6/جولائی 167ویں یوم شہادت پر خصوصی پیش کش اسلم رحمانی
شعبۂ اردو، نتیشور کالج، مظفرپور، بہار
وطن عزیز کی آزادی کی خاطر ہمارے بزرگوں نے بڑی بڑی قربانیاں دی تھیں۔ جنگ آزادی 1857ء سے پہلے اور اس کے بعد ہمارے بزرگوں کا اس قدر وحشیانہ قتل عام کیا گیا تھا کہ سر عام درختوں کے ساتھ ان کی لاشیں لٹکتیں نظر آتی تھیں، انہیں کالا پانی کے جزائر کی طرف دھکیل دیا گیا تھا، تاریخی روایات کے مطابق زندہ انسانوں کو خنزیر کی کھال میں سی کر آگ میں جلا دیا گیا تھا، توپ کے منہ پر باندھ کر گولے کے ساتھ ان کے جسموں کے پرخچے اڑا دیے گئے تھے، زندہ انسانوں کو درختوں سے لٹکا کر زندہ حالت میں ان کے جسموں سے کھالیں کھینچ لی گئی تھیں، آزادی کا نام لینے والے تختۂ دار پر لٹکا دیے جاتے تھے اور اس کا مطالبہ کرنے والوں سے جیلوں کی کال کوٹھڑیاں بھر دی جاتی تھیں۔ یہ کوئی دو چار برس کی بات نہیں بلکہ دو صدیوں کا قصہ ہے جو ۱۷۸۷ء میں بنگال کے غیور نواب سراج الدولہؒ کی شہادت سے شروع ہوا اور ۱۹۴۷ء تک پورے تسلسل کے ساتھ جاری رہا۔ اس میں بہار ترہت(مظفرپور) کے عظیم مجاہد آزادی اولین شہید وارث علی کا نام بھی آتا ہے جس نے مظفرپور کو جدوجہد آزادی کا مرکز بنا دیا اور جام شہادت نوش کر کے اپنے ہم وطنوں کو آزادی کے حصول کے لیے با وقار جدوجہد کا راستہ دکھایا۔بقول خالد یوسف:
ہم ہو گئے شہید یہ اعزاز تو ملا
اہل جنوں کو نکتۂ آغاز تو ملا
1857ء کا خونیں انقلاب اور شہید وارث علی
حریت کے متوالوں کی لہو سے لکھی گئی تحریک آزادی کی ناقابل فراموش داستاں اس بات کی گواہ ہے کہ 1857 کی تحریک آزادی کی چنگاری کو شعلہ بنانے میں غیر منقسم ہندوستان کے مختلف مختلف سطح کے لوگوں نے دامے درمے سخنے قدمے،قابل فخر قربانیاں پیش کیں،اس میں علماء، طلباء، ادباء، شعراء،
صحافی، سپاہی، مقامی فوجی،مقامی حکمران، جاگیردار، کسان اور دیگر شہریوں نے انگیزیوں کے خلاف علم بغاوت بلند کیا۔ اس خونیں انقلاب کی المناک داستاں پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے محمد احمد صدیقی لکھتے ہیں کہ:
1857سے 1947 تک کا زمانہ ہندوستان کی تاریخ میں بڑی اہمیت کا حامل ہے یہ وہ زمانہ تھا جب تحریک جنگ آزادی شروع ہوئی پروان چڑھی اور اپنی منزل سے ہمکنار ہوئی۔وطن عزیز کو بیرونی تسلط سے آزاد کرانے کی پہلی باقاعدہ جدوجہد 1857 میں ہوئی۔ انگریزوں کے ظلم و ستم برداشت کرتے کرتے ہندوستانی عوام یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ جب تک ملک آزاد نہیں ہوگا وہ اسی طرح ظلم و بربریت کے شکار ہوتے رہیں گے۔غلامی کے احساس سے ان کے دلوں میں آزادی کا جذبہ بیدار ہوا۔ایک عرصے سے ان کے دلوں میں انگریزوں کے خلاف جو نفرت پروان چڑھ رہی تھی وہ 1857 کی بغاوت کی شکل میں ظاہر ہوئی۔انگریزوں نے اسے قومی بغاوت کانام دیا اور ہندوستانی اسے جنگ آزادی کے نام سے تعبیر کرتے ہیں۔
(آزادئ ہند اور مسلمان،ص:21)
اٹھومری دنیا کے غریبوں کو جگادو!
کاخ امراء کے درد دیوار ہلا دو!
