اِنصاف ٹائمس ڈیسک
ریپ جیسے سنگین معاملے میں الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے نے ملک بھر میں بحث چھیڑ دی ہے۔ جسٹس سنجے کمار سنگھ نے ایک ملزم کو ضمانت دیتے ہوئے تبصرہ کیا کہ شکایت کرنے والی خاتون نے "خود مصیبت کو دعوت دی”۔ یہ تبصرہ سوشل میڈیا پر شدید تنقید اور غصے کا باعث بن گیا ہے۔
واقعہ کیا ہے
یہ واقعہ ستمبر 2024 کا ہے۔ نوئیڈا کی ایک یونیورسٹی میں زیر تعلیم پوسٹ گریجویٹ طالبہ نے دہلی کے ہاوز خاص علاقے میں اپنی تین سہیلیوں کے ساتھ ایک بار میں وقت گزارا۔ وہیں اس کی ملاقات کچھ مرد دوستوں سے ہوئی، جن میں ملزم بھی شامل تھا۔
خاتون نے دسمبر 2024 میں نوئیڈا پولیس کو شکایت دی کہ ان میں سے ایک شخص نے اس کے ساتھ زیادتی کی۔ پولیس نے شکایت کی بنیاد پر ملزم کو گرفتار کر لیا۔
عدالتی تبصرہ اور ضمانت کی بنیاد
ضمانت کی سماعت کے دوران، جسٹس سنجے کمار سنگھ نے کہا کہ خاتون "اپنی مرضی سے بار گئی تھی اور اس نے خود کو ایسی حالت میں ڈالا جس سے یہ واقعہ پیش آیا۔” اس بنیاد پر عدالت نے ملزم کو ضمانت دے دی۔
تنازع اور ردعمل
عدالت کے اس تبصرے پر خواتین کے حقوق کے کارکنان، وکلاء اور سماجی تنظیموں نے سخت ردعمل دیا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ رویہ متاثرہ کو ہی قصوروار ٹھہرانے والا ہے اور عدالتی نظام میں موجود پدرشاہی سوچ کو ظاہر کرتا ہے۔
معروف وکیل ریکھا شرما نے کہا، "یہ فیصلہ ایک خطرناک مثال پیش کرتا ہے، جس میں متاثرہ کے کپڑوں، مقام یا سماجی رویے کو بنیاد بنا کر زیادتی کو جائز قرار دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔”
انصاف کی راہ میں رکاوٹ
اس فیصلے نے ایک بار پھر بھارت میں خواتین کی سلامتی، عدالتی عمل اور انصاف کے اصولوں پر گہرے سوال کھڑے کیے ہیں۔ کیا بار جانا یا دوستوں سے ملنا کسی خاتون کے ساتھ جرم ہونے کی وجہ بن سکتا ہے؟