کی تاریکی دسمبر کے بے جان ڈوبتے سورج کو نگلنے کے قریب تھی. دل پر خوف اور بدن پر لرزہ طاری ہونے لگا. کچھ ہی لمحوں میں تاریکی نے بھی اپنی چادر کو تان دیا. میں اس خاموش ویرانے میں کبھی مشرق سے مغرب کی طرف دوڑتا. کبھی شمال سے جنوب کی طرف بھاگتا اس چاہ میں کہ باہر جانے کا کوئی راستہ نکل جائے. لیکن فائدہ ندارد. جسم تھکاوٹ کی وجہ سے نڈھال ہو گیا. بھاگ بھاگ کر پاؤں میں آبلے پڑگئے. بالآخر اس ویران کھنڈر کے ایک غار میں پناہ لی. ہوا اتنی تیز چل رہی تھی کہ مانو درخت کسی مسئلے پر تکرار کر رہے ہوں. ٹھنڈی سے بچنے کے لئے کچھ لکڑیوں میں آگ لگائی. اور اس کی حرارت کو اپنے اندر جذب کرنے لگا. بیٹھے بیٹھے اونگھ رہا تھا کہ کسی کے رونے کی آواز میرے کانوں کے پردوں سے ٹکرائی. میری آنکھ کھل گئی. اور گھبرا اٹھا کہ آخر اس ویران اور سنسان جگہ میں کون رو سکتا ہے؟ اگنور کیا کہ مجھے کچھ غلط فہمی ہو رہی ہے… لیکن یہ آواز مسلسل بڑھ ہی رہی تھی.. اس آواز نے مجھے اس کی رونے والے کی تلاش پر مجبور کیا. لکڑی کے ایک ٹکڑے میں آگ لگا کر آس پاس اس آواز کی سمت تلاش رہا تھا مجھے ایسا لگا کہ وہ آواز میرے سامنے والے غار سے آ رہی ہے. اس غار کی طرف بڑھا اور غار کے دروازہ پر پہونچا تو دیکھا کہ ایک لڑکی وہاں رو رہی تھی. ارے تم کون ہو اور یہاں کیا کررہی ہو….؟میں نے متعجب وحیران ہوکر پوچھا تم کو مجھ سے کیا مطلب..؟ میری نظروں سے اوجھل ہو جا. ہممم ٹھیک ہیں. آنسو بہاتے ہوۓ اس نے جواب دیا ارے میں چلا جاؤں گا. لیکن تم اتنی سخت کلامی سے کیوں پیش آرہی….؟ میں نے اپنا تیور بدلتے ہوۓ سوال کیا۔ میں سخت کلامی نہیں کررہی . بلکہ لوگوں کے رویہ نے مجھے سخت کلام ہی نہیں بلکہ انسانیت سے متنفر کر دیا ہے،آنسو پونچھتے ہوۓ جواب دیا وہ کیسے….؟ ایک دو فرد سے تم کو پریشانی ہوسکتی ہے….لیکن پوری انسانیت… سمجھ سے پرے. ضرور تمہارے ساتھ کوئی سانحہ پیش آیا ہوگا… Please tell me what happened with you اپنا سوال جاری رکھتے ہوۓ پوچھا۔معاف کرو. نہیں بتا سکتی…. بڑی درد بھری کہانی ہے میری،آہ بھرتے ہوۓ کہا۔ بتاؤ please . لو سنو…! زندگی بڑی خوشگوار تھی. بچپن کے مزے لوٹ کر شباب کے ایام میں داخل ہورہی تھی. بڑی خوش تھی. بڑی بہن کی شادی ہو چکی تھی کہ دل دل میں خوش تھی میں بھی اپنی آپی کی طرح اپنا گھر بساؤں گی. لیکن ہائے قسمت کی ماری! بخت واتفاق نے مجھے ایسے موڑ پر لاکر چھوڑ دیا کہ میری ہر خوشی پر پانی پھر گیا. شادی اور گھر بسانے کے خوابوں کے محل پر بلڈوزر چل گیا. ایسا اس لئے کہ میں جو کالی ٹھہری. شادی کی عمر ختم ہونے لگی تھی، میں بھی انسان… بشری تقاضوں اور جنسی ہیجان نے مجھے غلط راستوں پر چلا دیا. ناجائز طریقے سے بہتوں نے میرا استعمال کیا. لیکن جواز کی صورت کسی نے بھی اختیار کرنے کی جرأت نہیں کی. سب کے سب حیوان تھے. جانور سے بھی بدتر تھے. اور میں نے انسانی جانوروں سے دوری اختیار کر اس ویرانے کو اپنایا . جہاں رات کی تاریکیوں میں اپنے رب سے رو رو کر اپنے گناہوں سے توبہ کرتی ہوں. اس کی باتیں سن ہی رہا تھا کہ تاریکی کا پیٹ چیر کر روشنی پھیلنے لگی. ان سے آبادی کا راستہ دریافت کیا. اب پھر میں شہر کے انہیں شاہراہوں پر چل رہا تھا جہاں سے میں راستہ بھٹکا تھا. لیکن میرے ذہن میں کئی سوال گردش کر رہے تھے… کیا کالا ہونا جرم ہے…؟ – یہ تو خدا کی تخلیق کے نمونے ہیں- اگر وہ جرم نہیں تو پھر اس معصوم سی جان کی تباہی کا مجرم کون…؟ کہیں میں تو نہیں…؟ نہیں میں کیوں؟ تو پھر کون ہمارا سماج اس کا مجرم ہے؟ لیکن کیسے…؟ سماج نے اس کا کیا بگاڑا..ارے خوبصورتی کی طرف میلان تو انسانی فطرت ہے پھر یہ سماج کی غلطی کیسے….؟ اسی پریشانی کے عالم میں مجھے شرح صدر ہوا اور ہر ایک سوال کا جواب ملنے لگا.. مانا کہ خوبصورتی کی طرف میلان انسانی فطرت ہے. تو پھر بد صورتوں کا کیا ہوگا.؟ کیا سفید وسیاہ ہی خوبصورتی کا معیار ہے…؟ اگر اسی کو معیار مان لیا جائے تو اس کا حل کیا ہوگا…؟ اور ہمارا سماج اس کے تئیں کیوں نہیں سوچتا…؟ اگر نہیں تو پھر ہمارا سماج ہی اس لڑکی کا مجرم ہے….

Leave a Comment