حیدرآباد، 22 مارچ (پریس نوٹ) یہ عہد نہ صرف اولیاءکرام کی تعلیمات کا ذکر کرنے اور سمجھنے کا ہے بلکہ ان پر عمل کرنے اور اسے دوسروں تک پہنچانے کا بھی ہے۔ خواجہ بندہ نوازؒ کی اصلاح معاشرہ سے متعلق جو خدمات رہی ہیں انہیں منظر عام پر لایا جائے تو اس کانفرنس کا مقصدپورا ہوجائے گا۔ اولیاءنے ہمیشہ شرک، بدعات کو دور کرنے اور اصلاح معاشرہ کی کوشش کی ہے۔ انہیں عام کرنے کی ضرورت ہے۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر ایس ایم رحمت اللہ ، وائس چانسلر انچارج نے آج مولانا آزاد نیشنل اُردو یونیورسٹی کے شعبہ ¿ فارسی اور قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ، نئی دہلی کے اشتراک سے منعقدہ دو روزہ قومی کانفرنس میں کیا۔ وہ کانفرنس ”خواجہ بندہ نواز گیسو دراز ؒ، ملفوظات ،مکتوبات، مطبوعات ، تعلیمات و خدمات : فارسی ماخذ کے حوالے سے“ کے افتتاحی اجلاس میں صدارتی خطبہ دے رہے تھے۔ پروفیسر رحمت اللہ نے کہا کہ ملت اسلامیہ میں موجود اختلافات کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلہ میں خواجہ بندہ نوازؒ کی تعلیمات کیا کہہ رہی ہیں اسے منظر عام پر لاسکیں اور لوگوں کو متحد کرسکیں تو یہ بڑی کامیابی ہوگی جو ہم اس پلیٹ فارم سے کر سکیں گے۔ انہوں نے قرآن کے حوالے سے کہا کہ اللہ و رسول کی اتباع کیجئے ۔ پروفیسر رحمت اللہ نے کہا کہ کتاب و سنت سے ہدایت لیتے ہوئے ہمیں اپنے اختلافات دور کرنے چاہئیں۔پروفیسر عارف ایوبی، صدر نشین، فخرالدین علی احمد میموریل کمیٹی، لکھنو ¿ و شعبہ ¿ فارسی، لکھنو ¿ یونیورسٹی ، مہمانِ خصوصی نے کہا کہ حضرت خواجہ بندہ نوازؒ نویں صدی کے جید عالم تھے۔ وہ برگزیدہ ہستی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اعلیٰ مقام عطا کیا۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کو پہچانا اور لوگوں کی اصلاح کی۔ اس کے علاوہ شرک ، فضول رسومات، بدعات، خرافات کو دور کرنے اور انبیائی مشن پر عمل آوری ان کا مقصد حیات تھا۔پروفیسر عبدالحمید اکبر، صدر شعبہ ¿ اردو و فارسی، خواجہ بندہ نواز گیسو دراز یونیورسٹی، گلبرگہ نے کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ خواجہ بندہ نواز گیسو درازؒ اپنے مریدین کی تعلیم کے لیے فصوص الحکم، عشق نامہ، حقیقت محمدیہ جیسی کتابوں کی تعلیم دیا کرتے تھے۔ انہی کتابوں کی انہوں نے فارسی میں شرح بھی لکھی۔ انہوںنے عربی، فارسی اور دکنی میں اپنے رسالے لکھے۔ انہوں نے کہا کہ دہلی کے قیام کے دوران خواجہ بندہ نوازؒ نے ”تمہیدات“ جسے خانقاہوں میں اسرار الٰہیہ کہا جاتا ہے کی شرح لکھی۔ انہوں نے آداب المریدین کا بھی ترجمہ کیا۔ 801 تا 803 ھ میں خواجہ بندہ نواز نے دہلی سے گلبرگہ ہجرت کی۔ اس دوران انہوں نے کچھ کتابوں کا ترجمہ بھی کیا۔ انہیں سلطان القلم بھی کہا جاتا ہے۔ ان کی ہر کتاب کا موضوع عشق ہے۔ درد عشق جو خدا تک پہنچاتا ہے۔ جواہر العشاق جو غوث اعظمؒ کی عربی تصنیف ہے اسے بندہ نوازؒ نے فارسی میں ترجمہ کیا۔ تفسیر سورہ ¿ فاتحہ وغیرہ پر بھی انہوں نے رسالہ لکھا۔ ان کے 4 ملفوظات مرتب ہوئے ۔ اس میں جواب الکلیم آج بھی موجود ہے۔ مولانا عبدالحق محدث دہلی، نے انہیں اولیاءکے امام صدر الدین علی اکبر کہا ہے۔پروفیسر اشتیاق احمد ، شعبہ ¿ فارسی ، جواہر لعل نہرو یونیورسٹی مہمانِ اعزازی نے اپنے خطاب میں کہا کہ فارسی زبان و ادب کی ترویج میں صوفیائے دکن نے نمایاں خدمات انجام دیں۔ عہد تغلق میں کئی صوفیاءدہلی سے دکن آئے۔ سرزمین دکن کو علمی، ادبی مقام پر پہنچانے میں اہم ترین ہستی خواجہ بندہ نوازؒ کی ہے۔ حضرت گیسو درازؒ کو باطنی کے ساتھ ظاہری علوم پر دسترس حاصل تھی۔ وہ 44 سال دہلی میں رہنے کے بعد گلبرگہ تشریف لائے۔ اس وقت احمد شاہ بہمنی کی حکومت تھی۔ 22 سال تک گلبرگہ میں آپ کی رشد و ہدایت جاری رہی۔ وہ سلسلہ ¿ چشتیہ کے پہلے بزرگ ہیں جنہوں نے بڑے پیمانے پر تصنیف و تالیف کی۔ کئی دینی کتب کی شرح لکھی۔ سید محمد اکبر حسینی کی مرتبہ ملفوظات سب کے لیے کارآمد کتاب ہے۔ڈاکٹر شیخ عقیل احمد، ڈائرکٹر قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نے اپنے پیام میں کہا کہ اگر کانفرنس میں خواجہ بندہ نواز کی تخلیقات کو جمع کر کے این سی پی یو ایل کو بھیجا جائے تو میں اسے شائع کرنے کی کوشش کروں گا۔ مہمانانِ اعزازی ڈاکٹر نعمت اللہ، ایران زادہ، رئیس دانشکدہ ادبیات وفارسی و زبان خارجی، درسگاہ ، علامہ طبا طبائی ، تہران اور ڈاکٹر علی رضا پور محمد، ڈائرکٹر مرکز مطالعات ایران بالکان و اروپای مرکزی بلغاریہ نے فارسی میں اظہار خیال کیا۔ پروفیسر عزیز بانو ، صدر شعبہ نے استقبال کیا۔ پروفیسر شاہد نوخیز اعظمی، ڈائرکٹر کانفرنس نے کاروائی چلائی۔ ڈاکٹر سیدہ عصمت جہاں، اسسٹنٹ پروفیسر نے شکریہ ادا کیا۔ طالب علم مقصود علی شاہ کی قرا ¿ت کلام پاک سے جلسہ کا آغاز ہوا۔ انسٹرکشنل میڈیا سنٹر کی ٹیم نے جناب رضوان احمد کی نگرانی میں کانفرنس کا یوٹیوب چینل youtube.com/imcmanuu پر راست ویب کاسٹ کا اہتمام کیا۔