ہتھیاروں کی ’بھیک‘ پر…

Spread the love

ودود ساجد

اہل غزہ کو اور خاص طور پر ان کی خواتین اور معصوم بچوں کو ہاتھوں میں برتن لئے ہوئے کھانا حاصل کرنے کی قطار میں کھڑے دیکھ کر نہ کچھ لکھنے کو جی چاہتا ہے اور نہ کچھ پڑھنے کو۔ لیکن رمضان کے مہینے میں اہل غزہ کو مکانات کے ملبوں پر روزہ اور تراویح اور عیدالاضحی کے موقع پر قربانی کا اہتمام کرتے ہوئے دیکھ کر ہمت وحوصلہ واپس آجاتا ہے۔۔۔

اتنی تباہی وبربادی اوراتنی غیر یقینی صورتحال کے باوجود غزہ کا بچہ بچہ اسرائیل سے نفرت کا اظہار کرتا ہے۔ یہ حال صرف غزہ میں ہی نہیں ہے۔ اسرائیل سے نفرت دنیا بھر میں بڑھ رہی ہے۔ تمام بڑے ممالک میں اس کے خلاف اور فلسطینیوں کے حق میں بڑے بڑے مظاہرے ہورہے ہیں۔ خود اسرائیل میں ہی حکومت اور خاص طور پر وزیر اعظم نتن یاہو کے خلاف مظاہرے اور احتجاج ہو رہے ہیں۔ نتن یاہو نے اپنے ساتھ ساتھ جو بائیڈن کو اور جو بائیڈن نے امریکہ کو ذلت و رسوائی میں مبتلا کردیاہے۔ یہاں تک کہ البانیہ کے وزیر اعظم نے تو ایک پرانا حوالہ دیتے ہوئے امریکہ کے وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کی موجودگی میں امریکہ اور اسرائیل کو ’شیطانی ریاست‘ تک کہہ ڈالا۔ ۔۔

جو لوگ فلسطین کی تاریخ پر نظر رکھتے ہیں انہیں علم ہوگا کہ وقت کے ساتھ ساتھ کس طرح فلسطین کی عالمی تائید کمزور پڑتی جارہی تھی اور کس طرح اسرائیل کے وجود کو رفتہ رفتہ قبولیت حاصل ہوتی جارہی تھی۔ امن کی متلاشی دنیا اس پر تیار تھی کہ کسی بھی طرح سہی چونکہ اب ایک ملک (اسرائیل) وجود میں آگیا ہے اور اس کی سائنس اور ٹکنالوجی کے میدانوں میں حاصل شدہ ترقی سے دنیا کے بیشتر ممالک استفادہ کر رہے ہیں‘ لہذا اسے طوعاً و کرہاً تسلیم کرلیا جائے۔ خود سعودی عرب نے بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کی طرف بڑھنا شروع کردیا تھا۔ اور چوری چھپے نہیں بلکہ کھلے عام۔ لیکن فی الحال وہ سارے منصوبے سرد خانے میں چلے گئے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ جن مظلوم اور خانماں برباد فلسطینیوں کی سرزمین پر اسرائیل آباد ہوا انہیں کب تک سانس لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی؟ پچھلے 75سال سے عموماً اور 17سال سے خصوصاً ان کی زندگیوں پر جو جابرانہ اور ظالمانہ پہرے بٹھا رکھے ہیں آخر کب تک وہ پہرے نہیں ہٹیں گے؟ جب دنیا نے اسرائیل کے وجود کو برداشت کرکے اس سے رسم وراہ بڑھالی ہے تو پھر ان لاکھوں فلسطینیوں کو ان کا حق خود اختیاری کیوں نہیں دیاجارہا ہے؟ اقوام عالم نے ایسا خلا چھوڑا ہی کیوں جس میں حماس اور قسام جیسی تحریکیں وجود میں آجائیں؟ اس اعتبارسے آج اسرائیل ناکام اور یہ تنظیمیں کامیاب ہیں کہ پوری دنیا کو ایک بار پھر مسئلہ فلسطین کی حساسیت کا ادراک ہوا ہے اور جس اسرائیل کو لوگ قبول کرنے لگے تھے اس کے خلاف پوری دنیا میں نفرت پھیل رہی ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اب اس قضیہ کی گرد آسانی سے نہیں بیٹھے گی اور اہل فلسطین کو کتنا ہی جانی ومالی نقصان ہوجائے ان کا حق مل کر رہے گا۔

