اِنصاف ٹائمس ڈیسک
مدراس ہائی کورٹ کی مدورائی بینچ نے حالیہ ایک اہم فیصلے میں واضح کیا ہے کہ اگر بیوی تنہائی میں فحش مواد دیکھتی ہے یا خود کو جنسی تسکین فراہم کرتی ہے، تو اسے شوہر کے خلاف ظلم یا ذہنی اذیت قرار نہیں دیا جا سکتا اور نہ ہی یہ طلاق کی بنیاد بن سکتا ہے۔
جسٹس جی آر سوامی ناتھن اور جسٹس آر پورنیما کی بینچ نے کہا کہ جب تک یہ ثابت نہ ہو کہ ایسے اعمال سے ازدواجی تعلقات پر کوئی منفی اثر پڑا ہے، تب تک اسے ظلم یا زیادتی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ عدالت نے مزید کہا کہ آئین میں دیے گئے نجی حقوق میں میاں بیوی کی ذاتی زندگی بھی شامل ہے اور شادی کے بعد بھی ایک عورت اپنی شناخت اور جنسی خودمختاری برقرار رکھتی ہے۔
عدالت نے یہ بھی تبصرہ کیا کہ معاشرے میں اکثر مردوں کی طرف سے خود کو جنسی تسکین فراہم کرنے کو عام سمجھا جاتا ہے، لیکن خواتین کے لیے اسے معیوب تصور کیا جاتا ہے۔ عدالت نے اس دوہرے معیار پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ اگر مرد ایسا کر سکتے ہیں تو خواتین کو غلط کیوں قرار دیا جائے؟
یہ فیصلہ ایک شوہر کی جانب سے دائر طلاق کی درخواست کے سلسلے میں آیا، جس میں اس نے اپنی بیوی پر الزام لگایا تھا کہ وہ فحش فلمیں دیکھتی ہے اور خود کو جنسی تسکین فراہم کرتی ہے، جس کی وجہ سے اس کی ازدواجی زندگی متاثر ہو رہی ہے۔ فیملی کورٹ نے پہلے ہی اس درخواست کو مسترد کر دیا تھا، جسے ہائی کورٹ نے بھی برقرار رکھا۔
مدراس ہائی کورٹ کے اس فیصلے نے ازدواجی زندگی میں انفرادی آزادی اور پرائیویسی کے حق پر ایک اہم نقطہ نظر پیش کیا ہے، جو معاشرے میں صنفی برابری اور شخصی حقوق کے شعور کو فروغ دیتا ہے۔