ڈاکٹر علیم خان فلکی۔صدر سوشیوریفارمس سوسائٹی، حیدرآباد
9642571721
اگر ہمیں کسی کی زبان سمجھ میں نہ آئے تو ہم پانچ دس منٹ سے زیادہ وہاں نہیں ٹھہرتے، لیکن تراویح میں اگرچہ کہ نہ امام وحافظوں کی اکثریت عربی سمجھتی ہے اور نہ پیچھے کھڑے نمازی سمجھتے ہیں، لیکن پھر بھی دیڑھ دو گھنٹے کھڑے رہتے ہیں۔ یہ قرآن سے عقیدت اور محبت کا ایک ثبوت ہے۔قرآن کے سننے کا اجر تو یقیناً ملے گا، لیکن قرآن کا اثر کیا ہوا یہ سوچنا ضروری ہے۔
اگر دن بھر کی بھوک پیاس برداشت کرکے افطار میں حلق تک پیٹ بھرلینا، پھر تراویح میں قرآن کا ایک لفظ بھی سمجھے بغیر رسمی عبادت پوری کرلینا اور پھر رات بھر فضولیات میں مشغول ہوجانا ہی عبادت ہے تو یہ طرزِ عمل تو دوسری قوموں کا بھی ہے۔ وہ بھی اپنے ہر تیوہار میں رات بھر خوب کھانا، پینا اور بغیرسمجھیبھجن اور JSR کے نعرے بلند کرکے عبادت کا تصوّر کرلیتے ہیں۔ نہ اُدھر کوئی ویدانت یا کرشن کے اشلوک سمجھنے والا ہے جس میں آدھے سے زیادہ توحید کا پیغام موجود ہے، اور نہ اِدھر کوئی قرآن کو سمجھنے والا ہے۔ بس اپنے اپنے پنڈتوں کے پیچھے لوگ چل رہے ہیں، لیکن حقیقی دین یا سچّا دین کون سا ہے، لوگ نہیں سمجھتے۔ بس اپنے اپنے دھرم کی حمیّت یا غیرت ہے جس پر دونوں اڑے ہوئے ہیں، اب اس جنگ میں تو جیت اسی کی ہوگی جو اکثریت میں ہے۔ وہ ہر طرح سے کوشش کرے گا کہ اقلیت کو اکثریت میں شامل ہونے مجبور کرے، ورنہ اس کو بلڈوز کردے۔
رمضان قرآن کا مہینہ ہے۔ شھررمضان الذی انزل فیہ القرآن۔ قرآن ہی اصل ہدایت ہے جس کو بندہ ہر نماز میں کئی بار اھدنا الصراط المستقیم کہہ کر مانگتا ہے۔ اب جبکہ رب کا فرمان ہے کہ یہی قرآن ہدایت ہے توکیا وجہ ہے کہ جس امت کو ہدایت عطا کی جا چکی ہے وہی قوم ایسے لگتا ہے کہ سب سے زیادہ گمراہ ہے۔ دراصل قرآن کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرنا ہی وہ سب سے بڑا جرم ہے جس کی سزا یہ ہیکہ شرک اپنے پورے زور پر ہے۔ اور توحید کی جس دل میں ذرا سی بھی رمق ہو، اس کو ہمیشہ کے لئے ختم کردینے کے درپہ ہوچکا ہے۔
اب بھی وقت ہے ہم سوچیں کہ اس قرآن کو سمجھنے کے لئے کیا طریقہ اختیار کریں۔قرآن کو صحیح صحیح سمجھنے کا نصاب نہ ہونے کی وجہ سے آج مسلمان اپنی دینی اور دنیاوی پستیوں کے غار میں گِرچکے ہیں، اور دوبارہ اٹھ کھڑے ہونے کے دور دور تک کوئی آثار نہیں۔ اس سے پہلے کہ ہم ایک صحیح نصاب پیش کریں، قرآن کو سمجھنے کی اہمیت پر ایک اہم اور عبرتناک تاریخی واقعہ پیش کرنا چاہیں گے۔