اسرائیلی فوج کے چیف ترجمان ڈینیل ہگاری کا تفصیلی بیان آیا ہے کہ’ جو بھی یہ سمجھتا ہے کہ ہم حماس کو ختم کرسکتے ہیں وہ غلطی پر ہے‘۔ ہگاری نے یہ بھی کہا ہے کہ اسرائیلی یرغمالوں کو جنگی راستہ سے واپس لانا ممکن نہیں ہے اور اس کیلئے سیاسی راستے تلاش کرنے ہوں گے۔ اسرائیلی فوج کے تفصیلی بیان سے اندازہ ہوتا ہے کہ فوج اور حکومت کے درمیان اختلافات پیدا ہوگئے ہیں۔ سات اکتوبر 2023 کے حماس کے حملہ کے بعد اسرائیل کے وزیر اعظم نتن یاہو نے یہی کہہ کر جنگ شروع کی تھی کہ ان کا پہلا اور آخری ہدف حماس کو جڑ سے ختم کرنا ہے اور اس ہدف کو حاصل کئے بغیر وہ پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ نتن یاہو ابھی تک اپنی اسی ضد پر قائم ہیں۔ اسرائیل کو حاصل تمام تر برتری کی روشنی میں دنیا نے یہی سمجھا تھا کہ حماس کا خاتمہ ہوا ہی چاہتا ہے اور یہ کہ یہ جنگ جلد ہی ختم ہوجائے گی۔

لیکن یہ جنگ نو مہینے سے جاری ہے۔ جانی ومالی نقصان یقینا اہل فلسطین کا ہورہا ہے لیکن جنگ یکطرفہ نہیں ہے۔ اسرائیل کو بھرپور جواب مل رہا ہے۔ خود حکومت اسرائیل کے مطابق اب تک ایک ہزار 139 اسرائیلی فوجی مارے جاچکے ہیں۔ پچھلی تمام جنگوں اور تصادم کے مقابلہ میں یہ تعداد بہت زیادہ ہے۔ 500 سے زیادہ میرکافا ٹینک حماس نے برباد کردئے ہیں۔ ایک ٹینک کی قیمت 35 لاکھ امریکی ڈالر ہے۔ ٹائمز آف انڈیا کے یوٹیوب چینل سمیت بہت سی ایجنسیوں نے اسرائیل کی وزارت برائے ملٹری امور کے حوالہ سے بتایا ہے کہ اس جنگ میں اب تک اسرائیل کے 70 ہزار سے زائد فوجی معذور ہوگئے ہیں۔ غزہ میں زخمی ہونے والے فوجیوں میں 35 فیصد دماغی امراض میں مبتلا ہیں۔ ان میں سے 21 فیصد شدید زخمی ہیں۔ آٹھ ہزار 663 فوجیوں کا نفسیاتی علاج ہورہا ہے۔۔

فوج کے بازآبادکاری شعبہ کو اندیشہ ہے کہ 2024 کے اختتام تک مزید 20 ہزار زخمی فوجی آسکتے ہیں۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ جنگ میں شامل 40 فیصد فوجی شدید صدمہ اور ذہنی کشیدگی کا شکار ہوسکتے ہیں۔ اسرائیلی میڈیکل ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ وہ ہر مہینہ ایک ہزار فوجیوں کا علاج کر رہی ہے۔ ماہرین نفسیات کو ڈر ہے کہ شدید تنائو کا شکار فوجیوں میں خود کشی کا رجحان راہ پاسکتا ہے۔ حال ہی میں غزہ سے لوٹتے ہوئے ’ایلران مزراہی‘ نامی اسرائیلی فوجی نے گولی مارکر خود کشی کرلی۔ مارچ 2024 میں کئے جانے والے ایک مطالعہ میں بتایا گیا ہے کہ پانچ لاکھ اسرائیلی شہریوں کے اندر بھی شدید صدمہ اور ذہنی کشیدگی میں اضافہ کا خطرہ ہے۔

