حجۃ الوداع کو سمجھے بغیراسلام کو سمجھنا ناممکن ہے (پہلی قسط)
ڈاکٹر علیم خان فلکی
صدر،سوشیو ریفارمس سوسائٹی، حیدر آباد
9642571721
کیا یہ ممکن ہے کہ خطبہ حجۃ الوداع کو پڑھ لینے کے بعد کوئی مسلمان فرد، جماعت، عالم یا مشائخ کسی دوسرے کلمہ گو کے تحقیر یا تکفیر کرے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ قرآن کو دستورِ حیات ماننے والے اپنے مقدمات بجائے اپنے علما و مفتیان کے پاس لے جانے کے کسی اور کی عدالتوں میں لے جائیں؟ کیا یہ ممکن ہے کہ مسلمان وکیل، ڈاکٹر، لیڈر، صحافی، تاجروغیرہ جھوٹ اور فریب کے ذریعے حرام مال کو ہاتھ لگائیں اور ساتھ میں نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج و عمرہ بھی ادا کرتے رہیں؟ کیا یہ ممکن ہے عورت کے حقوق کی پامالی ہو؟ کیا یہ ممکن ہیکہ ایک عام مسلمان بُرائی کو دیکھے اور خاموش رہے؟
ہرگز نہیں۔ یہ نا ممکن ہے۔ یہ ناممکن ہیکہ خطبہ حجۃ الوداع کو پڑھ لینے کے بعد عام مسلمانوں، جماعتوں، علما و مشائخین میں مسلکوں، عقیدوں اور انا کی جنگ باقی رہے۔ یہ خطبہ صرف مسلمانوں کیلئے نہیں بلکہ پوری انسانیت کیلئے امن و انصاف کی ضمانت ہے۔ یہ ایک ایسا اخلاقی ہتھیارہے جس کے ذریعے ہم ہر قسم کی دہشت گردی، نیوکلیر ٹکنالوجی اور منفی میڈیا کا مقابلہ انشااللہ بآسانی کرسکتے ہیں۔ یہ چارٹرنشاۃ ثانیہ کی ایک بشارت ہے۔ آیئے اس خطبے پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
حج یا عمرہ کیسے کیا جائے؟نماز کیسے پڑھی جائے؟زکوٰۃ کسیے ادا کی جائے؟ روزے کے احکام کیا ہیں؟ فاتحہ،سلام، میلاد اور عرس وغیرہ کا کیا مقام ہے؟ معرفت، طریقت، شریعت، سنّیت، شیعیت، بریلویت، دیوبندیت اور سلفیت کیا ہے؟ کون سے امام کہاں تک صحیح ہیں؟ ہم ہر سال ایسے بے شمار سوالات،فتاویٰ، بحث و مباحثے، تقاریر و مضامین سنتے اور پڑھتے ہیں اور سالہا سال سے یہی کرتے آرہے ہیں۔اور انہی کی روشنی میں ہماری عبادات جاری ہیں۔
انسانی نفسیات ہے کہ کسی عبادت میں جسمانی طور پر خود کو خوب تھکانے میں ہمیں اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ ہم کچھ لمحوں کے لیے اپنے دل، دماغ اور ضمیرسے یہ سوال کرنا نہیں چاہتے کہ یہ سب عبادتیں ہم کیوں کریں؟ ایک فوجی کو اگر یہی پتہ نہ ہو کہ اسے اتنی سخت پریڈ اور ٹریننگ کیوں دی جا رہی ہے اور اگر اسی ٹریننگ کو وہ نوکری کا اصل مقصد سمجھ کر محنت کیے جا رہا ہو اور پروموشن کی آس لگائے بیٹھاہو تو اس فوجی کو کیا کہا جائے گا؟
عزیزان محترم۔ خطبہ حجۃ الوداع انسانیت کی بقا کے لیے ایک عظیم چارٹر ہے لیکن مسلمانانِ عالم کے لیے یہ ایک چارٹر نہیں بلکہ چارج شیٹ ہے۔ آج بھی اگر ہم اس چارٹر پر عمل کر لیں تو دنیا کی قیادت ہمارے ہاتھوں میں ہوگی۔ یہ قیادت ہمارا منصب ہے۔ہم امّت ابراہیمی ہیں۔ دنیا کی امامت پر ہمارا حق ہے۔ اگر ہم یہ قیادت نہ سنبھال سکے تو کوئی اور قوم ہے نہ امت جو یہ منصب سنبھال سکے گی۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ پوری انسانیت قتل و غارتگری، ظلم و استحصال میں گھر جائے گی اور آج من و عن یہی صورتحال ہے۔
آئیے ایک بار غور کرتے ہیں کہ خطبہ حجۃ الوداع کی صورت میں کتنا عظیم ہتھیار ہمارے پاس موجود ہے جس کے ذریعے ایک قطرہ خون بہائے بغیر اس امن کی پیاسی دنیا کو ہم انسانیت سے سیراب کر سکتے ہیں۔
