محمد رفیع
تو نے پوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے حق تجھے میری طرح صاحب اسرار کرے ہے وہی تیرے زمانے کا امام بر حق جو تجھے حاضر و موجود سے بیزار کرے علامہ اقبال حکومت بہار نے رواں سال میں آئمہ کرام و مؤذن کو تنخواہ دینے کا اعلان کر کے سماجی اور سیاسی رہنماؤں کے کان کھڑے کر دئے ہیں۔ ایک بڑا طبقہ اسکے خلاف ہے تو وہیں دوسرا طبقہ جو قلیل تعداد پر مشتمل ہے اس کی حمایت کرتا ہے۔ مگر اس پورے معاملے کو سمجھنے کے لئے تمام پہلوؤں کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ ملک کی ریاستوں دہلی، بنگال، تلنگانہ اور بہارو آندھرا میں آئمہ کو تنخواہ دی جارہی ہے یا دیئے جانے کی تیاری چل رہی ہے۔ سب سے بڑا سوال یہاں یہ ہے کہ کیا اس کا لینا جائز ہے؟ دوسرا سوال کہ چونکہ یہ رقم مسجد کے اکاؤنٹ میں آئیگی تو کیا یہ امام یا مؤذن کو دینا ضروری ہے یا ضرورت کے مطابق دیکر باقی اسی اکاؤنٹ میں روک لینا چاہئے۔ اس سلسلے میں ایک دانشور خیال ہے کہ مساجد کے لئے حکومت سے امداد لینا نفسہ ناجائز نہیں ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ مصالح کے پیش نظر اور مقاصد کے اندیشہ سے علماء اسے پسند نہیں فرماتے ہیں۔ دراصل وہ چاہتے ہیں کہ حکومت کی مدد کے بغیر ہی چندے کی رقم سے مساجد کے تمام ضروریات پوری کی جائیں جس میں آئمہ کرام و مؤذن کی تنخواہ بھی شامل ہیں۔ اس لئے سرکاری امداد قبول نہ کی جائے اور چندے پر اسے موقوف کیا جائے۔ حالانکہ سب سے پہلے تو ہمیں امام، مؤذن کی ذمہ داری اور ان کی اہمیت کو سمجھ لینا ضروری ہے۔ امامت بہت ہی معزز منصب ہے، اسلامی اسٹیٹ میں اسے کافی اہمیت حاصل تھی۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پوری زندگی مسجد نبوی کے امام و خطیب رہے۔ مؤذن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ نماز کے اوقات کی خبر دینا اور انہیں دن کے پانچ وقت کامیابی کی طرف بلانا بھی نہایت ہی شرف اور فضیلت والا عمل ہے، کل قیامت کے دن یہ سب سے اونچی گردن والے ہونگے۔ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایسے مؤذن تھے جن کی اذان کی آواز سننے کے لئے لوگ منتظر رہتے تھے۔ ان کے بارے میں یہاں تک کہا جاتا ہے کہ ہوگی نہ صبح جب تک نہ دینگے اذان بلال۔ امام اور مؤذن دونوں کا مسجد سے گہرا رشتہ ہوتا ہے، دراصل دونوں عہدہ مسجد سے ہی وابستہ ہیں۔ مسجد کی یہ حقیقت ہے کہ مسلمانوں کو دی جانے والی تمام تر تعلیمات مسجدوں کے ذریعہ ہی پایۂ تکمیل کو پہنچتی تھیں، چاہے معاشرتی مسائل ہوں یا اللہ کے راستے میں جہاد کے لئے نکلنے کی تدبیریں، چاہے تعلیم و تعلم ہو یا دیگر امور سب امام کے ذریعہ ہی لوگوں تک پہنچتے تھے۔ اسی لئے آل امام ویلفئیر ایسوشین کے صدر عمران صدیقی کا کہنا ہے کہ امام نماز پڑھانے کے ساتھ اطراف کے لوگوں کو دین بھی سمجھاتےہیں۔ دین مسجد سے پھیلا، مسجد ہماری پہلی پرائیمری تعلیم گاہ ہے جبکہ مدرسہ ہائیر ایجوکیشن ہوا کرتے تھے۔ اتر پردیش کے متعلق انہوں کہا کہ حکومت آئمہ کرام کو تنخواہ دینے کے معاملے پر خاموش ہے اور وقف بورڈ بھی فنڈ نہ ہونے کا رونا رو رہی ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں وقف بورڈ کے چیئرمین سے بات کی ہے اور اس سے قبل اکھیلیش یادو سے بھی بات کی تھی جو بے سود ثابت ہوا تھا۔ حکومت جو اعلان کر رہی ہے وہ ان مساجد کے لئے جو وقف سے رجسٹرڈ ہیں، یعنی انکی املاک پر وقف بورڈ کے ذریعہ حکومت کا مالیکانہ ہے۔ درحقیقت میں بتادوں کہ ملک بھر میں وقف کی املاک بے حساب ہے جس پر خود مسلمانوں سے لے کر حکومت کی بھی نگاہیں گڑی ہیں۔ حکومت تنخواہ کی آر میں بہت گندا کھیل کھیل رہی ہے ہمارے پیسے سے وہ ہمارے قائد، پیشوا یعنی امام کو خریدنا چاہتی ہیں، اس طرح حکومت تمام مساجدوں میں اپنا ایجنٹ کھڑا کرنا چاہتی ہیں۔ وقف املاک کا اگر صحیح استعمال لوکل کمیٹیاں خود کریں تو وہ بہترین عبادت گاہوں اور درسگاہوں کا نظم کر سکتی ہیں اور ہمارے بچے جو آج میعاری تعلیم کے لئے بھٹک رہے ہیں، انہیں بھٹکنا بھی نہیں پڑیگا اور ساتھ ہی سستی، کفایتی میعاری تعلیم بہت ہی سہولیت کے ساتھ دستیاب ہوگی۔ مگر شرط ہے کہ ان املاک پر جو خدمت خلق کے نام پر وقف ہے اس کا بے جا استعمال اور اس میں ہو رہی خرد برد روکی جائے، پیسہ لے کر صدر سیکریٹری بنانے کا سلسلہ بند ہونا چاہئے۔ ایماندار اور باصلاحیت افراد کے ذمہ ہی وقف کی املاک ہونی چاہئے۔ بی جے پی کے قومی ترجمان جناب شاہ نواز حسین نے بہار کیبینیٹ کا رکن بننے کے ساتھ ہی وقف کی املاک کے صحیح استعمال کا مشورہ دیا ہے یعنی ان کی نگاہ بھی اس پر ہے۔ حالانکہ انہوں نے باتیں بہت اچھی کہی ہیں مگر ہمیں چکنی چپڑی باتوں کے پیچھے کی سیاست سے بھی بخوبی واقف ہونا چاہئے تاکہ ہم اس کے شکار نہ ہو جائیں۔ سنی وقف بورڈ کے چیئرمین جناب الحاج محمد ارشاداللہ نے بہت ہی صاف لفظوں میں کہا کہ سال 2009 سے ہم اس کوشش میں لگے تھے کہ آئمہ کرام و مؤذن کو تنخواہ دی جائے اب جا کر کامیابی ملی ہے ۔ ہم نے وزیر اعلیٰ بہار جناب نتیش کمار کو لکھا ہے ممکن ہے بہت جلد اس پر عمل ہوگا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ خود کفیل مساجدوں کی جگہ ویسی چھوٹی مساجد ہماری ترجیحات میں ہیں جسے کوئی آمدنی نہیں ہے اور عوامی چندے سے ان کا کام چلتا ہے۔ چئیرمین صاحب کی یہ سوچ قابل ستائش ہے وہ اپنے لیبل پر حکومت کا حصہ ہونے کی وجہ سے وزیر اعلیٰ کو مسلمانوں کے مسائل سے روبرو کراتے ہیں اور ان کے مطابق نتیش کمار اس پر سنجیدگی سے غور فرماتے ہیں۔ جیسا کہ معلوم ہی ہے اتر پردیش کے متعلق عمران صدیقی نے کہا کہ حکومت بیزار ہے اور وقف بورڈ فنڈ کا رونا رو رہی ہے ایسے میں بہار وقف بورڈ کے چیئرمین کی پہل قابل تحسین ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ بہار میں کل 1058 مساجد اور قریب پانچ ہزار ایکڑ زمین رجسٹرڈ ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جو مساجد ابھی تک رجسٹرڈ نہیں ہیں وہ وقف بورڈ پٹنہ سے رجسٹرڈ کرالیں تو انہیں بھی فائدہ ہو سکتا ہے۔ بہار میں جب حکومت کی طرف سے آئمہ کرام و مؤذن کو تنخواہ دینے کی تجویز پیش کی گئی تو مسلم آرکچھن مورچہ کے ریاستی صدر جناب نوشاد احمد نے کہا کہ یہ ہماری کاوشوں کا ہی نتیجہ ہے جواعلان ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2017 سے ہی ہم لوگوں نے اس سلسلے میں تحریک چلا رکھی تھی، 22 سے زیادہ پروگرام کئے اور دسمبر 2019 میں مورچہ کے قومی صدر جناب پرویز صدیقی کے ساتھ وزیر اعلیٰ بہار جناب نتیش کمار سے مل کر امام اور مؤذن کو تنخواہ دینے کی بات کی تھی جس پر اب عمل ہو رہا ہے۔ اب بات وہیں رک رہی ہے کہ آج امام کی تنخواہ کتنی ہیں۔ میں بتادوں کہ گاؤں کی مسجدوں میں چار سے پانچ ہزار بہ مشکل، مؤذن کو صرف دل جوئی کے لئے کچھ رقم یا پھر کاشتکاری کے لئے زمین کا ٹکڑا۔ شہر میں پانچ ہزار سے زائد اور دس ہزار سے کم جبکہ مؤذن کو دو ہزار سے زائد اور پانچ ہزار سے کم۔ وہیں سرکار کی طرف سے امام کو پندرہ ہزار اور مؤذن کو دس ہزار دینے کی بات کہی جا رہی ہے، ایسے میں ہمارے آئمہ کرام اور مؤذن سرکاری تجویز کی حمایت کرینگے جبکہ عوام کا نظریہ ہے کہ سرکاری مدد حاصل کرنے کے بعد امام اور مؤذن کا حال سرکاری ڈپارٹمنٹ کے ملازم جیسا ہوجائے گا۔ اس بات کے اندازہ کے لئے ہم سرکاری اور غیر سرکاری مدارس کا جائزہ لے سکتے ہیں۔ ہمیں ہمارے وجود کو باقی رکھنے کے لئے دینی ادارے اور عبادت گاہوں میں سرکاری امداد کی فراہمی پر بڑی سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا اور ہمارے لئے اپنے آئمہ کرام، مؤذن اور علماء کرام کا احترام بھی لازم ملزوم ہونا چاہئے۔ ہمارے معاشرے نے امام کو غلام کی حالت میں لا دیا ہے۔ گھر چلانے کے لئے ہمیں پچیس سے پچاس ہزار روپىیہ کی درکار ہوتی ہے اور ایک امام کو؟ کیا یہ سچ نہیں کہ ہم انہیں حرام خوری کی دلدل کا راستہ دکھا رہے ہیں۔ جوش ملیح آبادی نے کیا خوب کہا ہے نیند سے بیدار ہو، احساس کام کی قسم جاگ اٹھو، پیغمبر اسلام کے دل کی قسم