اِنصاف ٹائمس ڈیسک
اتر پردیش میں نافذ غیر قانونی مذہب تبدیلی مخالف قانون کے تحت دائر کیے گئے پہلے اور سب سے زیادہ زیر بحث مقدمات میں سے ایک میں عدالت نے تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے محمد ثاقب کو تمام الزامات سے بری کر دیا ہے۔ اس فیصلے نے ایک بار پھر اس قانون کے غلط استعمال اور اس کی آئینی حیثیت پر سنگین سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔
سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا (SDPI) نے اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے ایک پریس ریلیز جاری کی اور مذہب تبدیلی مخالف قانون کو فوری طور پر منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ پارٹی نے کہا کہ یہ فیصلہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس قانون کا استعمال اقلیتوں کو نشانہ بنانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔
محمد ثاقب کے خلاف تھانہ دھامپور، ضلع بجنور میں بھارتی تعزیرات ہند کی دفعات 354، 363، 366، POCSO ایکٹ کی دفعات 7/8، ایس سی/ایس ٹی ایکٹ کی دفعہ 3(2)(5) اور اتر پردیش غیر قانونی مذہب تبدیلی ایکٹ 2020 کی دفعات 3/5(1) کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
بجنور کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج/خصوصی جج (POCSO) کی عدالت نے شواہد کی گہری جانچ اور غیر جانبدارانہ سماعت کے بعد ساقب کو تمام الزامات سے بری کر دیا۔ عدالت کے اس فیصلے سے واضح ہو گیا کہ مقدمے میں شواہد کمزور تھے اور قانون کا استعمال سیاسی یا فرقہ وارانہ مقصد کے تحت کیا گیا تھا۔
سینئر وکیل کومل سنگھ اور ایڈوکیٹ مشرف کمال کی قانونی حکمت عملی اور مضبوط پیروی نے استغاثہ کے دلائل کو کمزور کر دیا اور عدلیہ کو سچائی کی طرف متوجہ کیا۔
سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا (ایس.ڈی.پی.آئی)نے اپنے بیان میں کہا، ’’ثاقب کی رہائی صرف اس کی ذاتی آزادی کی بحالی نہیں ہے، بلکہ یہ ہندوستانی عدالتی نظام اور آئینی اقدار پر یقین کی بھی توثیق کرتی ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ اس ظالمانہ اور امتیازی قانون کو ختم کیا جائے۔‘‘
قابل ذکر ہے کہ اتر پردیش حکومت نے نومبر 2020 میں یہ قانون نافذ کیا تھا، جسے ابتدا ہی سے انسانی حقوق کی تنظیموں اور قانونی ماہرین نے جانبدار اور غیر آئینی قرار دیا تھا۔