یہ درست ہے کہ اب تک 37 ہزار سے زیادہ فلسطینی شہری شہید ہوگئے ہیں لیکن اتنا قتل عام مچانے اور شہر کے شہر تباہ کرنے کے باوجود کیا اسرائیل اپنے اصل ہدف کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکا ہے؟ جواب نفی میں ہے۔ کامیابی تو بہت دور ابھی وہ اپنے ہدف کے قریب بھی نہیں پہنچ سکا ہے۔ امریکہ جیسے منافق پر یقین کرنا بہت مشکل ہے لیکن دوہزار ٹن والے بموں کی ترسیل تو علی الاعلان روکی گئی ہے اور نتن یاہو کا یہ اعلان کم نہیں ہے کہ اگر اسرائیل کو بچانا ہے تو امریکہ کو جلد ہتھیاروں کی ترسیل کرنی ہوگی۔

نتن یاہو نے نو مہینے کی قتل وغارت گری کے بعد اپنی 6 رکنی جنگی کابینہ کو تحلیل کرکے اپنی کمزوری اور پسپائی کو ہی تسلیم کیا ہے۔ اپوزیشن جماعتیں تو ان کے استعفی کا مطالبہ کرتی ہی رہی ہیں خود ان کے حلیف بھی ان کے فیصلوں پر سخت تنقید کرتے رہے ہیں۔ دنیا بھر کے ماہرین جنگ کا خیال ہے کہ ایسے نازک ترین وقت میں جنگی کابینہ کو تحلیل کرنے کے معنی اس کے سوا کچھ نہیں کہ نتن یاہو کے ہاتھ سے جنگ نکل چکی ہے۔ اب اگلا نمبر ان کی حکومت کا ہے‘ وہ بھی خاتمہ کی طرف بڑھ رہی ہے۔ دو متشدد جماعتوں سے تعلق رکھنے والے وزراء‘ اسموتریش اور بن غفیر نے نئی جنگی کابینہ کی تشکیل کا مطالبہ کیا ہے لیکن نتن یاہو نے اس مطالبہ کو مسترد کردیا ہے۔ یہی دونوں وزیر ہیں جو مسلسل بمباری کرکے تمام اہل غزہ کو مٹا دینے کے حق میں ہیں۔۔

ایسے میں اسرائیلی فوج نے لبنان کی عسکری تنظیم حزب اللہ کے خلاف بھی ’مکمل جنگ‘ کا منصوبہ ترتیب دے کر حکومت کے سامنے رکھ دیا ہے۔ واضح رہے کہ اس جنگ کے دوران لبنان کی سرحد پر اسرائیل کے حملوں میں حزب اللہ کے 400 سے زائد ارکان اور 300 سے زائد شہری جاں بحق ہوئے ہیں۔ جوابی کارروائی میں اسرائیل کے بھی درجنوں فوجی اور شہری مارے گئے ہیں۔ امریکہ نے اعلان کردیا ہے کہ وہ حزب اللہ کے خلاف جنگ میں اسرائیل کا ساتھ دے گا۔

گزشتہ 18جون کو حزب اللہ نے ساڑھے نو منٹ کی ایک ویڈیو جاری کرکے بتایا تھا کہ لبنان کی سرحد سے 17 کلو میٹر دور اسرائیل کے ساحلی شہر حیفہ کی یہ ویڈیو اس کے ذریعہ بھیجے گئے ڈرون نے بنائی ہے جو اپنا مشن انجام دے کر بحفاظت واپس آگیا تھا۔ حیرت ہے کہ اسرائیل کے جدید ترین آئرن ڈوم سسٹم نے اسے نہیں پکڑا۔ اس ویڈیو میں حیفہ شہر میں اسرائیلی فوج کی تنصیبات سمیت بہت سی اہم اور حساس عمارتوں کی تصاویر تھیں۔ 19جون کو حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ نے اپنے چند ساتھی شہداء کی تعزیتی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اسرائیل کو چوطرفہ حملوں کی دھمکی دی تھی۔ 20 جون کواس تقریر کی رپورٹ صرف آپ کے پسندیدہ روزنامہ انقلاب میں ہی شائع ہوئی تھی۔ ہمیں یہ یقین کرنے کی کوئی جلدی نہیں ہے کہ فلسطینیوں کومزید تباہی وقتل وغارت گری سےبچانے کیلئے حزب اللہ بہت جلد اسرائیل پرحملہ کردے گی۔ لیکن گزشتہ نو مہینوں کے دوران اپنی نوعیت کی حسن نصراللہ کی یہ پہلی تقریر تھی۔ اس سے پہلے کی تقریروں نے ان لوگوں کو مایوس کیا جو اس انتظار میں تھے کہ حزب اللہ کی طرف سے اسرائیل پر تابڑ توڑ حملے ہوں گے اور غزہ اور رفح کو بچالیا جائے گا۔ ۔۔

