کیا کانگریس "ایکلا چلو” کی راہ پر ہے؟

Spread the love

انصاف ٹائمس ڈیسک

ملک کی سب سے پرانی پارٹی کانگریس نے 2025 کو اپنا تنظیمی سال قرار دیا ہے۔ اس اعلان کے بعد سے ہی پارٹی میں مسلسل میٹنگوں اور تنظیمی تبدیلیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ مختلف ریاستوں میں بڑے اور سخت فیصلے لیے جا رہے ہیں، کچھ رہنماؤں کو پارٹی سے باہر کا راستہ دکھایا جا رہا ہے اور نئے چہروں کو موقع دیا جا رہا ہے۔ اس سے یہ واضح اشارے مل رہے ہیں کہ کانگریس قیادت اپنی پرانی پالیسی "اکیلا چلو” پر سنجیدگی سے عمل کر رہی ہے۔ یہ بحث اس وقت مزید تیز ہو گئی جب انتخابی سال میں کانگریس پارٹی نے بہار میں اپنے این ایس یو آئی (NSUI) کے قومی انچارج کنہیا کمار کو "پلاین روکو، نوکری دو” یاترا پر روانہ کر دیا۔ اس سفر کے بارے میں پارٹی کی طرف سے کہا گیا کہ ہم نوجوانوں کے مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے یاترا کر رہے ہیں کیونکہ بہار میں پلاین ایک بڑا مسئلہ ہے۔ تاہم، سیاسی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ کانگریس اس یاترا کے ذریعے بہار میں خود کو مضبوط کرنے اور مہاگٹھ بندھن میں زیادہ سیٹیں حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا کانگریس اپنے اتحادیوں کو نظرانداز کر کے "اکیلا چلو” کی حکمت عملی پر کام کر رہی ہے؟ آئیے سمجھتے ہیں اس کے پیچھے کی حکمت عملی اور کانگریس پارٹی کی مجبوری۔

کانگریس کی حکمت عملی یا مجبوری: اتحاد سے دوری کیوں؟

دہلی اسمبلی انتخابات کے بعد کانگریس کو اپنی حکمت عملی میں تبدیلی کرنی پڑی۔ دہلی الیکشن میں انڈیا الائنس کے اتحادیوں نے عام آدمی پارٹی (AAP) کی حمایت کا فیصلہ کیا تھا، لیکن کانگریس چاہتی تھی کہ اتحادی جماعتیں آزادانہ طور پر الیکشن لڑیں۔ کانگریس کو امید تھی کہ انڈیا اتحاد کے شراکت دار عام آدمی پارٹی (AAP) کو حمایت نہیں دیں گے، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ جب سماج وادی پارٹی، ترنمول کانگریس، شیو سینا (ادھو ٹھاکرے) اور این سی پی (شرد پوار) جیسی جماعتوں نے عام آدمی پارٹی کی حمایت کر دی، تو کانگریس قیادت ناراض ہو گئی۔

یہی وجہ تھی کہ کانگریس نے دہلی میں "اکیلا چلو” کی پالیسی اپنائی اور پوری طاقت سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا۔ دہلی اور پنجاب کے کانگریسی رہنماؤں نے پارٹی قیادت کو قائل کیا کہ اگر عام آدمی پارٹی کے خلاف جارحانہ رویہ اختیار نہ کیا گیا تو پنجاب میں بھی کانگریس ختم ہو جائے گی۔ اسی لیے، کانگریس نے دہلی اسمبلی انتخابات میں کھل کر عام آدمی پارٹی کے خلاف انتخابی مہم چلائی۔

بہار میں تنظیمی تبدیلیاں بھی "اکیلا چلو” حکمت عملی کا حصہ؟

بہار میں کانگریس نے تنظیمی تبدیلیاں کرکے بھی یہ واضح اشارہ دیا ہے کہ وہ اتحاد پر کم اور اپنی الگ شناخت پر زیادہ توجہ دے رہی ہے۔ کانگریس نے پہلے بہار کے انچارج موہن پرکاش کو ہٹا کر ان کی جگہ نوجوان رہنما کرشنا الّاورو کو تعینات کیا، جو راہل گاندھی کے قریبی سمجھے جاتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کرشنا الّاورو نے بہار کا دورہ تو کیا، لیکن لالو پرساد یادو سے ملاقات نہیں کی، جو کہ غیر معمولی بات ہے۔

کرشنا الّاورو نے تنظیمی سطح پر بہتری لانے کے لیے کئی دورے کیے اور پارٹی کے کارکنان کو متحرک کیا۔ پارٹی کی ضلعی سطح کی میٹنگوں میں انہوں نے کارکنان سے کہا کہ ہر سیٹ کے ممکنہ امیدواروں کی فہرست تیار کریں، جو اشارہ دیتا ہے کہ اگر مہاگٹھ بندھن میں مناسب سیٹیں نہ ملیں تو کانگریس اکیلے انتخاب لڑنے کی تیاری کر رہی ہے۔

