اِنصاف ٹائمس ڈیسک
فروری 2020 میں شمال مشرقی دہلی میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کے دوران دو مسلم نوجوانوں، آمین اور بھورا علی، کے قتل کے الزام میں گرفتار 12 ہندو ملزمان کو دہلی کی ایک عدالت نے ثبوتوں کی کمی کے باعث بری کر دیا۔ عدالت نے واضح کیا کہ واٹس ایپ چیٹ کو ٹھوس ثبوت کے طور پر قبول نہیں کیا جا سکتا۔
عدالت کا فیصلہ
ایڈیشنل سیشن جج پُلستیا پرماچلا نے کہا کہ استغاثہ یہ ثابت کرنے میں ناکام رہا کہ ملزمان بلوائی ہجوم کا حصہ تھے۔ عدالت نے ملزم لوکندر کمار سولنکی کے واٹس ایپ چیٹ کو بھی ناقابل قبول ثبوت قرار دیا، جس میں اس نے مبینہ طور پر قتل کی بات تسلیم کی تھی۔
جج نے کہا، "واٹس ایپ پوسٹ صرف خود کو ہیرو دکھانے کے لیے کی جا سکتی ہیں۔ جب تک کوئی براہ راست ثبوت نہ ہو، اسے ٹھوس شہادت نہیں مانا جا سکتا۔”
واٹس ایپ گروپ ‘کٹّر ہندو ایکتا’ کا حوالہ
استغاثہ نے دعویٰ کیا تھا کہ ملزمان ‘کٹّر ہندو ایکتا’ نامی واٹس ایپ گروپ میں فسادات کے دوران قتل کے حوالے سے گفتگو کر رہے تھے۔ لیکن عدالت نے کہا کہ ان چیٹ میسیجز کی بنیاد پر یہ ثابت نہیں کیا جا سکتا کہ ملزمان جائے وقوعہ پر موجود تھے یا انہوں نے جرم انجام دیا تھا۔
متاثرہ خاندانوں اور سیاسی جماعتوں کا ردعمل
مقتولین کے اہل خانہ نے اس فیصلے پر ناراضگی ظاہر کی ہے اور کہا کہ انہیں اب بھی انصاف کی امید ہے۔ دوسری طرف، کچھ سیاسی جماعتوں نے اس فیصلے کو عدالتی عمل کی کمزوری قرار دیا، جبکہ دیگر نے اسے صحیح ٹھہرایا۔