19 جون کی تقریر میں حسن نصراللہ نےکہا: ’ہم کسی بھی حال میں اہل فلسطین‘ حماس اور مجاہدین کی حمایت سے دست کش نہیں ہوں گے۔ دنیا کی کوئی طاقت ہمیں فلسطین کی مدد کرنے سے نہیں روک سکتی‘ ہماری مدد جلد ہی اہل فلسطین کو پہنچے گی اور اسرائیل کے صہیونی ہمیں روک نہیں پائیں گے‘ ہمارے پاس اسرائیل کے اندر کی بہت ساری حساس اور اہم معلومات ہیں۔ ان معلومات میں حیفہ سے پہلے کی بھی ہیں اور حیفہ کے بعد کی بھی ہیں۔ ہمارے پاس منٹوں کی نہیں بلکہ گھنٹوں کی حساس معلومات ہیں۔ ‘

انہوں نے اسرائیل کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے پاس جہاں تمہارے شہروں اور تنصیبات کی نئی معلومات آگئی ہیں وہیں ہمارے پاس نئے اور خطرناک قسم کے ہتھیار بھی آگئے ہیں۔ اگلے چند ایام میں ہمیں مزید نئے ہتھیار حاصل ہوجائیں گے اور یہ کہ اسرائیل سے فیصلہ کن جنگ لڑنے کیلئے ہمارے پاس تمام مطلوبہ قوت موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ایک لاکھ سے زیادہ جنگجو اسرائیل سے ہر محاذ پر لڑنے کو تیار ہیں اور یہ تعداد اسرائیل کو شکست دینے کیلئے مطلوب تعداد سے کہیں زیادہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس طاقت کے باوجود اللہ پر توکل رکھتے ہیں اور اس کے ان وعدوں پر یقین کامل رکھتے ہیں جو اس نے مومنین سے کئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کیا شیعہ‘ کیا سنی اور کیا مسیحی سب ہمارے ساتھ ہیں۔ ۔

حسن نصراللہ نے کہا کہ دشمن کو اچھی طرح معلوم ہے کہ ہمارے پاس اپنے نشانے حاصل کرنے کیلئے تمام مطلوبہ قوت موجود ہے اور اسی سے وہ خائف ہے۔ انہوں نے اپنی تقریر کے اختتام پر کہا کہ دشمن کو اس وقت کا انتظار کرنا چاہئے جب ہم اس پر ایک ساتھ بری‘ بحری اور فضائی حملے کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ جب ہم ٹھان لیں گے تو پھر ناممکن ہے کہ دنیا کی کوئی طاقت ہمیں روک سکے۔

حسن نصراللہ کی یہ دھمکی ایسے وقت میں آئی جب ایک روز پہلے ہی امریکی صدر کے سینئر ایڈوائزر ایموس ہیکسن لبنان اور اسرائیل کے دورے سے واپس گئے ہیں۔ وہ حزب اللہ کے ساتھ اسرائیل کی ممکنہ جنگ کو روکنے کی کوششوں کے سلسلہ میں آئے تھے لیکن لگتا ہے کہ اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان جنگ ناگزیر ہے۔ اگلے چند روز بہت اہم ہوسکتے ہیں۔

Leave a Comment