اِنصاف ٹائمس ڈیسک
گجرات کے امریلی ضلع میں دلت نوجوان بھرت جوشی کے بہیمانہ قتل پر ملک بھر میں غم و غصہ پایا جا رہا ہے۔ اس واقعے کی مخالفت میں آل انڈیا انسٹیٹیوٹ آف سوشیل اینڈ کلچرل افیئرز (AIISCA) نے ایک سخت بیان جاری کرتے ہوئے ذات پات پر مبنی تشدد کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ جمہوری سماج میں ذات پات کو کسی بھی صورت میں آئیڈیل نہیں بنایا جا سکتا۔ ادارے نے خبردار کیا ہے کہ ایسی ذہنیت کی حمایت کرنے والے تمام افراد اور تنظیمیں جواب دہ ہوں گی۔
امریلی کے لاٹھی تعلقہ میں 24 سالہ دلت نوجوان بھرت جوشی کو 23 مئی کو قتل کر دیا گیا۔ الزام ہے کہ اونچی ذات سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں نے مبینہ طور پر ذات پات کی نفرت کی بنیاد پر اس پر حملہ کیا، جس سے اس کی موت واقع ہو گئی۔ بھرت کی ماں کا کہنا ہے کہ اس کا بیٹا صرف اس لیے مارا گیا کیونکہ وہ دلت تھا اور سماجی برابری کی بات کرتا تھا۔
تنظیم کے صدر ڈاکٹر شرد موہن ترپاٹھی نے ایک پریس ریلیز میں کہا "ذات پات کی برتری کی ذہنیت بھارت کے جمہوری اور مساوات پر مبنی اقدار کے خلاف ہے۔ اگر کوئی طبقہ یا تنظیم ایسے واقعات کی خاموش یا کھلی حمایت کرتا ہے، تو وہ بھی اس تشدد کے لیے ذمہ دار مانا جائے گا۔”
انہوں نے ریاستی حکومت سے مطالبہ کیا کہ اس معاملے کی غیر جانب دارانہ تفتیش کی جائے، مجرموں کو فوری گرفتار کیا جائے اور متاثرہ خاندان کو انصاف فراہم کیا جائے۔
اُنہوں نے اس بات پر گہری تشویش ظاہر کی ہے کہ حالیہ برسوں میں ذات پات پر مبنی تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے اور کئی مواقع پر مجرموں کو سیاسی سرپرستی بھی حاصل رہی ہے۔ ادارے نے معاشرے سے اپیل کی ہے کہ وہ ان واقعات پر خاموش نہ بیٹھے اور منظم ہو کر مظلوم طبقات کے ساتھ کھڑا ہو۔
بھرت جوشی کے والد نے بتایا کہ ابتدا میں پولیس انتظامیہ پر دباؤ تھا اور انہوں نے معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ لیکن مقامی دلت تنظیموں اور قومی سطح کے اداروں کی مداخلت کے بعد اب معاملے پر توجہ دی جا رہی ہے
تنظیم AIISCA کی یہ وارننگ نہ صرف حکومت کے لیے سوال کھڑے کرتی ہے، بلکہ سماج کے ہر طبقے سے جواب دہی کا مطالبہ بھی کرتی ہے۔ یہ اس بات کا واضح پیغام ہے کہ بھارت میں ذات پات کے خلاف لڑائی صرف دلتوں کی نہیں، بلکہ جمہوریت اور انسانی حقوق کے تحفظ کی جدوجہد بھی ہے۔