لالو کے قریبی رہنما کی برطرفی بھی کانگریس کی نئی حکمت عملی کا حصہ؟

کرشنا الّاورو کے انچارج بنتے ہی یہ قیاس آرائیاں ہونے لگیں کہ بہار کانگریس کے صدر اکھلیش پرساد سنگھ زیادہ دنوں تک اپنے عہدے پر نہیں رہیں گے۔ کانگریس کے اندرونی حلقے الزام لگا رہے تھے کہ اکھلیش پرساد سنگھ پارٹی کے بجائے راشٹریہ جنتا دل (RJD) کے لیے کام کر رہے ہیں۔ کرشنا الّاورو نے اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے ایک تفصیلی رپورٹ تیار کی اور پارٹی قیادت کو بھیجی۔

اسی دوران کرشنا الّاورو نے "پلاین روکو، نوکری دو” یاترا کا اعلان کیا، جس کی قیادت این ایس یو آئی کے قومی انچارج کنہیا کمار کو سونپی گئی۔ لیکن اکھلیش پرساد سنگھ اس یاترا سے ناخوش تھے اور اسے ملتوی کرنے کا مشورہ دے رہے تھے۔ کرشنا الّاورو نے اس پر پارٹی قیادت کو آگاہ کیا کہ ریاستی صدر کانگریس کو مضبوط کرنے کے بجائے آر جے ڈی کی بیساکھی پر رکھنا چاہتے ہیں۔ نتیجتاً، کانگریس قیادت نے اکھلیش پرساد سنگھ کو صدر کے عہدے سے ہٹا دیا اور ان کی جگہ ایک دلت رہنما کو بہار کانگریس کی کمان سونپ دی گئی۔

یہ واضح پیغام دیا گیا کہ کانگریس اب علاقائی جماعتوں کے دباؤ میں نہیں رہے گی اور تنظیم کو آزادانہ طور پر مضبوط کرے گی۔

بنگال میں بھی "اکیلا چلو” حکمت عملی؟

کانگریس پارٹی مغربی بنگال میں بھی "اکیلا چلو” کی پالیسی پر کام کر رہی ہے۔ پارٹی کے اعلیٰ قیادت نے مغربی بنگال میں آئندہ 2026 کے اسمبلی انتخابات کی تیاری ابھی سے شروع کر دی ہے۔ پارٹی نے ریاستی رہنماؤں کو ہدایت دی ہے کہ وہ تمام 294 اسمبلی نشستوں پر اپنی گرفت مضبوط کریں اور عوام کے مسائل پر زور دیں۔

2021 کے اسمبلی انتخابات میں کانگریس نے بائیں بازو (Left Front) کے ساتھ اتحاد کیا تھا، لیکن ایک بھی نشست حاصل نہ کر سکی۔ 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں بھی پارٹی کو صرف ایک نشست ملی۔ ان نتائج کو دیکھتے ہوئے پارٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ مغربی بنگال میں کانگریس اپنی تنظیمی طاقت پر زیادہ توجہ دے گی، بجائے اس کے کہ کسی اور پارٹی کے سہارے چلے۔

اتر پردیش میں کانگریس کی نئی حکمت عملی اور سماج وادی پارٹی سے دوری؟

اتر پردیش میں بھی کانگریس نے اپنی تنظیم کو مستحکم کرنے کے لیے سخت فیصلے کیے ہیں۔ حال ہی میں پارٹی نے 133 نئے عہدیداروں کا تقرر کیا، جس میں تمام طبقات کی نمائندگی کا خاص خیال رکھا گیا ہے۔

حال ہی میں، جب مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے انڈیا الائنس کی قیادت سنبھالنے کی بات کی، تو سماج وادی پارٹی (SP) نے ان کی حمایت کی، جو کانگریس کو پسند نہیں آیا۔ اس کے بعد کانگریس کے ایم پی عمران مسعود نے کہا "اگر ہمیں احترام ملا تو 2027 میں اکھلیش یادو کے ساتھ رہیں گے، ورنہ نہیں۔ 17-80 کا فارمولا اس بار نہیں چلے گا۔

یہ بیانات واضح کرتے ہیں کہ کانگریس اور سماج وادی پارٹی کے درمیان تعلقات کشیدہ ہو رہے ہیں۔ اگر یہی صورتحال رہی تو 2027 کے اتر پردیش اسمبلی انتخابات میں انڈیا الائنس کو نقصان ہو سکتا ہے۔

کانگریس کے حالیہ فیصلے اشارہ دے رہے ہیں کہ پارٹی علاقائی جماعتوں کے دباؤ سے آزاد ہو کر اپنی تنظیم کو مضبوط کرنا چاہتی ہے۔ دہلی، بہار، مغربی بنگال اور اتر پردیش میں کیے گئے فیصلے یہ واضح کرتے ہیں کہ کانگریس اب اتحاد پر کم اور اپنی طاقت پر زیادہ بھروسہ کر رہی ہے۔ تاہم، "اکیلا چلو” کی یہ حکمت عملی کانگریس کے لیے کتنی کامیاب ہوگی، اس کا فیصلہ آنے والے انتخابات میں ہوگا۔

(یہ رپورٹ انصاف ٹائمس کے صحافی عبدالرقیب نعمانی نے تیار کی ہے)

Leave a Comment