تحریک کا آغاز:
انگریزوں کے خلاف اٹھنے والی چنگاریاں ریاست بہار کے مردم خیز خطہ ترہت(مظفرپور ) میں بھی ایک چنگاری گری یہاں وارث علی کی قیادت میں آزادی کی یہ چنگاری شعلہ بن کر بھڑک اٹھی۔
تحریک لوٹا بغاوت
جس طرح پورے ملک میں انگریز ،ہندوستانیوں پر مختلف طریقے سے ظلم و ستم ڈھارہے تھے جس سے دلبرداشتہ ہوکر لوگ ان کے خلاف جنگ کا اعلان کرتے ہوئے۔ میدان میں اترگئے تھے اسی طرح ترہت پر قابض انگریز جو یہاں نیل کی کاشتکاری کرواتے تھے اور انگریزی حکومت کے اشارے پر عام عوام پر ظالمانہ طریقے سے حکومت کرتے تھے۔ 1857 میں جب پورے ملک میں انگریزوں کے خلاف بغاوت کا طوفان شروع ہوا تو۔ ترہت کے متعلق وارث علی پٹنہ کے عظیم مجاہد آزادی مولوی کریم کو خط لکھ کر یہاں کے حالات سے روبرو کراتے تھے۔ کیوں کہ انگریزوں کی ریشہ دوانیاں روز بروز بڑھتی ہی جارہی تھیں، شہید وارث علی نے مسلسل کئی مہینے خفیہ تیاری کے بعد سامراجی قوت کو صفحہ ہستی سے نست و نابود کرنے کے لیے ایک تحریک "لوٹا بغاوت "کے نام سے شروع کی۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی شعبۂ تاریخ کے پروفیسر محمد سجاد لکھتے ہیں کہ:
مجاہدین آزادی کے بلند حوصلے سے خوف زدہ انگریزی حکومت نے 1853ء میں فیصلہ کیا کہ کہ جیلوں میں قیدیوں کو ملنے والے پیتل کے لوٹے ضبط کر لیے جائیں گے اور انہیں مٹی کے برتن لوٹے وغیرہ ہی استعمال کرنے ہوں گے۔ اس فیصلے نے آرہ اور مظفر پور کے جیلوں میں بند قیدیوں کے غصے میں بے پناہ اضافہ کر دیا۔ ہندو قیدیوں کو پیتل سے خاص مذہبی عقیدت تھی لہذا اس قدم کو مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے مترادف سمجھا -پیتل کے لوٹے کو ہٹانے کے فیصلے پر آرہ اور مظفر پور کے قیدی بھڑک اٹھے اس بغاوت میں عام لوگ بالخصوص کسان بھی بڑے پیمانے پر شامل ہوگئے۔مظفر پور کے سڑکوں پر رعیت اور شہر کی عام آبادی نکل آئی اور پورے خلقت جیل کی جانب بڑھنے لگی۔ جیل پر حملہ کرکے قیدیوں کو فرار کر دیا ۔اس تحریک کو "لوٹا بغاوت” کا نام دیا گیا۔ اس تحریک کی تیاری خفیہ طورپر دراصل مظفرپور ضلع کے بڑوراج پولیس چوکی کے جمعدار وارث علی نے کی تھی۔
(ہندوستانی مسلمان، مسائل و امکانات،ص:120 )
گرفتاری :
لوٹا بغاوت تحریک برپا کرنے اور مجاہد آزادی مولوی علی کریم کے ساتھ مل کر بغاوت کرنے کی کوشش کے الزام میں انگریزوں نے شہید وارث علی کو ترہت حلقہ مظفرپور ضلع کے بڑوراج پولیس چوکی سے گرفتار کرلیا۔ معروف تاریخ داں،صاحب تاریخ مگدھ، مولوی فصیح الدین بلخی عظیم آبادی لکھتے ہیں کہ:
نیل کے تاجروں کی مددسے انگریزوں نے داروغہ وارث علی کو گرفتار کرلیا۔اس کے(وارث علی) کے پاس کوئی خط برآمد ہوا۔جو اس نے بغاوت کے بارے میں مولوی علی کریم زمین دار موضع ڈمری ضلع پٹنہ کو لکھا تھا۔اس خط کے سبب مولوی علی کریم کی بھی گرفتاری عمل میں آئی۔
(تاریخ مگدھ ص:345، شائع کردہ، انجمن ترقی اردو،ہند،دہلی)
شاد عظیم آبادی اپنی کتاب "پیر علی” میں رقمطراز ہیں کہ:
پیر علی 1857کی جنگ آزادی میں پٹنہ کے مجاہدین آزادی کے سربراہ تھے۔ان کے سب سے قریبی دوست وارث علی ترہت پولیس میں جمعدار تھے۔جو دہلی کے رہنے والے تھے۔انہیں بغاوت کے الزام میں(مظفرپور ضلع پارو تھانہ) اب بڑوراج پولیس چوکی کے سے 23/جون 1857 کو گرفتی ار کرکے داناپور چھاؤنی میں قید کردیاگیا۔
شہادت:
