اِنصاف ٹائمس ڈیسک
اتر پردیش کے جھانسی سے ایک حیران کن معاملہ سامنے آیا ہے جہاں رمضان کے مقدس مہینے میں ایک 40 سالہ مسلم خاتون کو ایک نابالغ ہندو لڑکی کے مبینہ مذہب تبدیلی کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔ لیکن خاتون کا کہنا ہے کہ یہ الزامات سراسر بے بنیاد ہیں اور پڑوسی ہندو خاندان نے قرض کی واپسی سے بچنے کے لیے ان پر جھوٹا مقدمہ درج کروایا ہے۔
متاثرہ خاتون، شہناز عرف ثنا، بھاندیڑی گیٹ علاقے کی رہائشی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے کسی پر بھی مذہب تبدیل کرنے کا دباؤ نہیں ڈالا، بلکہ انہیں جان بوجھ کر پھنسانے کی کوشش کی گئی ہے کیونکہ پڑوسی خاندان نے ان سے کچھ رقم قرض لی تھی، جسے واپس نہ کرنے کے لیے یہ جھوٹی کہانی گھڑی گئی۔
دوسری طرف پولیس کا کہنا ہے کہ لڑکی کے والد کی شکایت کی بنیاد پر اتر پردیش مذہب تبدیلی مخالف قانون 2021 کے تحت مقدمہ درج کر کے کارروائی کی گئی ہے۔ لڑکی کے خاندان کا دعویٰ ہے کہ ان کی بیٹی نے خاتون کے کہنے پر روزے رکھنا اور نماز پڑھنی شروع کر دی تھی۔
شہناز کا کہنا ہے کہ وہ ایک عام عورت ہیں اور کسی کو مجبور کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ انہوں نے انصاف کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ایک جھوٹے مقدمے کے ذریعے انہیں ذہنی اور سماجی طور پر ہراساں کیا جا رہا ہے۔
یہ واقعہ ایک بار پھر اس سوال کو جنم دیتا ہے کہ کیا مذہب تبدیلی مخالف قانون کا غلط استعمال تو نہیں ہو رہا؟ انتظامیہ کو چاہیے کہ غیرجانبدارانہ تفتیش کے ذریعے اصل حقیقت سامنے لائے۔