میڈیا کو خواتین کے مسائل پر حساس رویہ اپنانے کی ضرورت اردو یونیورسٹی میں صنفی رپورٹنگ پر پینل مباحثہ ۔ سیما مصطفی، نغمہ سحر اور پروفیسر رحمت اللہ کا اظہار خیال

Spread the love

حیدرآباد، 25 مارچ (پریس نوٹ) خواتین کے تعلق سے خبریں عمومی طور پر تشدد یا جرائم کے معاملے میں ہی آتی ہیں۔ میڈیا میں خواتین کی کم نمائندگی کے باعث بہتر رپورٹنگ نہیں ہوپاتی۔ اسے بہتر بنانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ میڈیا، بشمول اردو، خواتین کے مسائل پر رپورٹنگ کے تعلق سے حساس رویہ اختیار کرے۔ ان خیالات کا اظہار میڈیا کی سرکردہ شخصیات نے آج مولانا آزاد نیشنل اُردو یونیورسٹی کے زیر اہتمام آن لائن راﺅنڈ ٹیبل ”اردومیڈیا میں صنفی رپورٹنگ ۔ چیلینجز اور مواقع“ کے تحت پینل مباحثے کے دوران کیا۔ اس گول میز کا اہتمام شعبہ ¿ ، مرکز مطالعاتِ نسواں اور شعبہ ¿ ترسیل عامہ و صحافت ، مانو نے کیا تھا۔ جبکہ پاپولیشن فرسٹ، اقوام متحدہ آبادی فنڈ اور سفارت خانہ ناروے نے اس کے انعقاد میں تعاون کیا۔ پروفیسر ایس ایم رحمت اللہ، وائس چانسلر انچارج نے صدارت کی۔ اس سمپوزیم میں محترمہ سیما مصطفی، صدر ایڈیٹرس گلڈ آف انڈیا اور ایڈیٹر ان چیف ”دی سٹیزن“ ؛ محترمہ نغمہ سحر، اینکر و ایڈیٹر این ڈی ٹی وی ؛ ممتاز صحافی جناب قربان علی؛ محترمہ راشدہ حسین آئی آر ایس (ریٹائرڈ)؛ جناب محمد اعظم شاہد، سینئر صحافی سالار، بنگلور نے شرکت کی۔ جناب گوہر گیلانی، ممتاز صحافی و سیاسی تجزیہ نگار ماڈیریٹر کے فرائض انجام دیئے۔محترمہ سیما مصطفی نے کہا کہ یہ کہنا کہ اردو زبان مر رہی ہے غلط ہے۔ اردو اخبارات تعداد میں ہندی اور انگریزی کے بعد تیسرے نمبر پر ہیں۔ لیکن دیگر ذرائع ابلاغ کی طرح ان میں صنفی حساسیت کی کمی ہے۔ اخبارات کو اس جانب توجہ دینی چاہیے اور اپنے دفاتر میں خواتین کو بہتر نمائندگی دینی چاہیے۔ 2003ءتک میڈیا پوری طرح قابل اعتماد تھا۔ لیکن ٹیکنالوجی میں اضافہ کے ساتھ ساتھ اس میں کچھ غلط چیزیں آگئی ہیں۔ دیگر علاقائی میڈیا کو ریاستوں کی جانب سے کچھ فوائد دیئے جاتے ہیں۔ لیکن اردو میڈیا اس سے محروم ہے۔ نغمہ سحر، ایڈیٹر و اینکر این ڈی ٹی وی نے کہا کہ پہلے خواتین کو صرف ثقافتی رپورٹنگ دی جاتی تھی۔ اب لڑکیوں کو سیاسی اور جرائم کے کوریج کی ذمہ داری بھی دی جارہی ہے۔ ایڈورٹائزنگ میں بھی خواتین کو گھریلو کام کرتے ہوئے دکھایا جاتا ہے۔ جو غیر محسوس طریقہ سے خواتین کو محض خانہ داری تک محدود رکھنے کی کوشش ہے۔ اس کا تدارک ہونا چاہیے۔ جشن ریختہ وغیرہ سے اردو کی مقبولیت کا اندازہ ہوتا ہے۔پروفیسر ایس ایم رحمت اللہ ، وائس چانسلر انچارج نے صدارتی خطاب میں کہا کہ سماج کی فلاح و بہبود کے لیے میڈیا قائدین کو توجہ دینی چاہیے۔ اس کے علاوہ ہم بھی تعلیم کے معاملے میں ایک اہم مقام پر فائز ہیں ہمیں بھی اپنے کام پر توجہ دینی ہوگی اور جائزہ لینا ہوگا ۔ تاکہ ہم بہتر سماج کی تشکیل میں معاون ہوں۔ میڈیا سے جڑے لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ خواتین کی نمائندگی کو بہتر بنانے کی کاوشیں کریں۔ اسی طرح خبروں کی تصدیق ضروری ہے۔ بلا لحاظ مذہب و ملت، زبان و علاقہ غیر جانبداری کے ساتھ کام ہو۔ممتاز صحافی جناب قربان علی نے کہا کہ بٹوارے کے بعد اردو کے ساتھ سوتیلا سلوک ہوا۔ انڈیا ٹوڈے نے بھی اردو ایڈیشن نکالا لیکن وہ بہت جلد آمدنی کی کمی کے باعث بند کردیا گیا۔ انہوں نے مارکٹ کی کمی کو غلط قرار دیا اور کہا کہ اردو کی مارکٹ ڈھاکہ سے دبئی تک ہے۔ اس کے علاوہ مہاجرین جو یوروپی یا دیگر ممالک میں ہیں وہ اپنے علاقے کی ثقافت کو دیکھنا چاہتے ہیں۔ پیشہ ورانہ انداز میں کام ہو تو اس میں کافی روزگار کے مواقع ہیں۔جناب گوہر گیلانی، ممتاز صحافی و سیاسی تجزیہ نگار، ماڈریٹر مباحثہ نے کہا کہ اردو براڈکاسٹر خواتین کی بات کی جائے تو کئی خواتین ہیں جو بین الاقوامی سطح پر نام رکھتی ہیں۔ ان میں ماہ پارہ صفدر، نعیمہ مہجور، کشور مصطفی قابل ذکر ہیں،جنہوں نے جنوبی ایشیاءسے بین الاقوامی سطح پر نام کمایا ہے۔ لینگویج، کلچر ، میڈیا تینوں ایک دوسرے کو متاثر کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس مباحثے میں جو باتیں نکلیں ہیں وہ سنجیدہ صحافت کی ضرورت ، اردو میڈیا کو روزگار سے جوڑنا، دلچسپی کی خبریں یا فیچر، غیر محسوس طریقہ سے خواتین کے متعلق محض خانہ داری کو فروغ دینے کا رجحان وغیرہ ہیں۔جناب محمد اعظم شاہد، سینئر صحافی سالار، بنگلور ، نے کہا کہ اکنامک اینڈ پولیٹیکل سروے میں بتایا گیا کہ دنیا میں خواتین کا میڈیا میں رول 35فیصد، ہندوستان میں 13 فیصد ہے جب کہ اردو میں یہ انتہائی کم ہے۔ انہوں نے کہا کہ اخبار سالار میں بزم خواتین کے ذریعہ خواتین کی بااختیاری کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ اردو اخبارات کے وسائل کم ہیں۔محترمہ راشدہ حسین، آئی آر ایس (ریٹائرڈ) نے کہا کہ اردو کو غیر ملکی زبان قرار دے کر اسے ایک مخصوص کمیونٹی سے جوڑ دیا گیا جس سے نقصان ہوا۔ اور پھر جس خطے سے اسے جوڑا گیا وہاں بھی اسے غیر ملکی ہی قرار دیا گیا۔ مسائل جو اردو اور دیگر میڈیا میں بھی ہیں، ان میں گمراہ کن خبریں (پروپیگنڈہ) اور جھوٹی خبروں کا مسئلہ ہے۔ اس کے تدارک کے لیے دستور ہند کے تحت اس کی جانچ ہونی چاہیے۔ اخبارات میںنوجوانوں کے لیے بھی مواد ہونا چاہیے۔ ڈاکٹر اے ایل شاردا، ڈائرکٹر، پاپولیشن فرسٹ نے موضوع کے بارے میں بتایا۔ انہوں نے کہا کہ مسلم خواتین جو دیگر زبانوں میں لکھتی ہیں انہیں اردو میں بھی لکھنا چاہیے۔ پروفیسر احتشام احمد خان،ڈین اسکول آف ماس کمیونکیشن اینڈ جرنلزم نے خیر مقدم کیا اور محترمہ سیما مصطفی اور محترمہ اے ایل شاردا کا تعارف کروایا۔ پروفیسر شاہدہ مرتضیٰ، ڈائرکٹر مرکز برائے مطالعاتِ نسواں نے دیگر مہمانان کا تعارف پیش کیا اور شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے افتتاحی کلمات میں کہا کہ میڈیا کو صنفی حساسیت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ میڈیا اگر کوشش کرے تو خواتین کے متعلق بڑے پیمانے پر مثبت تبدیلی کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔

Leave a Comment