وارث علی کو 1857 تحریک آزادی میں بہار کے سب سے پہلے شہید ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔تاریخ داں اشوک انشومن اور شری کانت نے اپنی کتاب "غدر ان ترہت ” میں وارث علی سے متعلق خطوط جو انہوں نے علی کریم کو لکھا تھا اور اس وقت پٹنہ کے کمشنر ولیم ٹیلر نے حکومت بنگال کے سکریٹری اے آر ینگ ،لیفٹنٹ گورنر آف بنگال ،فریڈ جیس ہیلیڈ کو ارسال کیے گئے خطوط اور شہید وارث علی کی شہادت کو منظر عام پر لانے والے مظفرپور کے مشہور محقق اور صحافی آفاق اعظم کے مطابق وارث علی کو 06 جولائی 1857 کو(داناپور چھاؤنی میں) پھانسی دینے کی تصدیق کی ہے۔
بہار کے پہلے شہید مجاہد آزادی وارث علی
جدوجہد آزادی میں مسلمانوں نے سب سے زیادہ قربانیاں دیں لیکن ان کی قربانیوں کو جان بوجھ کر چھپادیا گیا یا عوام کی نظروں سے اوجھل کردیا گیا۔ انہیں میں سے ایک شہید وارث علی تھے جنہیں برطانوی راج کے خلاف سازش کے الزام میں پھانسی دی گئی۔ اس طرح وہ انگریز حکومت کے خلاف جدوجہد کی پاداش میں پھانسی پر چڑھ جانے والے بہار کے پہلے مجاہد آزادی بن گئے۔ آخر کار ترہت بہار کے وارث علی کی قربانی کو تسلیم کرتے ہوئے 164 سال بعد 2021 میں وزارت ثقافت اور ہندوستانی تاریخی تحقیقاتی کونسل کے ذریعہ جاری کردہ ملک کے شہداء کی نئی فہرست میں وارث علی کا نام بہار کے شہدا میں پہلے نمبر پر شامل کیاگیا۔ اس فیصلےنے بہار کی تاریخ کو ایک نئی اونچائی دی ہے۔ مرکزی حکومت کے ذریعہ شائع کتاب ڈکشنری مارٹیئرس (انڈیاس فریڈم اسٹرگل 1947-1857 ) کی چوتھی جلد میں وارث علی کو بہار کے اول شہید کے طورپر ذکر کرنے کے ساتھ ہی مرکز کی طرف سے بہار کے پہلے شہید وارث علی کی شہادت پر مرکز کی تصدیقی مہر لگ گئی ہے۔
لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ بہار حکومت کے جوائنٹ سکریٹری کی ہدایات کے باوجود بہار کے پہلے شہید وارث علی کی یادگار تعمیر نہیں ہو سکی۔ اس سلسلے میں مظفرپور کے ڈی ایم نے 17 فروری 2023 کو میونسپل کمشنر کو خط لکھا تھا۔ جس میں حکومت کے جوائنٹ سیکرٹری کے حکم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ وارث علی کے یوم شہادت کو حکومتی سطح پر منایا جائے جس میں شہید وارث علی کی یادگار کی تعمیر بھی شامل ہے۔لیکن نہ تو یادگار کی تعمیر کے لیے جگہ کی نشاندہی کی گئی اور نہ ہی حکومتی سطح پر یوم شہادت تقریب منانے کے لیے کوئی اقدام کیا گیا۔ عزم (سنکلپ) تنظیم کے صدر جمیل اختر نے ایک بار پھر ڈی ایم کو اس سلسلے میں میمورنڈم دیا ہے۔
"عزم” کے جہد مسلسل کو سلام
ملک کی آزادی کے لئے دارورسن کو آباد کرنے والے
غیر منقسم بہار(ترہت) کے پہلے شہید مجاہد آزادی وارث علی جنگ آزادی کے دیگر گمنام مجاہدین اور شہداء کی طرح ہی فقط تاریخ کی کتابوں کی چند صفحات تک محدود تھے۔ان کو عوام الناس کے درمیان شناخت دلانے اور انہیں حکومتی سطح پر شہادت کا اعزاز دلانے میں مظفرپور کی ایک غیر سرکاری تنظیم عزم (سنکلپ) نے بڑی جدوجہد کی اور برسوں کی محنت کے بعد 2017 میں مظفرپور کے رخصت پذیر ڈی ایم دھرمندر، جنرل انتظامیہ شعبہ کو اپنی طرف سے سفارش بھیجی تھی۔ عزم تنظیم کے روح رواں رشحات قلم صحافی محمد آفاق اعظم نے ترہت کے شہیدوں پر مواد جمع کرکے وارث علی کو شناخت دلانے کا جو عزم مصمم کیا وہ شرمندہ تعبیر ہوا۔ اس کے لئے عزم کے سرپرست پروفیسر فاروق احمد صدیقی، پروفیسر ابوذر کمال الدین،ڈاکٹر سید علی مرتضی،پروفیسر التمش علی داؤدی،ڈاکٹر جلال اصغر فریدی،صحافی سید محمد باقر،عزم کے صدر جناب جمیل اختر، حاجی امتیاز احمد، ڈا کٹر منصور معصوم،صحافی اخلاق احمد، صحافی سید ماجد حسین، فہد زماں، ظفر اعظم، آفتاب عالم، اکبر اعظم صدیقی، اعجاز احمد، کامران رحمانی، پروفیسر اروند کمار ڈے، کرشن موہن، سورج کمار سنگھ وغیرہ کے علاوہ متعدد شخصیات کا اہم کردار ہے۔ گمنام مجاہد آزادی کو شناخت دلانے میں نمایاں کردار ادا کرنے والے تمام لوگوں کے جہد مسلسل کو سلام۔ یہ حقیقت ناقابل فراموش ہے کہ انہیں جیسے مجاہدین آزادی کی شہادتوں کے نتیجے میں ہندوستان سامراجی قوتوں کے ناجائز قبضے سے آزاد ہوا۔امین سلونوی نے درست کہا ہے کہ:
خوں شہیدان وطن کا رنگ لا کر ہی رہا
آج یہ جنت نشاں ہندوستاں آزاد ہے
یہ حقیقت بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ شہید وارث علی سمیت بے شمار مجاہدین آزادی نے ملک کی آزادی کے لئے دارورسن کو آباد کیا لیکن افسوس کہ آزادی کے پچہتر سالوں بعد بھی ہم اپنے ملک کو وہ ترقی نہیں دے سکے جو ہمارے اسلاف کا خواب تھا۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ مذہب، ذات پات اور علاقائیت کے نام پر گندی سیاست، مفاد پرستی ، خو د غرضی ہونے لگی ہے ، گلی کوچے وطن کی محبت میں سرشار ہونے کے بجائے نفرت، ہنگامہ خیزی ۔خوں ریز فسادات کا دور دورہ ہو توملک کیسے ترقی کر ے گا۔ ملک کا ہر شہری آج بھی وطن عزیز کو دنیا کا عظیم ملک بنانے کا خواب لئے بیٹھا ہے ، اس کی تمنا ہے کہ وہ ہر میدان ، ہر شعبہ میں اعلیٰ مقام حاصل کرے ، ہائے افسوس ! وقت کے حکمرانوں کو اس کی خبر کہاں ، وہ تو اپنی سیاست چمکانے میں مصروف ہیں،اپنی مگن میں دھت ہیں، ان خوابوں کی بہتر تعبیر بتانے سے ملک کے رہنما ہی قاصرہیں تو پھر ملک کیسے ترقی کی منزلیں طئے کرے گا، کیسے اور کس طرح اس ملک کو عظیم بنائیں گے ؟ غور کریں ! ہم روشن مثبت پہلوؤںکو پیش نظر رکھیں، ماضی کو محض ایک ورثہ کے طورپر نہیں بلکہ مستقبل میں اپنے کی تعمیر وترقی میں اس جدجہد کی عظیم روایات کو فروغ دے سکیں۔آیئے ، جس طرح ہم سب نے مل کر ملک کی آزادی حاصل کی ہے اسی حوصلے و جذبے سے سرشار ہوکر ملک کو عظیم ملک بنائیں۔ آج وقت کا تقاضا ہے کہ اسلاف کے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے موجودہ فسطائی قوتوں کے خلاف جہد و جہد کا راستہ اختیار کریں۔ بقول علامہ اقبال:
اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخ امرا کے در و دیوار ہلا دو
گرماؤ غلاموں کا لہو سوز یقیں سے
کنجشک فرومایہ کو شاہیں سے لڑا دو
سلطانی جمہور کا آتا ہے زمانہ
جو نقش کہن تم کو نظر آئے مٹا دو
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی
اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو
ملک کی موجودہ نفرت انگیز صورتحال جہاں مذہب کے نام پر مسلمانوں کا قتل کیا جارہا ہے۔ ان کو دوسرے درجے کا شہری بنانے کی کوششیں کی جارہی ہیں ایسے حالات میں آج ایک بار پھر شہید وارث علی سمیت جنگ آزادی کے لاکھوں شہداء و مجاہدین کی روحیں بے چین و مضطرب ہیں اور انتہائی کرب و الم کے عالم میں ہم سے سوال کر رہی ہیں کہ کیا ہماری قربانیوں اور جدو جہد کے ساتھ تم اسی طرح بے وفائی کرتے رہو گے؟ اور کیا اپنے عمل و کردار سے اسی طرح ان کا مذاق اڑاتے رہو گے؟ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا ہم میں سے کسی کے پاس اس سوال کو سننے کی فرصت بھی ہے؟