ثبوت نہیں ملے، تو 9 سال بعد عدالت نے القاعدہ کے نام پر گرفتار تین لوگوں کو رہا کر دیا

Spread the love

اِنصاف ٹائمس ڈیسک

القائدہ سے تعلق کے الزام میں 2016 میں گرفتار کیے گئے تین افراد کو نو سال جیل میں گزارنے کے بعد عدالت نے ثبوتوں کی عدم موجودگی پر رہا کر دیا۔عبدالرحمن علی خان عرف کتکی، محمد سمیع اور مولانا کلیم الدین کو ملک دشمن سرگرمیوں اور دہشت گرد تنظیم سے تعلق کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا، لیکن ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج-1 (ADJ-1) عدالت نے قرار دیا کہ ان کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں ہے، جس کے بعد تینوں کی رہائی کا حکم دیا گیا۔

گرفتاری کیسے ہوئی؟
18 جنوری 2016 کو ہریانہ کے میوات سے محمد سمیع، اڈیشہ کے کٹک سے عبدالرحمن عرف کٹکی اور 16 ستمبر 2017 کو ٹاٹا نگر ریلوے اسٹیشن سے مولانا کلیم الدین کو گرفتار کیا گیا تھا۔ پولیس نے الزام لگایا تھا کہ یہ تینوں جھارکھنڈ میں القاعدہ کا نیٹ ورک بنانے کی کوشش کر رہے تھے۔ ان پر یو اے پی اے (غیر قانونی سرگرمیاں روک تھام ایکٹ)، آئی پی سی کی دفعہ 121 (ملک کے خلاف جنگ چھیڑنے کی کوشش)، 121 اے (سازش)، 120 بی (مجرمانہ سازش) اور آرمز ایکٹ کے تحت سنگین دفعات لگائی گئی تھیں۔

9 سال بعد عدالت کا فیصلہ
مقدمے کے دوران 17 گواہوں کے بیانات ریکارڈ کیے گئے، لیکن استغاثہ ملزمان کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہا۔ جمعہ کو عدالت نے فیصلہ دیا کہ ثبوتوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے ملزمان کو مجرم قرار نہیں دیا جا سکتا، اور انہیں ضمانت دے کر رہا کر دیا گیا۔

اب سوال—نو سال کون واپس کرے گا؟
تینوں ملزمان نے اپنی زندگی کے قیمتی نو سال جیل میں گزار دیے، اور اب جب عدالت نے بری کر دیا ہے، تو سوال اٹھتا ہے—کیا ان نو سالوں کا کوئی ازالہ ہو سکتا ہے؟ کیا دہشت گردی کے نام پر کی جانے والی گرفتاریوں میں احتیاط اور غیر جانبداری کا مظاہرہ نہیں ہونا چاہیے؟

یہ معاملہ ملک کے عدالتی نظام اور طویل قانونی کارروائیوں پر ایک سنگین سوال اٹھاتا ہے۔ کیا ایسے معاملات میں بے گناہ ثابت ہونے والے افراد کو قانونی معاوضہ ملنا چاہیے؟ ان سوالات کا جواب اب ملک کو تلاش کرنا ہوگا!

Leave a Comment