نقی احمد ندوی
مدارس کے اساتذہ کی ٹریننگ کی ضرورت! زمانہ ترقی کرگیا۔ چاند پر لوگ پہونچ گئے مگر یہ اسکول والے کبھی ترقی نہیں کریں گے ہمیشہ بیک وارڈ ہی رہیں گے۔ میری اسکول کے ہیڈماسٹر جی سے اس بات پر بحث ہوگئی۔ اب ذرا بتائیے کہ ایک بچہ کو جو محض دس بارہ سال کا ہے چھڑی سے مار مارکر بدن لال کردیا۔ یہی وجہ کہ بہت سارے بچے اپنی پڑھائی ہی چھوڑ دیتے ہیں، ان کے معصوم ذہن ودماغ میں تعلیم سے ہی نفرت پیداہوجاتی ہے۔ ہیڈماسٹر جی بڑے لحیم وشحیم اور لمبے چوڑے ہیں۔ اگر کسی بچہ کیا بڑے کو بھی ایک تھپڑ مار دیں تو اس کاسر ناچ جائے۔ بچے تو یوں ہی شرارتی ہوتے ہیں۔ دو بچے پکڑو پکڑو کھیل رہے تھے اور اسکول کے دالان میں بھاگ رہے تھے۔ بھاگتے بھاگتے ایک بچہ کسی آنے والے کی توند سے ٹکڑا گیا۔ جب اس نے سر اٹھاکر دیکھا تو قسمت دیکھیئے کہ وہ توند بھی اس کے ہیڈ ماسٹر جی کی ہی تھی۔ اب نہ آگے جائے اور نہ پیچھے، ایک زناٹے دار تھپڑ کی آواز گونچی، معلوم ہوا کہ وہ ناچ گیا حالانکہ وہ ناچا نہیں تھا بلکہ صرف اس کا سر ناچا تھا۔ اب بتائیں کہ یہ بھی کوئی بات ہوئی۔ سوال یہ ہے کہ اگر ہیڈماسٹر جی کی توند نہ ہوتی تو وہ ٹکراتا ہی نہیں، بازو سے نکل جاتا۔اپنی غلطی نہیں دیکھتے، اپنے مدارس کے مہتمم صاحبان کو دیکھیے، کتنی جم کرتے ہیں بیچارے، چست پھرتیلا، اگر جینس اور پینٹ پہن لیں تو کسی فلم کے ہیرو لگیں۔ بہرحال میں نے سوچا کہ موقع اچھا ہے کیوں نہ ان پر اپنے مدرسوں کا دھونس جمادوں۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ بولتا وہ پوچھ بیٹھے۔ مولوی صاحب،کیا آپ کے مدرسوں میں پٹائی نہیں ہوتی۔ میں نے عرض کیا۔ اللہ معاف کرے۔ کوئی غلط بات زبان سے نکل جائے نہیں تو میری عاقبت خراب ہوجائیگی۔ سنا ہے کہ علماء پر تنقید کرنے سے دنیا و آخرت دونوں تباہ ہوجاتی ہے۔ پرنسپل صاحب حیرت سے پان کو چپاتے ہوئے مداخلت کی اور بول پڑے نپھر بتائیے کہ کیا ہوتا ہے؟ سب سے پہلی بات کہ ہمارے مہتمم اور قاری اور حافظ صاحبان کی تدریسی خدمات انجام دینے سے پہلے ایجوکیشنل ٹریننگ ہوتی ہے۔باقاعدہ ان کو امتحان پاس کرنا پڑتا ہے۔ ان کو جدید وسائل وذرایع سے آگاہی کرائی جاتی ہے۔ بچوں کی نفسیات سے واقف کرایا جاتا ہے، پھر جاکر ان کو درجہ حفظ یا مدرسوں میں پڑھانے کی اجازت ہوتی ہے۔ اور ہاں ہمارے مہتمم اور قاری صاحبان کی توند تو بالکل نہیں ہوتی۔ اس پر وہ تھوڑا سا شرمندہ ہوتے ہوئے دوسری طرف دیکھنے لگے۔ میں نے موقع نہیں گنوایا۔ اپنی تقریر جاری رکھی۔ ہمارے یہاں بچے قرآن پاک حفظ کرتے ہیں، تین سال تک قاری صاحبان ان کو یاد کرواتے ہیں۔ مجال کہ وہ ان کو ایک تھپڑ بھی ماردیں۔ مگر آپ کے اسکولوں میں نویں دسویں کے کلاس کے بچوں کو پیٹ دیا جاتا ہے۔ ان کو اپنے رفقاء درس کے سامنے ذلیل کیا جاتا ہے۔ کلاس میں مرغے بنائے جاتے ہیں۔ ان سب کے اثرات طلبہ کے ذہن پر جو ہوتے ہیں ان پر کبھی آپ لوگوں نے سوچا ہے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ ہیڈ ماسٹر جی ہمارے مدرسوں سے تھوڑا متاثر ہورہے ہیں۔ میں نے اپنا رعب جمانا جاری رکھا۔ جی ایک قصہ سناوں ، ہیڈ ماسٹر جی نے چشمہ کے اندر سے اپنی گول گو ل آنکھوں سے مجھے گھورتے ہوئے دیکھا کہ شاید میں کسی اسکول کی کی مزید برائی بیان کرنے جارہا ہوں۔ میں نے ان کی غلط فہمی دور کرتے ہوئے کہا۔ جناب وہ اسکول کا نہیں بلکہ میرے مدرسہ کی کہانی ہے۔ میرا بیٹا صرف پانچ سال کا تھا۔ میں اس کو پہلی جماعت میں مدرسہ میں داخلہ کرایا۔ کلاس میں پہلے دن میں بھی ساتھ گیا۔ میرا بچہ مجھ سے کہنے لگا کہ میں بھی ان کے ساتھ بیٹھوں۔ میں نے کہا کہ کلاس کے باہر بیٹھتا ہوں۔ تھوڑی دیر کے بعد میں چلا آیا۔ بعد میں استاذ نے بتایا کہ آپ کا بچہ کلاس میں سوگیا آپ کے جانے کے بعد۔ بہرحال ایک مہینہ کے بعد پیرنٹ مینٹنگ ہوئی۔ وہ تو آپ کے اسکولوں میں ہوتی نہیں۔ ہمارے مدرسوں میں ہوتی ہے۔ والدین کو بلایا جاتا ہے اور ان سے ان کے بچوں کے مسائل ومشکلات پر باہمی مشورے کئے جاتے ہیں۔ پیرنٹ میٹنگ میں مجھے بتایا گیا کہ میرا بچہ تھوڑی دیر کلاس میں بیٹھنے کے بعد سو جاتا ہے۔ میں نے کہا کہ آپ جگاتے کیوں نہیں۔ استاذ نے کہا کہ جب کوئی بچہ کلاس میں پہلی بار آتا ہے تو اس کے دوست ساتھی نہیں ہوتے۔ جان پہچان نہیں ہوتی۔ اس لئے وہ خاموش رہتا ہے، اور خاموشی کی وجہ سے اس کو نیند آجاتی ہے۔اس لئے نئے بچے کلاس میں بہت سوتے ہیں۔ ہمارا طریقہ یہ ہے اس کو مانوس ہونے دیں۔ جب وہ مانوس ہوجایگا تو وہ خو د نہیں سوئے گا۔ اور پھر اگلے چھ ماہ تک میرا بچہ کلاس میں سوتا رہا اور یہی رپورٹ ملتی رہی۔غور کیجیے کہ استاذ نے اسے چھ ماہ تک سونے دیا۔ یہ ہے بچوں کو تعلیم سے مانوس کرنے کا طریقہ۔ مگر جب اسے جان پہچان ہوگئی، چونکہ وہ شریر اور چلبلا بچہ تھا۔ جب وہ جاگا ہے تو پھر کلاس میں کسی کو کبھی سونے نہیں دیا۔ مجھے محسوس ہورہا تھا کہ ہیڈ ماسٹر جی ہت متاثر ہورہے ہیں، مگر اسی دوران گھنٹی بج گئی اور وہ کلاس لینے چلے گئے۔