حیدرآباد، 23 مارچ (پریس نوٹ) شہر حیدرآباد کی آصفیہ لائبریری عربی و فارسی قلمی نسخوں کے اعتبار سے برصغیر کا سب سے بڑا کتب خانہ ہے جس میں قلمی نسخوں کی تعداد 50ہزار سے زائد ہے۔ آخری آصف جاہی حکمراں میر عثمان علی خان کی علم دوستی کی بہترین مثال جامعہ عثمانیہ ہے۔ یونیورسٹی میں مسلمانوں کے لیے دینی تعلیم اور دیگر کے لیے اخلاقی تعلیم لازمی تھی۔ اس میں دارالترجمہ کی اہمیت بھی مسلم ہے۔ اس ادارے نے 500 کتابیں ترتیب دیں ۔ اس کے باعث حیدرآباد کا نام دنیا بھر میں نمایاں ہوا۔ ان خیالات کا اظہار ممتاز اسکالر پروفیسر اشتیاق احمد، مرکز برائے مطالعاتِ فارسی ، جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، دہلی نے آج دکن کی مشہور و معروف شخصیت راجہ دھن راجگیر سے موسوم ایک یاد گاری خطبے میں کیا۔ شعبہ فارسی کے زیر اہتمام اور قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ، نئی دہلی کے اشتراک سے منعقدہ یادگاری خطبہ کا عنوان ”دکن میں فارسی زبان و ادب اور تہذیب و ثقافت“ تھا۔ اس لیکچر کو وزارت تعلیم کی منظوری حاصل ہے۔ پروفیسر ایس ایم رحمت اللہ، وائس چانسلر انچارج نے صدارت کی۔پروفیسر اشتیاق احمد نے کہا کہ عمومی طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ مغلوں کے دور میں فارسی پر کافی کام ہوا ہے۔ لیکن دکن کے حوالے سے کی گئی تحقیق سے پتہ چلا کہ یہاں فارسی زبان و ادب پر کام مغلوں سے کم نہیں ہے۔ کسی بھی معاشرہ کو سمجھنے کا سب سے آسان طریقہ اس کا ادب ہوتا ہے۔ اس میں رسوم و رواج ، رہن سہن، تہذیب و ثقافت کی تفصیل مل جاتی ہے۔انہوں نے کہا کہ قدیم زمانے سے برصغیر اور ایران کا تعلق رہا ہے۔ غزنوی حکمراں مسعود اول کے دربار سے وابستہ لاہور کے مشہور شاعر ابو عبداللہ کو یہاں پہلا فارسی شاعر تسلیم کیا جاتا ہے۔ بہمنی دور میں فارسی زبان و ادب کے حوالے سے یہ کہنا مناسب ہوگا کہ یہاں کی تہذیب، تمدن، ادب، سماج و ثقافت پر ایران کے اثرات کافی گہرے پائے جاتے تھے۔ شمالی ہند سے دکن کا باقاعدہ تعلق خلجی افواج کی فتح کے بعد قائم ہوا۔ فتح دکن دونوں خطوں کے لیے ادبی اور ثقافتی اعتبار سے کافی اہمیت کا حامل ہے۔ بہمنی عہد میں فارسی کو سرکاری زبان بننے کا موقع ملا۔ علاءالدین حسن جب بادشاہ ہوا تو دارالسلطنت کو گلبرگہ لے آیا۔ ہندوستان کے زیادہ تر حصہ پر جنوبی ایشیاءکا اثر رہا ہے۔ جب کہ دکن کا حصہ ایران سے منسلک رہا۔ ایران سے جنوبی ہند آنے والے مشہور نام عبدالملک سلامی، شیخ عین الدین بیجاپوری، مفتی احمد حروی، حکیم نصیر الدین شیرازی، حکیم علیم الدین تبریزی، معین الدین حرمی ، سیف الدین غوری و دیگر شامل ہیں، جو بہمنی دربار سے وابستہ تھے۔ خواجہ محمود گاو اں ، سیف الدین غوری تاریخ میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ محمود گاواں کا شکستہ مدرسہ آج بھی اس کی اولوالعزمی، نفاست ذوق اور علم پروری کافسانہ سناتا ہے۔ عادل شاہی دور میں بھی فارسی زبان و ادب کو کافی تقویت حاصل ہوئی۔ یوسف عادل شاہ نے ایران ، ماورا لنہر اور عربی علماءکو یہاں آنے کی دعوت دی۔ متعدد علماءنے یہاں کا رخ کیا۔ علی عادل شاہ اپنی انتظامی صلاحیت اور ادبی سرپرستی کے لیے مشہور تھا۔نظام شاہی دور مختصر تھا اور شمالی مغلوں کے خطروں سے گھرا رہتا تھا۔ سب سے اہم تاریخ برہان المعاثر سید علی بن عزیز اللہ طباطبائی نے رقم کی۔ سلطان قلی 1495ءمیں تلنگانہ کا صوبہ دار بنا اور محمود شاہ بہمنی کی وفات کے بعد اس نے اپنی خود مختاری کا اعلان کردیا۔ اس دور میں اہم ترین تصنیفات فارسی سے متاثر تھیں۔ اس کے بعد فارسی آصف جاہی کا دور آیا۔ نادر شاہ کے حملے کے بعد حیدرآباد سب سے زیادہ پر امن شہر تھا۔ اس لیے اہل علم و اہل فن یہاں پر آئے۔ شاہنواز خان کئی کتابوں کے مصنف تھے جن میں اہم معاصر الامراءہے۔ اس میں دہلی کے امیروں کے حالات ملتے ہیں۔ غلام علی آزاد بھی اپنے دور کے بہت بڑے سوانح نگار تھے۔ ان کی تصنیفات پر تحقیق و تدریس کا کام جاری ہے۔ دکنی شہر ہند ایرانی یا ہند اسلامی طرز پر تعمیر ہوئے۔ ان میں گلبرگہ، بیدر، بیجاپور شامل ہیں۔ ان کے گنبد، کمان وغیرہ پر ایرانی شہروں کی جھلک ملتی ہے۔ حیدرآباد کی بات کی جائے تو یہ ایرانی شہر اصفہان کے نمونے پر تعمیر کیا گیا ہے۔ مغلیہ حکومت کے کمزور پڑنے کے بعد فارسی کے استعمال میں کمی آئی اور وسط ایشیاءسے علماءکی آمد بند ہونے کے بعد اس میں مزید کمی آگئی اور اردو کو فروغ ملا۔پروفیسر ایس ایم رحمت اللہ، وائس چانسلر انچارج نے کہا کہ راجہ دھنراج گیر جو کہ مشہور و معروف فرزندانِ دکن میں شامل ہیں ان کی یاد کو تازہ رکھنے کے لیے اس یادگاری لیکچر کے لیے شعبہ ¿ فارسی مبارکباد کا مستحق ہے۔ آج کا خطبہ ریسرچ اسکالرس کے لیے خصوصی طور پر اہمیت کا حامل ہے۔ ڈاکٹر سیدہ عصمت جہاں، کوآرڈینیٹر میموریل لیکچر نے خیر مقدم کیا۔ پروفیسر شاہد نوخیز اعظمی نے کاروائی چلائی۔ پروفیسر عزیز بانو، صدر شعبہ فارسی نے شکریہ ادا کیا۔