اِنصاف ٹائمس ڈیسک
حکومت کی جانب سے پیش کردہ وقف ترمیمی بل 2024 میں متعدد ایسی شقیں شامل کی گئی ہیں جو وقف املاک کے تحفظ کے بجائے ان کے نقصان کا سبب بن سکتی ہیں۔ ماہرین اور مذہبی رہنماؤں نے ان ترامیم کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ یہ وقف کی خودمختاری کو کمزور کرنے اور سرکاری مداخلت بڑھانے کی سازش ہے۔
کلیدی نکات جو تنازع کا سبب بن رہے ہیں:
سیکشن 3C(2): اگر حکومت وقف املاک پر قبضہ کر لے، تو اس تنازع کا فیصلہ خود حکومت (کلکٹر) کرے گی۔ کیا کوئی خود اپنے مقدمے کا جج بن سکتا ہے؟
سیکشن 3C(1): اگر حکومت کسی وقف کی زمین پر قابض ہو جائے، تو وہ سرکاری ملکیت شمار ہوگی۔ یہ قانون وقف املاک کو ہڑپنے کا راستہ صاف کر رہا ہے۔
سیکشن 40: غیر مسلموں کو وقف کرنے سے روکا جا رہا ہے۔ وقف ایک نیک کام ہے اور آئین کا آرٹیکل 300A ہر شہری کو اپنی جائیداد اپنی مرضی سے استعمال کرنے کا حق دیتا ہے۔
سیکشن 41: پہلے وقف کی زمین پر قبضہ کر لینے کے بعد بھی 12 سال تک وہ وقف ہی رہتی تھی، لیکن اب یہ رعایت ختم کر دی گئی ہے، جس کا مطلب ہے کہ وقف املاک پر ناجائز قبضوں کی راہ ہموار ہو رہی ہے۔
سیکشن 7A(2): وقف ٹریبیونل کا فیصلہ پہلے حتمی ہوتا تھا، مگر اب اسے عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے، جس سے عدالتی بوجھ مزید بڑھ جائے گا اور وقف کے مسائل حل ہونے میں تاخیر ہوگی۔
سیکشن 11: وقف بورڈ میں غیر مسلموں کی شمولیت کی اجازت دی جا رہی ہے، جبکہ کسی بھی ہندو مندر بورڈ میں مسلمانوں کو شامل نہیں کیا جاتا۔ یہ دوہرے معیار کی واضح مثال ہے۔
سیکشن 26: وقف جائیدادوں میں دھوکہ دہی کرنے والوں کی سزا میں کمی کی جا رہی ہے، جو کہ وقف املاک کو غیر محفوظ بنانے کی کوشش ہے۔
سیکشن 9: وقف ایک مذہبی ادارہ ہے، جیسے ہندو انڈومنٹ ایکٹ ہندو مذہبی اداروں کے تحفظ کے لیے ہے۔ تو پھر وقف بورڈ میں دو غیر مسلم ممبران کی ضرورت کیوں؟
سیکشن 18: وقف کے لیے تحریری دستاویز (ڈیڈ) کی شرط لگائی جا رہی ہے، حالانکہ روایت کے مطابق زبانی وقف بھی تسلیم شدہ ہے۔ یہ شرط وقف کرنے کے حق کو محدود کرے گی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ وقف ترمیمی بل 2024 دراصل وقف املاک کو کمزور کرنے اور سرکاری قبضے کو آسان بنانے کی ایک منظم کوشش ہے۔ مسلمانوں کو اپنے مذہبی اور قانونی حقوق کے تحفظ کے لیے متحد ہونے کی ضرورت ہے۔
یہ بل اگر اسی شکل میں نافذ ہو گیا تو مسلمانوں کی ہزاروں کروڑ روپے کی وقف جائیدادوں پر قبضے کا راستہ کھل جائے گا۔ اس لیے ضروری ہے کہ ملت اس کے خلاف آواز بلند کرے اور اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے عملی اقدامات کرے۔
(یہ تحقیق ڈاکٹر حفظ الرحمٰن و مفتی قیام الدین قاسمی نے کیا ہے،جِسے اِنصاف ٹائمس کی ٹیم اسٹوری کے طور پر پیش کر رہی ہے)