"آج پولس نے اسمبلی میں مارپیٹ کیا ہے اور کل کو گھروں میں گھس کر ماریں گے ” یہ باتیں٢٣/ مارچ کی شام کو بہار اسمبلی کے باہر اپوزیشن کے نیتا تیجسوی یادو میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہہ رہے تھے. در اصل وہ بہار سرکار کے ذریعہ لائے گئے نئے پولس قانون اور بل پر مباحثہ کے دوران پٹنہ پولیس کے ذریعہ اسمبلی ممبران پر کیے گئے تشدد کے اور ان غنڈئی کے ذریعے پاس کرائے گئے موضوع پر میڈیا سے بات کررہے تھے، جسے٢٣/مارچ کو اسمبلی نے بنایا، اس قانون کے تحت بہار ملیٹری پولس کا نام بدل کر بہار اسپیشل آرمڈ پولیس کردیا گیا. اور اس قانون کے ذریعے پولیس کو فیکٹریوں،ایئرپورٹوں اورمیٹرو وغیرہ کی ذمہ داری بھی سونپ دی گئی ہے. لیکن قانون کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا کہ اس ایکٹ کے لانے میں سرکار کی نیت صاف نہیں، کیوں کہ اس نئی قانون کے ذریعے اسپیشل آرمی کو یہ حق دیا گیا ہےکہ وہ مجسٹریٹ سے اجازت حاصل کیے بناکسی بھی شخص کو گرفتار کر سکتی، یا گھروں پر و دیگر مقامات پر چھاپہ مار سکتی ہے، اس کے ساتھ ہی اگر کسی آفیسر پر تشدد کا الزام لگتا ہے یا ایسی کوئی بھی شکایت ہوتی ہے تو عدالت اس پر اجازت کے بغیر کوئی اقدام نہیں کرسکتی ہے. ایسے میں سوال یہ ہے کہ آخر اس کے پیچھے سرکار کا مقصد کیا ہے؟ نتیش سرکار کے حمایتیوں کا کہنا ہیکہ بہار سے کئی سرحدی علاقے منسلک ہیں اس لیے سرکار کو اایسا قانون لانے کی ضرورت پڑی کیوں کہ بہار اب ترقی کی راہ پر ہے. لیکن یہ دلیل بھی بے معنیٰ سا لگتا ہے کیونکہ اس ذمہ داری کے لیے مرکز کا اسپیشل فورس ایس.ایس.بی و دیگر ایجنسیاں موجود ہیں، ایسے میں بہار سرکار کا الگ اسپیشل فورس بنانا ایک تنازع کی ہی بنیاد ڈالےگا. اس بیچ میں جو شکوک قانون کو لیکر پیدا ہوئے ہیں اس کا ماڈیول نظارہ ٢٣/ مارچ کو ہی راجدھانی پٹنہ میں دکھ گیا جب پولیس نے بل کی مخالفت کرنے والے ممبران کے خلاف پٹنہ پولیس کا استعمال کر، اسمبلی کے اقدار کو پرے رکھ کر ممبران کو باہر پھینکوانے اور بےرحمی سے ارکان اسمبلی کی پٹائی کا کام کیا. ادھر اسی دن کو راجدھانی کے اندر روزگار کے لیے مظاہرہ کر رہے آر.جے.ڈی کارکنان و لیڈران پر بہار پولس لاٹھیاں برسانے کے ساتھ پتھروں کا استعمال بھی کرتی نظر آئی جسے دیکھ کر جامعہ ملیہ میں دہلی پولس اور اترپردیش کے الگ الگ علاقوں میں اترپردیش پولس کی طرف سے ہونے والے اقدامات کا نظارہ آنکھوں کے سامنے آنے لگا تھا. اس قانون کے بننے کے بعد بہار سرکار پرڈیموکریسی و انسانی حقوق کے خلاف سازشوں کے الزام لگنے لگے ہیں. اس کی وجہ اس قانون کے ساتھ ہی قریب کے دنوں میں نتیش کابینہ کے ذریعے لیے گئے چند اور اہم فیصلے بھی ہیں؛ ایک فیصلہ گزشتہ٢١/ جنوری کو بہار پولیس میں اقتصادی جرائم کی یونٹ میں پولیس کے ایڈیشنل جنرل نیر حسنین خان کے خط کے ذریعہ سامنے آیا تھا جس میں ایسے لوگوں و گروپوں پر کارروائی کی بات کہی گئی جوکہ سوشل میڈیا پر وزراء اور سرکاری اہلکاروں کے خلاف تنقید کرتے نظر آئیں گے،اسی کے ساتھ ایک اور فیصلہ نتیش سرکار نے احتجاجی مظاہروں سے متعلق کچھ ہی دنوں پہلے لیا ہے کہ جو لوگ راستوں کو بند کریں گے یا ایسے کسی مظاہرہ میں شامل ہوں گے جس میں نظم و نسق کو نقصان پہونچانے والا کوئی عمل ہوا ہو تو انہیں سرکاری ملازمت و سرکاری ٹھیکوں سے ہاتھ دھولینا ہوگا. یہ تمام قوانین کہیں نہ کہیں مکمل طورپر مخالفت اور اظہار رائے کی آزادی کو کچل دینے کی کوشش و ڈر کا اثر ہی کہے جا سکتے ہیں لیکن ایک جمہوری حکومت مخالفت کی آواز سے آخر اتنا خوف کیوں کھا رہی ہے ؟ اس سوال کے جواب میں اپوزیشن کا وہ الزام ہی صحیح لگتا ہے جس میں کہا جارہا ہے کہ نتیش کمار صرف ایک چہرہ ہیں حکومت در اصل بھاجپا و سنگھ پریوار چلا رہا ہے جو کہ ان اقدامات کے ذریعہ جمہوری اقدار کو ختم کر آئین ہند کا منوسمرتی کرن کر دینا چاہ رہے ہیں.ایسے حالات میں ہر انصاف پسند اور جمہوریت نواز شہری کے سامنے ایک چیلنج اور لمحہ فکر ہے، نیز ان کی جمہوریت نوازی کے امتحان کا وقت بھی آن پڑا ہے کہ کیا وہ لوہیا، امبیڈکر اور گاندھی کے پیغام کو تھام کر اس آوارہ اور مطلق العنان حکومت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کریں گے اور سنسد سے لے کر سڑکوں تک اپوزیشن کے ساتھ مضبوطی سے کھڑیں ہوں گے، یا پھر اپنی نظروں کے سامنے اپنے جمہوری حقوق کاخون ہوتے اور آئین کے بنیادی ڈھانچوں کو منہدم ہوتے دیکھ کر بھی خاموش رہیں گے اور اپنی بزدلی اور کم ہمتی کا ثبوت دے کر ایک تاریخی بھول کر بیٹھیں گے. اس بات کو نہیں بھولنا چاہیے کہ جب حکومت نے UAPAاور NSAجیسے کالے قانون کااعلان کیا اور ہم نے خاموشی اختیار کی تو پھر حکومت نے ان قوانین کا غلط فائدہ اٹھایا، حکومت نے اپنے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو کچل کر رکھ دیا. اب بہت دیر نہیں ہوا ہے وقت رہتے ہی ہوش کے ناخن لیں ورنہ وہ وقت آنے میں بھی کوئی دیر نہیں کہ اپوزیشن لیڈران کے خدشات سچ ثابت ہو جائیں.(مضمون نگار انصاف ٹائمز کے چیف ایڈیٹر اور مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں شعبہ صحافت و ترسیل عامہ کے طالبعلم ہے)