1920 میں جب شیخ الہند محمودالحسن ؒ اسیرِ مالٹا، کالاپانی کی سزا سے رہائی پانے کے بعد لوٹے تھے، دیوبند میں ایک تاریخی جلسہ منعقد کیا گیا، اس میں ہندوستان کے بڑے بڑے علما بشمول اشرف علی تھانویؒ، شبّیراحمدعثمانیؒ، مولانا مفتی محمد شفیعؒ، حسین احمد مدنیؒ وغیرہ شامل تھے۔ شیخ الہند نے جو تاریخی خطاب فرمایا تھا اس کے اقتباسات مفتی محمد شفیعؒ نے اپنی کتاب ”وحدتِ امّت“ میں پیش کئے ہیں۔ شیخ الہند نے فرمایا تھا کہ ”چار سال کی قید کے دور میں، میں نے امت کی تباہ حالی پر جتنا غور کیا مجھے دو ہی اسباب نظرآئے۔
۱۔ ہمارا قرآن کو ترک کردینا
۲۔ ہمارے آپسی اختلافات“
حقیقت میں دونوں ایک ہی ہیں۔ مفتی محمد شفیع ؒ نے لکھا کہ آپسی اختلافات بھی محض قرآن کو ترک کرنے کے نتیجے میں ہیں۔ مفتی صاحب نے ایک اور مقام پر یہ واقعہ بھی بیان فرمایا ہے کہ مولانا انور شاہ کاشمیریؒ نے اپنی آخری عمر میں ایک موقع پر فرمایا تھا کہ ”ہم نے ساری زندگی مسلک اور فقہ پر محنت کی، قرآن پر کبھی توجہ نہیں دی“۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ پوری امت قرآن سے بہت دور ہوچکی ہے۔ اگر اس کا ثبوت چاہئے تو اپنے محلّے یا خاندان میں ایک سروے کیجئے۔ کسی بھی مسجد میں نماز کے بعد باہر نکلنے والے نمازیوں سے ایک سوال پوچھئے۔ ان میں اکثریت ان نمازیوں کی ہوگی جو پنج وقتہ نمازی ہیں۔ روزے، زکوٰۃ، حج اور نفل عمروں کی پابندی کرتے ہیں۔سوال یہ پوچھئے کہ آپ نے آخری مرتبہ کب قرآن کو لفظ بہ لفظ سمجھنے کی کوشش کی؟ 99% لوگوں کا جواب یہ ہوگا کہ کبھی نہیں کی۔ ہاں درس و تقریروں میں تھوڑا بہت سن لیا۔ ایسا نہیں کہ یہ لوگ قرآن سے بیزار ہیں، اور نہ ان لوگوں نے قرآن ترک کیا ہے۔ پھر بھی وہ کیا وجہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ قرآن کو اچھی طرح سمجھ چکے ہیں۔ ان کی نمازوں، داڑھیوں، ٹوپیوں، برقعوں، اور کسی نہ کسی بزرگ یا جماعت یا سلسلے سے تعلق نے انہیں اتنا مطمئن کردیا ہے کہ وہ تصوّر کرتے ہیں کہ وہ قرآن کو سمجھے بغیر بھی بہت اچھے، سچّے اور پکّے مسلمان ہیں، کیونکہ انہوں نے کبھی علما یا مشائخین کی انگلی نہیں چھوڑی۔
یہاں ڈاکٹر اسرار احمد صاحب نے ایک ویڈیو میں یہ سوال اٹھا یا کہ”کیا علما نے قرآن کو ترک کیا ہے“۔ پھر انہوں نے ہی اس کا جواب دیا کہ ”بظاہر ایسا لگتا تو نہیں لیکن حقیقت میں ایسا ہی ہے۔ ان کا پورا زور فقہ اور حدیث پر ہے، قرآن پر نہیں“۔ مشائخین کا بھی پورا زور تصوّف پر ہے، نہ کہ قرآن پر۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی مدرسے کے عالمیت کے نصاب کو دیکھئے۔ اس میں پچاس فیصد فقہ ہوگی، پچیس فیصد علوم حدیث، پھر صرف و نحو، منطق، عربی لٹریچر اور قرآن بمشکل دس فیصد ہوگا جو کہ محض چند سورتوں کے ترجمہ پر مشتمل ہوگا۔ اسی لئے حفّاظ سے کسی آیت کے معنے و مطالب پوچھئے، ان کی اکثریت بتانے سے معذور ہے۔ علما و مفتیوں کی اکثریت وہ ہے جو فقہ سے متعلق قرآن میں جو تقریباً پانچ سو آیتیں ہیں، ان کے معنی تو وہ فرفر سناسکتے ہیں، لیکن باقی چھ ہزار سے زیادہ جو آیات ہیں، جن میں ہر شعبہ? زندگی سے متعلق رہنمائی ہے، وہ نہیں بتاسکتے۔ عدل و قسط یعنی انصاف قائم کرنے کی اہمیت اور اس کا طریقہ? کارکیا ہے، جہاد و قتال کی حقیقی روح کیاہے، لاخوف علیھم کیا ہے، اللہ کے نبی ﷺ کی سب سے بڑی سنت یہ ہیکہ انہوں نے انصاف کو قائم کرنے کیلئے ایک طاقتور حکومت دے کر گئے، مسلمانوں کو غلام نہیں چھوڑا کہ وہ باطل سے اپنے جان و مال اور مسجدوں کی حفاظت کے لئے بھیک مانگیں اور اندھے قانون کی دہائی دیتے رہیں۔ آپ ﷺ مکہ میں اکیلے تھے جب یہ سفر شروع ہوا۔ تیرہ سال کی سخت آزمائشوں کے بعد صرف ستّر لوگ ملے جو ہجرت کے لئے تیار ہوئے۔ پھر مدینہ پہنچ کر دو سال بعد 313 ہوئے، پھر دو سال بعد اُحد میں ایک ہزار ہوئے، تبوک میں دس ہزار ہوئے اور حجّۃ الوداع میں ایک لاکھ پچیس ہزار۔ ایک سے لے کر ایک لاکھ پچیس ہزار تک یا یہ سفرمکمل قرآن کی ہدایات کی روشنی میں طئے ہوا۔ قرآن نے لوگوں کو نمازی، روزے دار، حاجی، حافظ، اور شاندار تجوید و لہن کے قاری تو بہت بعد میں بنایا، روزِ اوّل سے وہ افراد بنائے جن کو کہا کہ تم سب سے بہترین امت ہو۔ ”کنتم خیرا امۃِ“۔ افسوس کہ ہم نے اِس آیت کے اسی حصّے کو لے کر جشن منانے شروع کردیئے ہم سب سے بہترین امت ہیں اور باقی سارے جہنمی، مشرک، اور کفّار ہیں۔ ہم ہی اللہ کے سب سے زیادہ لاڈلے ہیں اس لئیدوزخ کی آگ ہمیں نہیں چھوئے گی لیکن اللہ دوسروں کو پکڑ لے گا۔ اسی خوشی میں ہم غیروں کے بڑے بڑے تیوہاروں کی طرح میلادالنبی، عظمتِ قرآن، محبتِ اہلِ بیت پر رات رات بھر جلسے اور قوالیاں کرتے ہیں۔ حالانکہ اسی آیت کا اگلا حصہ ”للناس“ ہمارا دائرہ?ِ کار بھی طئے کرتا ہے کہ تم کو صرف اپنے ہم مسلکوں کو جمع کرکے جلسے کرنے نہیں بلکہ للناس یعنی لوگوں کے لئے یعنی پوری انسانیت کے لئے پیدا کیا ہے، للناس میں برہمن، اعلیٰ ذات، ادنیٰ ذات، سِکھ، عیسائی، یہودی سبھی آتے ہیں جن تک تم کو جانا ہے۔ اور کرنا کیا ہے، یہ بات اسی آیت کے اگلے حصے میں ہے کہ ”تامرون بالمعروف تنھون عن المنکر“ یعنی تم کو جسٹس یعنی عدل و انصٓف پر مبنی ایک طاقتور حکومت اور بیت المال کرنے کے لئے معروف کا حکم دینا ہے اور منکرات سے روکنا ہے۔ امر کے معنی ہیں حکم دینا۔ حکم وہ دے سکتا ہے جس کے پاس اختیار ہو یعنی Power ہو۔ جس کے پاس پاؤر نہیں، وہ پاؤر کے ہاتھوں غلام ہوتا ہے۔ پیغمبرﷺ کا Powerless ہونے سے Powerful ہونے کا سفر ہے، اور ہر قدم پر یہی قرآن تھی جو پاؤر تک پہنچنے کے لئے گائیڈ کررہی تھی۔ اگر وہ تمام مراحل کا Revision ہر سال تراویح میں ہوتا رہے تو پھر قرآن کا اصلی حق بھی ادا ہوگا اور یہ لاچار، نہتّی، مظلوم قوم غلامی سے باہر نکلے گی۔ لیکن اس کا طریقہ کار ان پانچ سو فقہ سے متعلق آیات میں نہیں جو علما اور مفتی پڑھ کر سند حاصل کرکے نکلتے ہیں، بلکہ یہ طریقہ کار باقی چھ ہزار سے زائد ان آیتوں میں ہے جن کو مدرسوں کے نصابوں اور حفظ کے مدرسوں نے مکمل نظرانداز کردیا۔ یہ وہ بنیاد ی غلطی تھی جس کی نشاندہی علامہ اقبال نے یوں کی کہ”وہ زمانے میں معزّز تھے مسلماں ہوکراور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہوکر“۔
اب بھی اگر قرآن کے تمام احکامات کو Revise کرنے کی اور اپنی اپنی زبان میں سمجھنے کی محنت شروع نہ ہوئی تو دن بہ دن ہم جتنے ذلیل اور شکستہ ہورہے ہیں، اگلے بیس پچیس سال میں کہیں زیادہ ذلیل و خوار ہونے والے ہیں۔ آج تو صرف اجمیر اور حاجی علی جیسی درگاہوں میں پوجا کی اجازت دینے کا مطالبہ ہورہا ہے۔ کل یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہر مسجد کے نیچے سے کوئی شیو نکلے گا اور ہر مسجد میں پوجا کی اجازت پوچھی نہیں جائیگی بلکہ قانون سے حاصل کرلی جائیگی۔ قانون ہمیشہ اکثریت کا چلتا ہے۔ اقلیت کا نہیں۔
نہ سمجھوگے تو مٹ جاو گے ائے ہندوستاں والو
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
اب آخری سوال یہی ہے کہ قرآن کا اپنی زبان میں Revision کیسے ہو۔ تراویح اس کا بہترین ذریعہ ہوسکتا ہے۔ پارے بھی تیس ہیں اور تراویح بھی تیس۔ ہر روز ایک پارہ Revise ہوسکتا ہے۔ وہ اس طرح سے کہ پہلے آپ افطار میں یہ ڈٹ کر کھانا بند کریں، عورتوں کو افطار کی تیاریوں سے باہر نکالیں۔ کم سے کم کھائیں۔ جتنا خالی پیٹ ہوں گے اتنے مستعد ہوں گے۔ افطار اور نماز کے فوری بعد گھر کے تمام افراد کے ساتھ ایک ایک پارے کو لفظ بہ لفظ سمجھنے کی کوشش کریں۔ پہلا ذریعہ ہے آپ خود۔ اگر آپ تفسیروں کا سہارا لے کر خود ہی ایک ایک آیت سمجھا سکتے ہیں تو سمجھایئے۔ اہم نکات کو لکھوایئے اور ہوم ورک بھی دیجئے۔ یہ آپ خود نہیں کرسکتے تو دوسرا ذریعہ ہے ویڈیو۔ ہر مسلک کے ایسے علما موجود ہیں جن کی تفسیر ویڈیو یا آڈیو میں محفوظ ہے۔ ایک پارہ ہر روز سنئے اور سنوایئے اور اہم نکات نوٹ کروایئے۔ تیسرا ذریعہ ہے آپ کے اطراف ایسے افراد موجود ہیں جو سمجھا سکتے ہیں۔ اگر ایسے کوئی عالم مل جائیں تو سونے پر سہاگہ ہوجائیگا۔ اگر ایسے عالم نہ ہوں تو تب بھی اس دور میں بے شمار کالج اور یونیورسٹی کے گریجویٹ ہیں جن کے قرآن سے شغف، اور دسترس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ان سے استفادہ کیجئے۔ ہاں کچھ مولوی ایسے ہیں جو غیرعالم سے قرآن سننے پر اعتراض کرتے ہیں۔ دراصل یہ صدیوں سے پنڈتوں نے جو دماغ میں بٹھایا تھا کہ دھرم شاستروں کو صرف برہمن ہاتھ لگائے، کسی دوسرے کا ہاتھ لگانے دھرم بھرشٹ ہوجاتا ہے۔ یہی ترکیب ہمارے پنڈتوں نے بھی سیکھ لی۔ اور اپنی دکان بند ہوجانے کے خوف سے غیرعالم کو قرآن کو سمجھانے سے منع کردیا اور یہ تبلیغ کی کہ اگر غیرعالم سے قرآن سمجھنے کی کوشش کروگے تو دین سے گمراہ ہوجاؤگے۔ یہی بات مسجد کی انتظامی کمیٹی کے کم عقل ذمہ داروں کے بھی دماغ میں بٹھا دی گئی ہے۔ اسی لئے وہ جمعہ کے خطبہ کے لئے کسی غیرعالم کو منبر پر کھڑا ہونے نہیں دیتے۔ حالانکہ جمعہ کے خطبہ کا مقصد حالاتِ حاضرہ سے واقف کروانا اور دین کی روشنی میں رہنمائی کرنا ہوتا ہے۔ یہ کام اِس دور میں عالم سے زیادہ بہتر وہ لوگ کرسکتے ہیں جو MBA ہیں یا ڈاکٹر یا انجیئر یا ایڈوکیٹ یا صحافی وغیرہ ہیں۔
آپ عشا کی نماز تک ایک پارہ Revise کرسکتے ہیں۔ بس شرط یہ ہے کہ گھر کے تمام افراد بالخصوص نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اس نشست میں لازمی بیٹھیں۔ ورنہ بوڑھے اور بوڑھیاں تو تراویح پڑھ لیتے ہیں، لیکن نوجوان بیٹے بیٹیا ں پوری رات سوشیل میڈیا میں کھوئے رہتے ہیں۔ اگر ایسے ہی رہا تو یہ قرآن کو سن لینے کا جو آخری دور ہے آپ کے بعد آپ کے خاندان میں یہ بھی باقی نہ رہے گا۔ عشا کے بعد تراویح میں شامل ہوجایئے۔آٹھ رکعت یا بیس رکعت کی بحث میں مت پڑیئے۔ اس بحث میں آپ کو ڈالا ہی اس لئے جارہا ہے کہ آپ قرآن اور تراویح کے اصلی مقصد سے دور رہیں۔ اگر کوئی حافظ مل جائے تو اپنے گھر پر ہی انتظام کیجئے تاکہ گھر کے تمام افراد اس میں شامل ہوسکیں اور حافظوں کو بھی ان کی سالہاسال کی محنت کاکچھ صلہ مل سکے۔ اس دور میں نوجوان لڑکے لڑکیوں کو مسجد لانا ممکن نہیں رہا اس لئے گھروں کو مسجد بنانے میں کوئی قباحت نہیں۔
اور اگر گھرپر صرف میاں بیوی ہیں تو یہ اتنظام مسجد میں کیجئے۔ کوئی شادی خانہ بھی لیا جاسکتا ہے جس میں زیادہ سے زیادہ لوگ آسکتیہوں، اور وہاں عورتوں کا بھی انتظام ہو۔ ہر چار رکعت کے بعد جتنی قرآن پڑھی گئی اس کی تفسیر کسی اچھے عالم سے یا پھر کوئی تفسیر دیکھ کر پڑھی اور سنی جاسکتی ہے۔ شادی خانے کے مالکان تو اس مہینے میں یوں بھی ایسے کاموں کے لئے کوئی کرایہ نہیں لیتے۔
