اِنصاف ٹائمس ڈیسک
راجیہ سبھا میں راجد کے ایم پی منوج جھا کے ایک تحریری سوال کے جواب میں، وزیر مملکت برائے قانون و انصاف، ارجن رام میگھوال نے بتایا کہ سال 2018 سے اب تک مختلف ہائی کورٹس میں کل 715 ججوں کی تقرری ہوئی، لیکن ان میں سے صرف 164 ججوں کا تعلق درج فہرست ذات (SC)، درج فہرست قبائل (ST)، دیگر پسماندہ طبقات (OBC) اور اقلیتی برادری سے ہے۔
ذات پات کی بنیاد پر تفصیلات:
-درج فہرست ذات (SC) سے – 22 جج
-درج فہرست قبائل (ST) سے – 16 جج
-دیگر پسماندہ طبقات (OBC) سے – 89 جج
-اقلیتی برادری سے – 37 جج
-جنرل زمرہ سے – 551 جج
*عدلیہ میں سماجی انصاف پر سوال
یہ اعداد و شمار واضح کرتے ہیں کہ ملک کی عدلیہ میں دلت، آدیواسی، پسماندہ طبقے اور اقلیتوں کی نمائندگی انتہائی کم ہے۔ سماجی انصاف کے لیے کام کرنے والے رہنماؤں اور تنظیموں نے اس صورتحال کو "ذات پات کی بنیاد پر تفریق کی کھلی مثال” قرار دیا ہے۔
اپوزیشن اور ماہرین کی رائے
راجیہ سبھا ایم پی منوج جھا نے ان اعداد و شمار پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا، "جب تک عدلیہ میں تمام طبقات کی مناسب نمائندگی نہیں ہوگی، تب تک انصاف کے نظام میں توازن قائم نہیں ہو سکتا۔”
سینئر وکیل پرشانت بھوشن نے کہا، "ہائی کورٹ میں ججوں کی تقرری کالجیم سسٹم کے تحت ہوتی ہے، جس میں شفافیت کی کمی اور خاندانی اثر و رسوخ غالب رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حاشیے پر کھڑے طبقات کو عدلیہ میں مواقع نہیں ملتے۔”
حکومت کا موقف
حکومت کا کہنا ہے کہ عدلیہ میں تقرری میرٹ کی بنیاد پر ہوتی ہے اور اس میں ذات پات یا مذہب کی کوئی تفریق نہیں کی جاتی۔ تاہم، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ میں SC، ST، OBC اور اقلیتوں کی کم تعداد خود ہی اس دعوے پر سوالیہ نشان لگا دیتی ہے۔
عدلیہ میں ریزرویشن کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے
مختلف تنظیموں اور رہنماؤں نے عدلیہ میں بھی ریزرویشن کے نفاذ کا مطالبہ دہرایا ہے۔ دلت تنظیموں کا کہنا ہے کہ جب پارلیمنٹ، سرکاری ملازمتوں اور تعلیم میں ریزرویشن نافذ ہے، تو عدلیہ اس سے مستثنیٰ کیوں رہے؟
اعداد و شمار کیا کہتے ہیں؟
-2010 سے 2020 کے درمیان مقرر کردہ کل 1078 ججوں میں SC کے صرف 58، ST کے 24 اور OBC کے 127 جج تھے۔
-اقلیتی برادری کی شمولیت 5% سے بھی کم رہی۔
ہندوستان کے ہائی کورٹ میں سماجی انصاف کی صورتحال تشویشناک بنی ہوئی ہے۔ کل 715 ججوں میں سے صرف 164 جج SC/ST/OBC اور اقلیتی برادری سے ہونا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ عدلیہ اب بھی اعلیٰ ذاتوں کے تسلط میں ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا حکومت اس عدم مساوات کو دور کرنے کے لیے کوئی ٹھوس قدم اٹھائے گی، یا پھر یہ بحث صرف اعداد و شمار تک ہی محدود رہے گی؟