دانشوروں کے ایک اجلاس میں شرکت کا اتفاق ہوا جہاں ملک کے نامور وکیلوں کو جمع کیا گیا تھا۔ عہدِ حاضر میں ایڈوکیٹس حضرات کی غیرمعمولی اہمیت ہے۔ دورِ حاضر میں جبکہ فاشزم اور ڈکٹیٹرشِپ کا عروج ہے، عام شہری قدم قدم پر ناانصافی اور امتیازات کا شکار ہیں، امن و سلامتی کے دشمنوں کا مقابلہ کرنے کے لئے سوائے قانون کے ہتھیار کو استعمال کرنے کے بے بس عوام کے پاس کچھ نہیں۔ یہ کام صرف ایڈوکیٹس کرسکتے ہیں۔ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ملک میں بڑھتی ہوئی لاقانونیت جو خود فرقہ پرست حکومت کے تحت کام کرنے والے قانونی ادارے چاہے وہ عدالتیں ہوں کہ پولیس، اس کو روکنے کے لئے ایڈوکیٹس ہی امید کی آخری کرن ہیں، کیونکہ یہ قانون جانتے ہیں۔ لیکن ہمیں یہ دیکھ کر افسوس ہوا کہ وہاں وکیل جیسے اعلیٰ اور دانشور طبقے کے افراد بھی قوم کو وہی مشورے دے رہے تھے جو عام ڈاکٹرز، علماء اور یونیورسٹی کے سیمینارز یا عوامی جلسوں میں سننے کو ملتے ہیں۔ جیسے ایجوکیشن اور دینی تعلیم کی اہمیت، جہیز، بیروزگاری، غریبوں میں راشن کِٹس کی تقسیم اور فیملی کونسلنگ وغیرہ۔ جن لوگوں سے آپ دانشوری کی امید رکھ کر جائیں،اور یہ توقع کریں کہ آج کے اس بدترین سیاسی، سماجی اور معاشی انحظاط کے دور میں ان دانشوروں کے کسی عملی کام میں شریک ہوجانے کا موقع ملے گا، مگر آپ کو اگر صرف ایسے مشورے ملیں جو کسی بھی عام آدمی سے چائے یا پان کی دوکان پر بھی مل سکتے ہیں، تو بتایئے کیا کوفت نہیں ہوگی؟ دشمن اس وقت کلاشنکوف لے کر ہر طرف سے گولیاں برسارہا ہے اور قوم کا سب سے زیادہ تعلیم یافتہ، روشن خیال طبقہ کلاشنکوف کا مقابلہ غلیل یا جھاڑو سے کرنے کا مشورہ دے رہا تھا۔ ہمیں سب سے زیادہ حیرت ایڈوکیٹ حضرات کی سوچ پر ہوئی۔ظاہر ہے اِن میں بھی دو قسم کے لوگ ہیں۔ ایک وہ ایڈوکیٹ جو اپنے پیشے میں خوب نام اور دولت کما چکے۔ ان کے پاس نہ ایسی میٹنگس میں آنے کے لئے وقت ہے اور نہ وہ قوم کے لئے کوئی مقدمہ مفت لڑنے تیار ہیں۔ دوسرے وہ ایڈوکیٹس جن کے پاس قوم کے لئے بے انتہا درد ہے، اور خدمتِ خلق کے بارے میں بہت زیادہ سوچتے ہیں۔ دونوں قسم کے ایڈوکیٹ حضرات سے ایک سوال ہے کہ اِس وقت آپ کو کیا کرنا چاہئے تھا اورآپ لوگ کیا کررہے ہیں۔ جس طرح کرونا کی آزمائش میں ڈاکٹرز نے اپنی جانوں کی بازی لگا کر کئی زندگیاں بچائیں، علماء جس طرح مسلسل اصلاحِ معاشرہ کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں، آپ کیا کررہے ہیں؟ آپ کی اِس دور میں سب سے بڑی ذمہ داری یہ تھی کہ وہ قانون کے ہی محافظوں کے ہاتھوں لاقانونیت کا شکار ہونے والے معصوم لوگوں کی مدد کے لئے محلے کے پولیس اسٹیشن سے لے کر سپریم کورٹ تک دھوم مچاتے، اور پولیس والے ہوں کہ جج یاجسٹس، انہیں ان کی اوقات یاد دلاتے کہ وہ پبلک سرونٹ ہیں، نہ کہ قانون کے مالک۔ جس طرح ایک معمولی پولیس والا آپ کی گاڑی روک کر یا ایک کلرک آپ کی فائل روک کر پوری دادا گری کے ساتھ رشوت وصول کرتا ہے، وہ اس لئے یہ ہمت کرتا ہے کہ کوئی اس کے خلاف ایکشن لینا نہیں چاہتا، سارے لوگ دیکھ کر خاموش رہتے ہیں، کیونکہ انہیں خوف ہے کہ ان کا کام نہ رک جائے۔ بس اسی خوف کا فائدہ اٹھا کر چاہے کوئی پولیس والا ہو، جج ہو، یوگی ہو کہ مودی، سارے فائدہ اٹھا رہے ہیں، جب چاہے جس پر مقدمات دائر کروادیئے، جس کا چاہے مکان منہدم کروادیا، جس کو چاہے انکاؤنٹر کروادیا اور جس کو چاہے دہشت گرد اور غدّار قرار دے دیا۔ دوسرے تمام پیشوں کے لوگوں کے ڈر یا کم ہمتی کی وجہ تو سمجھ میں آتی ہے کہ وہ لوگ قانون سے واقف نہیں، لیکن ایڈوکیٹ حضرات جو قانون جانتے ہیں، لیکن قانون کا ان کے سامنے قتل ہورہا ہے، وہ آواز اٹھانے تیار نہیں۔ غریبوں میں راشن کی تقسیم، بنیادی تعلیم، حیا کی تربیت، روزگار وغیرہ بہت اہم شعبے ہیں، لیکن یہ شعبے آپ کے نہیں۔ اِن کاموں کو کرنے کے لئے اور لوگ ہیں جو بہت خوبی سے یہ کام کررہے ہیں۔ آپ کے کرنے کا کام یہ تھا کہ اسلام کا وہ اہم ترین حکم جو آپ سے بہتر کوئی اور ادا نہیں کرسکتا، آپ نے اسے پورا کرنا تھا یعنی عدل یعنی انصاف کا قائم کرنا۔ انصاف قائم کرنے والوں کو قرآن نے اللہ کا مددگار کہا ہے (سورہ حدید آیت 25)۔ ایک حدیث کے مطابق قیامت سے قبل سب سے پہلے عدل اٹھالیا جائیگا، آخری میں نماز۔ عدل یا انصاف کا تصوّر اس دور میں بہت ہی چھوٹا ہے۔ کیونکہ صدیوں سے جو دینی، علمی اور عملی انحطاط واقع ہوچکا ہے،اس کے نتیجے میں پورا دین ہی چند انفرادی اعمال اور کچھ اجتماعی عبادات میں سکڑ گیا ہے۔انصاف قائم کرنے کی بات جب منبر سے بھی ہوتی ہے وہ خاندان میں، وراثت میں اور آپسی معاملات میں کیسے انصاف کریں، یہ بتایا جاتا کہ اور بالخصوص ساس بہو، طلاق یا خلع وغیرہ کے جھگڑوں میں عام طور پر لفظ انصاف کا استعمال ہوتا ہے۔ حالانکہ عدل کا تعلق پہلے حکومت، سیاست اور معیشت سے ہے۔ یہاں اتنا موقع نہیں کہ ہم تفصیل میں جائیں۔ مختصر یہ اسلام پہلے انصاف قائم کرنے، مساوات، انسانی حقوق، امتیازات کے خاتمے، قیصروکسریٰ جیسے شہنشاہوں کی دولت چھین کر عوامی خزانے میں داخل کرنے، اپنے عہدوں اور اختیارات کا استحصال کرکے کمزوروں پر ڈکٹیٹرشپ کرنے والوں کا خاتمہ کرنے آیا ہے۔ اس کا طریقہ ہر دور میں الگ رہا ہے، اِس دور میں اس کا طریقہ یہی ہے کہ قانون ہی کے ذریعے قانون کی حفاظت کی جائے، اور قانون کو ہی اپنے ہاتھوں میں لینے والے قانون کے محافظوں کے ہاتھ کاتے جائیں۔ یہ کام کسی اور پیشے کا آدمی نہیں کرسکتا، صرف قانون جاننے والا ہی کرسکتا ہے۔آج آپ کو قوم کے لئے ایک سر سید بن کر لوث، بے غرض اور بلا معاوضہ خدمت کے لئے اٹھنا ہے۔ جس طریقے سے فاشسٹ ہر روز نئے نئے قانون لارہے ہیں، یقینا یہ سب آپ بھی جانتے ہیں کہ یہ ساری سازشیں آپ کی ملت کو تہذیبی طور پر تباہ کرکے آپ کی شناخت کو مٹا کر آپ کو دوسرے درجے کا شہری بنانے کی ناپاک کوشیشیں ہورہی ہیں۔ یقینا یہ سب دیکھ کر آپ کا بھی خون کھولتا ہوگا۔ لیکن وہ کیا وجہ ہے کہ آپ کا ردعمل بھی اسی عام آدمی کی طرح رہتا ہے جو صرف میسیجس کو فارورڈ کرتا ہے، بہت ہوا تو سوشیل میڈیا پر کچھ جملے لکھ ڈالتا ہے۔ جن مقدمات سے آپ کو آمدنی ہوتی ہے ان کے لئے تو آپ اپنی پوری پوری ذہانت اور محنت جھونک دیتے ہیں، لیکن قوم کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے، جن کی پیروی کے لئے آپ کو سرسید کی طرح بے لوث اور بے غرض ہوکر اپنی زندگی وقف کردینی چاہئے، وہاں آپ صرف زبانی جمع خرچ کرکے اپنی دانشوری ثابت کرتے ہیں۔ ہر شہر میں کچھ وکیل مل کر ایک ایک ایسی تنظیم بناسکتے ہیں، جو قوم کے لئے اپنے وقت اور مال کا کچھ حصہ وقف کرکے قانونی طور پر ملت کا تحفظ کرکے ذہنوں میں جو لاچارگی، بے بسی اور مایوسی گھر کر چکی ہے، اس کو ختم کرسکتے ہیں۔ موجودہ ہندوستان کا قانون جب تک سلامت ہے، ایک بہترین قانون ہے۔ ہر شہری کو مکمل حقوق اور آزادی دیتا ہے، لیکن اس کو استعمال کرکے قوم کو فائدہ پہنچانے والے کوئی نہیں۔ ایک طرف من مانے قوانین نافذ کئے جارہے ہیں۔ احتجاج کرنے کی اجازت نہیں ملتی۔ معمولی کانسٹبل آکر منتظمین کو ڈرا رہا ہے۔ مسجدوں کے منتظمین کو کسی بھی قسم کے اجتماع کی اجازت دینے پر پابندی ہے۔ آرٹیکل 19 کے ذریعے آپ پولیس کو چیلنج کرسکتے ہیں جو ہر قسم ہر شہر میں کچھ وکیل مل کر ایک ایک ایسی تنظیم بناسکتے ہیں، جو قوم کے لئے اپنے وقت اور مال کا کچھ حصہ وقف کرکے قانونی طور پر ملت کا تحفظ کرکے ذہنوں میں جو لاچارگی، بے بسی اور مایوسی گھر کر چکی ہے، اس کو ختم کرسکتے ہیں۔ موجودہ ہندوستان کا قانون جب تک سلامت ہے، ایک بہترین قانون ہے۔ ہر شہری کو مکمل حقوق اور آزادی دیتا ہے، لیکن اس کو استعمال کرکے قوم کو فائدہ پہنچانے والے کوئی نہیں۔ ایک طرف من مانے قوانین نافذ کئے جارہے ہیں۔ احتجاج کرنے کی اجازت نہیں ملتی۔ معمولی کانسٹبل آکر منتظمین کو ڈرا رہا ہے۔ مسجدوں کے منتظمین کو کسی بھی قسم کے اجتماع کی اجازت دینے پر پابندی ہے۔ آرٹیکل 19 کے ذریعے آپ پولیس کو چیلنج کرسکتے ہیں جو ہر قسم کی میٹنگ اور اجتماع پر لا اینڈ آرڈر کا بہانہ کرکے روک لگارہی ہے یہ Freedom of Speech کے بالکل خلاف ہے۔اس کے علاوہ آرٹیکل 22، میں Protection against Arrrests & Detentionکے تحت کسی بھی قسم کی گرفتاری کے خلاف ضمانت دی گئی ہے، لیکن محض ڈرانے اور خوفزدہ کرنے کے لئے نوجوانوں کو گھنٹوں روک لیا جاتا ہے۔ ایسے کئی مظلوم لوگ ہیں جن پرجرم ثابت کئے بغیر انہیں کئی کئی سال جیلوں میں رکھا گیا۔ آرٹیکل 21 کے تحت Right to Lifeمیں کئی اہم حقوق دیئے گئے ہیں لیکن جو طاقت اور پہنچ رکھتے ہیں وہی اس کا فائدہ اٹھاتے ہیں، باقی جن کو علم نہیں وہ ایک خوفزدہ زندگی گزاررہے ہیں۔ آپ لوگ PIL کی بھرمار کرسکتے ہیں۔ ایک اہم بات یہ عرض کرنی ضروری ہے کہ چونکہ دین میں اجتماعیت یعنی اجتماعی طاقت کو مضبوط کرنے کی سختی سے تاکید کی کئی ہے۔ اس کی اہمیت یہاں تک حدیث میں آچکی ہے کہ اگر دو لوگ بھی سفر کررہے ہوں تو کسی ایک کو امیر بنالو، تاکہ سمع و طاعت کے ساتھ ساتھ شورائیت یعنی مشورہ ہو۔ اپنی اپنی جگہ ہر شخص دانشور اور لیڈر ہوتا ہے۔ لیکن اگر پچاس سمجھدار لوگ ہوں، اور پچاس کے پچاس لیڈر بن جائیں، کوئی والنٹئر نہ رہے تو وہ جماعت کبھی کام نہیں کرسکتی۔ اس وقت قوم کا سانحہ یہی ہے کہ سارے قیادت کرنا چاہتے ہیں۔ اجتماعیت کے احکام کو نظرانداز کرنے کے نتیجے میں دشمن کو آپ کی طاقت کو کمزور کرڈالنے کی آسانی پیدا ہوگئی ہے۔ چونکہ قانون ہی اِس وقت انصاف کو حاصل کرنے اور اپنے اختیارات کا مجرمانہ استحصال کرنے والوں کے خلاف عام شہریوں کو زندگی کی ضمانت دے سکتا ہے، اس لحاظ سے ایڈوکیٹ حضرات اِس وقت ملت کے لئے آکسیجن کا کام کرسکتے ہیں۔ ہر جماعت کو ان کی طاقت کی ضرورت ہے۔ اگر آپ حضرات کسی نہ کسی جماعت کے ساتھ جڑ جائیں جو کہ رسول اللہ ﷺ کا حکم ہے، تو ہر جماعت طاقتور ہوسکتی ہے۔ ایسی جماعتیں جو صرف مذہب اور مسلک کی ترویج کے لئے کام کررہی ہیں، انہیں کوئی خطرہ نہیں، ان میں نئے نئے کارکنان کی تعدا د میں برابر اضافہ ہوتا رہتا ہے، لیکن وہ جماعتیں جو امتیازات، لاقانونیت، عدم مساوات، فرقہ پرستی اور فاشزم کے خلاف اٹھی ہیں۔ لوگ ان کا ساتھ دینے سے خوفزدہ رہتے ہیں۔ سورہ نسا آیت77 میں ایک ایسی ہی سچویشن کا حال بیان کیا گیا ہے کہ کیا تم نے دیکھا ان لوگوں کو جن سے کہا گیا کہ نماز، اور زکوٰۃ قائم کرو اور جہاد سے ابھی اپنے ہاتھ باندھے رکھو، کیونکہ یہی لوگ تھے جب ان پر ظلم ہوتا تھا تو مطالبہ کرتے تھے کہ ہمیں ہتھیار اٹھانے کی اجازت دی جائے، لیکن جب ان پر قتال کا حکم آگیا تو ڈر گئے اور کہنے لگے کہ ابھی اس کی کیا ضرورت تھی، کیا کچھ دن اور ملتوی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ لوگ چاہتے ہیں کہ نماز، روزے، عمرے اور تراویح چلتے رہیں، یہ خود اپنے حقوق حاصل کرنے کے لئے نہ گھروں سے نکلنا چاہتے ہیں اور نہ آواز اٹھانا چاہتے ہیں۔ ان کے دلوں میں خوف گھر کرجانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مسجدوں اور بازاروں میں مخبر اتنی بڑی تعداد میں پھیلا دیئے گئے ہیں کہ یہ لوگ انصاف کے لئے اٹھنے والی جماعتوں سے یہ چاہتے ہیں کہ وہ جاکر پہلے فرقہ پرست فاشسٹ حکمرانوں سے Conduct سرٹیفکٹ لاکر پہلے پیش کریں۔ یعنی موہن بھاگوت اور یوگی کہیں کہ ہاں فلاں فلاں جماعت بہت اچھی جماعت ہے، ان کا ساتھ دیجئے، تب یہ ان کا ضرور ساتھ دینے شاید آگے آئیں گے۔ آپ لوگوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ لوگوں کے دلوں سے خوف دور کرنے کے لئے ایسی جماعتوں کا ساتھ دیں جن کے پاس Mass strength ہے، تبھی وہ جماعتیں ملک میں قانون، امن اور سلامتی لا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر پاپولر فرنٹ نے ایک نومسلم لڑکی ہادیہ کا سپریم کورٹ میں مقدمہ لڑا، اور مذہبی آزادی کے بنیادی حقوق کی حفاظت کی، مولانا محمود مدنی جمؑیعۃ العلما کی جانب سے کئی معصوم لوگوں کے مقدمات لڑرہے ہیں،جماعتِ اسلامی اور، اہل حدیث اور اہلِ سنت الجماعت کے کچھ گروپ بھی یہ کام کررہے ہیں۔آپ صرف مشورے دینے یا تبصرے کرنے کے بجائے عملی طور پر ایک کارکن کی حیثیت سے ان جماعتوں میں شامل ہوکر، قانونی شعبوں کی مکمل ذمہ داری اپنے ہاتھوں میں لے لیں تو ان جماعتوں میں بے شمار نوجوان بے خوف ہو کر شامل ہوسکتے ہیں اور اس ملک کے قانون کی حفاظت کرنے میں اہم رول ادا کرسکتے ہیں۔ ویسے یہ کام تو پولیس اور عدالت کا ہے، لیکن ہر شخص جانتا ہے کہ یہ لوگ فسادات، مسجدوں کے انہدام، کمزور طبقات پر بڑی ذاتوں کے ظلم کے وقت کیا کرتے ہیں۔ ان کے پاس قانون کی کوئی اہمیت نہیں، اِن کے پاس سرکار کی مرضی اور اکثریت کی آستھا ہی قانون ہے۔