اس کے بعد خدارا سوجایئے۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے کہ بلاضرورت عشا کے بعد جاگنا جائز نہیں ہے۔ اگر جلدی سوجائیں گے تو پھر تہجد میں اٹھ کر قیام اللیل کا لطف لے سکیں گے۔ جو پارہ آپ نے مغرب کے بعد سمجھنے کی کوشش کی تھی، اب تہجد میں اسی پارے کی تلاوت کریں۔ اگر آپ کو حِفظ نہیں ہے تو نماز میں قرآن کو دیکھ کر پڑھیں۔ یہاں بھی کچھ مولوی رخنہ ڈالیں گے اور کہیں گے کہ نماز میں قرآن کو دیکھ کر پڑھنا جائز نہیں ہے۔ عرب علما بالخصوص سعودی علما کے نزدیک یہ جائز ہے۔ مکہ یا مدینہ میں اگر آپ نے تراویح پڑھی ہے تو آپ نے دیکھا ہوگا کہ لوگ امام کی قرات سنتے ہوئے قرآن میں دیکھتے رہتے ہیں۔ جب آپ خود نماز میں قرآن پڑھتے ہیں تو اس نماز کا لطف کہیں زیادہ بڑھ جاتا ہے اور آپ کا خشوع خضوع یعنی Concentration پورے عروج پر رہتا ہے۔
آخری میں اہم علامہ اقبال ہی کے حوالے اس قرآن کو سمجھنے کے لئے ایک اہم نکتہ دے رہے ہیں۔ علامہ اقبال کے والد اقبال کو یہ نصیحت کرتے تھے کہ قرآن کو اِس طرح پڑھو جیسے قرآن تم پر نازل ہورہا ہے۔ تب آپ کو لگے گا کہ یہ قرآن آج کے حالات میں آپ کی مکمل رہنمائی کررہا ہے۔ یہ آج یعنی 2025 میں نازل ہورہا ہے۔تب یہ بات سمجھ میں آئے گی کہ قرآن ایک طرف بلڈوزر والوں سے کیسے مقابلہ کرنا ہے یہ سمجھارہا ہے، تو دوسری طرف ان تمام دشمنانِ اسلام کے نزدیک کیسے جائیں، کیوں جائیں، کیا پیش کریں، یہ سکھارہا ہے۔ ایک طرف اپنے خاندانی وراثت کے جھگڑوں کا حل بتا رہا ہے تو دوسری طرف نوجوان نسلوں گمراہی سے باہر نکالنے کے طریقے دکھا رہا ہے۔ اگر قرآن کو آج بھی سمجھنے کی کوشش نہ کی گئی تو ہمارے مولی ملا اور مرشد تم کو قرآن سے مزید دور کرکے صرف فضائلِ رمضان، میلادالنبی، محرم، معجزات اور کرامات کے شعلہ بیان وعظ سنا کر لفافے وصول کرتے رہیں گے، اور تم کو سب سے بہترین امت ہونے کا نشہ پلا کر قوم کو سلاتے رہیں گے۔ اسلام صرف جلسوں اور جلوسوں میں ہی باقی رہ جائیگا۔ امت میں آج جتنے فرقے ہیں ان سے بھی کہیں زیادہ فرقے پیدا ہوجائیں گے۔ کیا آپ دیکھ نہیں رہے ہیں کہ کل تک تبلیغ، اہلِ حدیث، بریلوی جمیعۃ العلما سب کی ایک ایک منظّم جماعت تھی، لیکن آج ہر جماعت دھڑوں میں تقسیم ہوچکی ہے، کل یہ دھڑے بے شمار ہوجائیں گے، دشمن آپ کی صفوں میں اتنے مخبر پیدا کردے گا کہ بھائی کو بھائی سے، باپ کو بیٹے سے بھی مخبری کا خوف ہوگا۔ قرآن سے دوری نے آدھی سے زیادہ نوجوان نسل کو دہریت اور دنیاپرستی میں دھکیل ہی دیا ہے، کل عجب نہیں کہ پوری قوم بے دینی کے غار میں دفن ہوجائے، جیسے کہ روس، اسپین، چین اور افریقہ کے کئی ممالک میں ہوچکا ہے۔