اِنصاف ٹائمس ڈیسک
راجستھان کے دارالحکومت جے پور میں حالیہ پولیس کارروائی پر سیاسی ہلچل تیز ہو گئی ہے۔ کانگریس کے چیف وہپ اور ادیش نگر سے ایم ایل اے رفیق خان نے الزام لگایا ہے کہ ریاستی حکومت اور پولیس انتظامیہ نے "بنگلہ دیشی اور روہنگیا” کے نام پر تقریباً 2000 سے 2500 افراد کو غلط طریقے سے حراست میں لیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان میں سے زیادہ تر افراد راجستھان کے شیخاوتی علاقے سے ہیں اور بھارتی شہری ہیں۔
رفیق خان نے 26 مئی کو جے پور میں ایک پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے کہا، "ایک حکم جاری ہوا تھا کہ بنگلہ دیشی اور روہنگیا ہر جگہ گھوم رہے ہیں۔ جے پور شہر سے تقریباً 2000-2500 افراد کو اٹھایا گیا، ان سے آئی ڈی کارڈ اور پاسپورٹ مانگا گیا۔ مزدوروں کے پاس پاسپورٹ نہیں تھا۔ کئی افراد کے پاس آئی ڈی بھی نہیں تھی۔ یہ سب راجستھان، خاص طور پر شیخاوتی سے تعلق رکھتے ہیں۔ میں نے 2000 سے زائد افراد کو پولیس تھانے سے چھڑوایا۔ ایک خاتون ملی جن کے زمین کے کاغذات 1960 کے تھے، جب بنگلہ دیش کا وجود بھی نہیں تھا۔ ایک بھی شخص بنگلہ دیشی نہیں تھا۔ کئی افراد مغربی بنگال سے تعلق رکھتے ہیں۔”
ریاستی حکومت نے غیر قانونی طور پر مقیم بنگلہ دیشی اور روہنگیا شہریوں کے خلاف سخت کارروائی کا آغاز کیا ہے۔ وزیراعلیٰ بھجن لال شرما کی ہدایت پر ریاست کے محکمہ داخلہ نے تمام اضلاع میں خصوصی ٹاسک فورس اور ہولڈنگ سینٹر قائم کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔
راجستھان پولیس نے اب تک 17 اضلاع سے 1008 افراد کو حراست میں لیا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر افراد جے پور، اجمیر اور سیکر سے پکڑے گئے ہیں۔
تاہم، اس کارروائی کے دوران کئی مقامی بھارتی شہریوں کو بھی غلط شناخت کی بنیاد پر حراست میں لیا گیا ہے۔ جے پور کے بگرانا علاقے سے 40-50 افراد کو بنگلہ دیشی سمجھ کر پکڑا گیا، لیکن بعد میں ان کے بھارتی شہری ہونے کے ثبوت ملنے پر انہیں رہا کر دیا گیا۔
انسانی حقوق کی تنظیم "Fortify Rights” نے بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ روہنگیا پناہ گزینوں کی جبری گرفتاری، حراست اور ملک بدری کو فوری طور پر روکے۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی قوانین کے تحت بھارت ان پناہ گزینوں کو تحفظ فراہم کرنے کا پابند ہے۔
جے پور میں ہوئی اس پولیس کارروائی نے ریاست میں سیاسی اور سماجی سطح پر نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ جہاں حکومت غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف سخت رویہ اپنا رہی ہے، وہیں حزب اختلاف اور انسانی حقوق کے ادارے اس کارروائی کی قانونی حیثیت اور انسانی پہلوؤں پر سوال اٹھا رہے ہیں