اِنصاف ٹائمس ڈیسک
الہ آباد ہائی کورٹ نے ایک اہم تبصرے میں کہا ہے کہ مسلم مردوں کو دوسری شادی کی اجازت صرف اسی صورت میں ہونی چاہیے جب وہ اپنی تمام بیویوں کے ساتھ مساوی اور منصفانہ سلوک کر سکیں۔ عدالت نے واضح کیا کہ اسلام میں تعدد ازدواج (ایک سے زیادہ شادی) کوئی بنیادی حق نہیں بلکہ ایک سماجی ذمہ داری ہے، جسے مخصوص حالات میں ہی جائز قرار دیا گیا ہے۔
جسٹس سریندر سنگھ نے کہا "قرآن مجید میں تعدد ازدواج کی اجازت یتیموں اور بیواؤں کی کفالت جیسے مخصوص سماجی حالات میں دی گئی ہے، لیکن آج کے دور میں بہت سے مرد اس کی تعلیمات کا ناجائز فائدہ اٹھا کر اسے ذاتی خواہشات اور مفاد کے لیے استعمال کر رہے ہیں، جو کہ اسلامی روح کے خلاف ہے۔”
یہ تبصرہ ایک مسلم خاتون کی درخواست کی سماعت کے دوران سامنے آیا، جس میں اس نے اپنے شوہر پر الزام لگایا تھا کہ اس نے بغیر اطلاع اور رضامندی کے دوسری شادی کر لی ہے اور اب اس کے ساتھ امتیازی سلوک کر رہا ہے۔ درخواست میں شوہر کی ذمہ داریوں اور بیوی کے حقوق پر سوال اٹھایا گیا تھا۔
عدالت نے مزید کہا "صرف نکاح کر لینا ہی کافی نہیں، بلکہ تمام بیویوں کے ساتھ انصاف، مساوی رویہ، اور مالی و جذباتی ذمہ داری بھی لازم ہے۔ اگر کوئی مرد یہ ذمہ داریاں پوری کرنے کے قابل نہیں تو پھر اس کے لیے دوسری شادی کرنا شریعت کی اصل روح کے خلاف ہوگا۔”
عدالتی فیصلے کے بعد مسلم سماج میں اس پر شدید بحث چھڑ گئی ہے۔
کچھ علما اور دانشوروں نے اس فیصلے کو اسلام کے عدل و مساوات کے اصولوں سے ہم آہنگ قرار دیا ہے۔
جبکہ کچھ حلقے اسے شخصی مذہبی آزادی میں مداخلت کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
یہ فیصلہ ایسے وقت آیا ہے جب ملک بھر میں مسلم خواتین کے حقوق، تین طلاق، حلالہ اور تعدد ازدواج جیسے حساس موضوعات پر بحث جاری ہے۔ عدالت کا یہ تبصرہ قانون، اخلاق اور دین کی روشنی میں مسلم مردوں کی ازدواجی ذمہ داریوں پر سنجیدہ غور کا متقاضی ہے۔
الہ آباد ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ نہ صرف قانونی دائرے میں بلکہ مذہبی اور سماجی اصولوں کی روشنی میں تعدد ازدواج کی تشریح اور اس کے استعمال پر ایک نئی بحث کا آغاز ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ فیصلہ مسلم پرسنل لا اور خواتین کے حقوق پر جاری بحث کو مزید تقویت دے گا۔