ظلم اور نا انصافی کے خلاف احتجاجی میں خواتین کا قائدانہ رول صحافت میں نمائندگی بڑھانے کی ضرورت۔ اردو یونیورسٹی کے ویبنار میں عارفہ خانم، عامر علی خان اور محمود صدیقی کی مخاطبت

Spread the love

حیدرآباد، 24 مارچ (پریس نوٹ) موجودہ دور میں مظالم، ناانصافی اور زیادتیوں کو درج اور ریکارڈ کرنے والوں کی پہلی قطار میں خواتین موجود ہیں۔ احتجاج کے مورچوں پر ڈٹی ہوئی خواتین گھٹاٹوپ اندھیرے میں امید کے چھوٹے چھوٹے چراغوں کے مانند ہیں۔ ان خیالات کا اظہار ممتاز صحافی محترمہ عارفہ خانم، ”دی وائر“ نے آج مولانا آزاد نیشنل اُردو یونیورسٹی کے زیر اہتمام ویبنار ”اردومیڈیا میں صنفی رپورٹنگ ۔ چیلینجز اور مواقع“ کے راﺅنڈ ٹیبل کے دوران کیا۔ اس ویبنار کا اہتمام شعبہ ¿ ، مرکز مطالعاتِ نسواں اور شعبہ ¿ ترسیل عامہ و صحافت ، مانو کے زیر اہتمام کیا جارہا ہے۔ جبکہ پاپولیشن فرسٹ، اقوام متحدہ آبادی فنڈ اور ناروین ایمبیسی اس کے انعقاد میں تعاون کر رہے ہیں۔ پروفیسر صدیقی محمد محمود، رجسٹرار انچارج نے صدارت کی۔محترمہ عارفہ خانم نے مزید کہا کہ اسکرین پر خواتین کی موجودگی مارکٹ ڈیمانڈ کی مرہون منت ہے۔ خواتین کو بااختیار بنانے کی بات کی جاتی ہے لیکن اہم بات یہ ہے کہ خود خواتین انہیں ملے اختیار کا کیسے استعمال کر پاتی ہیں؟ ممتاز خاتون صحافی نے شکایت کی کہ فیصلہ سازی میں عورتوں کا کوئی رول نہیں ہے۔ مردانہ بالادستی کو بڑھاوا دینے میں خود خواتین بالواسطہ طور پر مددگار بن رہی ہیں۔جناب عامر علی خان نیوز ایڈیٹر روزنامہ سیاست، حیدرآباد نے سوشیل میڈیا کو خواتین کے لیے نیا میدان عمل قرار دیا اور اعتراف کیا کہ روایتی میڈیا بشمول اردو میڈیا میںمسلم خواتین کی نمائندگی نسبتاً کم ہے۔ کیونکہ گھریلو ذمہ داریوں اور پیشہ ورانہ تقاضوں کی تکمیل میں توازن مشکل ہوجاتا ہے۔ انہوں نے سیاست اخبار کی تاریخ اور حیدرآباد کے مسلمانوں کے لیے اخبار کی خدمات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا حق گوئی اور بیباکی اخبار کی پالیسی ہے۔ مسلمان اس ملک کا اٹوٹ حصہ ہیں، ان کے حق کے لیے آواز اٹھانا قوم دشمنی نہیں ہے۔ انہوں نے قرآن کے سورہ قلم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہر صحافی کی یہ ذمہ داری ہے کہ سچ ہی کی ترجمانی کرے ۔ انہوں نے عابد علی خان ایجوکیشنل ٹرسٹ اور محبوب حسین جگر کیریئر گائیڈنس سنٹر کی خدمات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس کے ذریعہ مسلمانوں بالخصوص خواتین کی معاشی ترقی کے لیے اخبار سیاست کی جانب سے کوشش کی جارہی ہے۔پروفیسر صدیقی محمد محمود، رجسٹرار انچارج نے صدارتی خطاب میں کہا کہ جمہوریت کی خوبی ہے کہ اس میں اختلاف رائے کی گنجائش ہوتی ہے۔ ضرورت ہے کہ میڈیا بے آوازوں کی آواز ایوانوں تک پہنچائے۔ ہمارے سماج میں شادی کے رقعوں میں لڑکیوں کے نام نہیں دیئے جاتے جبکہ نام کا پردہ نہیں ہے۔ جبکہ ہم نبی کی بیویوں اور بیٹیوں کے نام تک جانتے ہیں۔ ہمیں حقیقت پسندی کے ساتھ خبر کا تجزیہ کرنا چاہیے۔ ہمیں لوگوں کو تعلیم فراہم کرنا ہے تاکہ وہ خبروں کو اور تجزیوں کو سمجھ سکیں۔ خواتین کو ہی نہیں بلکہ پسماندہ طبقات کو بھی تعلیم دیتے ہوئے با اختیار بنانا چاہیے۔پروفیسر شاہدہ، ڈائرکٹر مطالعاتِ نسواں نے ڈاکٹر اے ایل شاردا، ڈائرکٹر پاپولیشن فرسٹ کا تعارف پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا میں خواتین کے متعلق مواد کم ہے اور ان کی نمائندگی پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر اے ایل شاردا، ڈائرکٹر پاپولیشن فرسٹ نے مہمانوں کا تعارف کروایا۔ اس ویبنار میں پروفیسر احتشام احمد خان، ڈین ایم سی جے نے ماڈریٹر کے فرائض انجام دیئے۔ جناب فاضل حسین پرویز، چیف ایڈیٹر گواہ نے اردو صحافت کی تاریخ پر گفتگو کی اور بتایا کہ ہندوستانی میڈیا نے ترقی کے نام پر عورت کے مقام کو گھٹادیا ہے۔ انہوں نے مختلف خواتین کا ذکر کیا جنہوں نے میدانِ صحافت میں طبع آزمائی کی۔ انہوں نے الکٹرانک میڈیا کی نامور خواتین کا ذکر کرتے ہوئے نغمہ سحر، سیما مصطفی، عارفہ خانم، افشاں انجم ، ماہ رخ، عرفانہ، غوثیہ، شمع افروز زیدی کا نام لیا۔ پہلے شہید آزادی ٹیپو سلطان نے شاہی سرپرستی میں فوج کے لیے اخبار جاری کیا۔ انہوں نے کہا کہ پہلے اخبار کے تعلق سے کئی دعوے ہیں جن میں جام جہاں نما، مراة الاخبار، اردو اخبار شامل ہے۔محترمہ فرحت رضوی، سینئر جرنلسٹ، سہارا نے کہا کہ حیدرآباد کی سرزمین کافی زرخیزرہی ہے۔ انہوں نے خواتین صحافیوں کو درپیش مشکلات کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا سرسید تحریک، ڈپٹی نذیر احمد تحریک کے بعد خواتین میں بیداری آئی۔ شعائیں، غبارے جیسے رسائل میں خواتین کی بات قرآن اور سماج کی روشنی میں ہوتی تھی لیکن اس میں صرف نظریہ ہوتا ہے۔ عملی اقدام نہیں ہوتے۔ این جی اوز ، اردو اخباری اور مانو کا مرکز، خواتین کی بااختیاری بنانے کے لیے سمینار منعقد کرتے ہوئے کچھ ٹھوس نتائج اخذ کرسکتے ہیں۔محترمہ عائشہ خانم، سینئر صحافی، دور درشن، بنگلور نے کہا اردو صحافت میں صنفی حساسیت میں اضافہ کی ضرورت ہے۔ اردو میڈیا میں خواتین کی خبروں کو جگہ کم دی جاتی ہے۔ انہوں نے مثال کے طور پر انہیں ملے فخر ملت ایوارڈ کا ذکر کیا۔ پروفیسر محمد فریاد، صدر شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت نے کاروائی چلائی۔ جناب صالح امین، گیسٹ فیکلٹی کی قرا ¿ت کلام پاک سے پروگرام کا افتتاح عمل میں آیا۔ انسٹرکشنل میڈیا سنٹر کی ٹیم نے جناب رضوان احمد، ڈائرکٹر کی نگرانی میں یوٹیوب چیانل پر راست ٹیلی کاسٹ کیا۔

Leave a Comment