خطبہ حجۃ الوداع:
یہ خطبہ 23 سال کی پوری تعلیمات کا نچوڑ ہے۔ اس میں نبوت کا اصل پیغام، "دعوت” کی تعریف، جس کام کی دعوت دی جانی ہو اس کی واضح نشاندہی اوراس دین کو قائم کرنے کے طریق کار کو واضح طور پر بتا دیا گیا ہے۔ہم یہاں صرف چند نکات ہی پیش کرینگے جو ایک انقلاب برپا کرنے کیلئے کافی ہیں۔
خطبہ حجۃ الوداع کا پہلا اہم نکتہ: کیا یہ دین واقعی آپﷺ پر مکمل ہوا یا۔۔۔۔؟
ایہا الناس! اسمعوا منی ما ابین لکم، فانی لاادری لعلی لاالقاکم بعد عامی ھذا فی موقفی ھذا.(ترجمہ) اے لوگو! مجھے بغور سن لو، ہو سکتا ہے اس سال کے بعد مجھے اس مقام پر تم دوبارہ نہ پاؤ۔ (المعجم الکبیر ۷۴۶۷، مسند احمد ۰۳۲۱۲، ترمذی ۹۵۵)
اس نکتہ کی تشریح قرآن کی اس آیت میں ملتی ہے ”الیوم اکملت لکم دینکم“ آج تمہارے لئے تمہارے دین کو مکمل کردیا گیا“۔ اس پر تمام صحابہ کا اجماع ہوگیا اور تمام نے گواہی دی کہ آپ ﷺ نے یہ دین پورا پورا کا قیامت تک کے انسانوں کیلئے پہنچادیا۔ پھر آپ ﷺ نے تمام سے عہد لیا کہ جو موجود نہیں ہے ان تک دین کو پہنچا دینگے۔
لیکن آج بے شمار جماعتیں، عقیدے، مسلک، گروہ اور سلسلے اپنے حق ہونے کے اعلان اور دوسروں کی تکفیر و تضحیک و تحقیر کے ذریعے بین السطور یہ اعلان کررہے ہیں کہ یہ دین رسول اللہﷺ پر مکمل نہیں ہوا تھا کئی چیزیں باقی رہ گئی تھیں جنکواب یہ لوگ پورا کررہے ہیں۔ لہذا دین اللہ کے رسول ﷺ پر نہیں بلکہ اِن پر مکمل ہوا ہے۔
خطبہ حجۃ الوداع کا دوسرا اہم نکتہ: ایک دوسرے کی جان، مال اور عزت تم پرحرام ہے۔
فان اللہ حرم علیکم دماء کم واموالکم واعراضکم کحرمۃ یومکم ھذا فی شھرکم ھذا فی بلدکم ھذا (صحیح البخاری، کتاب الحج، باب الخطبۃ ایام منًی)
"تمہارا خون، تمہارا مال اور تمہاری عزت و آبرو (تاقیامت) اسی طرح محترم ہیں جس طرح یہ دن (یوم عرفہ)، جس طرح یہ مہینہ (ذی الحجہ) اور یہ شہر (مکۃ المکرمہ)۔
دنیا کے تمام منشورات (چارٹرز) اسی دفعہ کی تشریحات میں ہیں۔ یہ یاد رہے کہ اس خطبے میں آپ (ﷺ) نے جہاں بھی خطاب کیا ہے "یا ایھا الناس” سے کیا ہے نہ کہ خصوصی طور پر مسلمانوں سے۔
کسی کی جان، مال یا عزت پر ہاتھ ڈالنا، اِس مہینے، اِس دن اور اِس شہر کی بے حرمتی کرنا ہے۔ آپ (ﷺ) کا خطاب ہر سنّی اور شیعہ سے، ہر بریلوی اور دیوبندی سے، ہر اہل حدیث اور تبلیغی سے، ہر پرویزی اور جماعت المسلمین سے، ہر جماعت اسلامی کے رکن اور ہر جہادی، فلاحی، اصلاحی، سیاسی اور علمی کارکن سے ہے جو امت مسلمہ کی ترقی کے لیے کوشاں ہے۔ ان تمام کو اس خطبہ میں حکم دیاگیا ہیکہ "الا المسلم اخوا المسلم” (خبردار؛ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے)۔
مسلک، جماعت، عقیدے یا سیاسی، سماجی و معاشی نظریے میں کوئی آپ سے چاہے لاکھ اختلاف الرائے رکھتا ہو لیکن کسی بھی شخص کو آپ (ﷺ) نے یہ اجازت نہیں دی کہ وہ دوسرے پر ہاتھ اٹھائے یا کسی کی تحقیر یا تکفیر کرے یا کسی کا مال ہڑپ کرے۔ کل قیامت میں امریکی یا صیہونی یا زعفرانی مجرموں سے زیادہ بدترین مجرم وہ ہوں گے جنہوں نے محمد الرسول اللہﷺ سے محبت کا دعویٰ تو کیا لیکن اپنے پیشواؤں کے حکم پر چلتے ہوئے قانونِ محمدی کو روند ڈالا۔۔۔ کسی کو وہابی کہہ کر مارا تو کسی کو بریلوی کہہ کر تکفیر کی، کسی کو اہل حدیث کہہ کر تحقیر کی تو کسی کو تبلیغی یا جماعتیہ کہہ کر تضحیک کی، کسی کو شیعہ کہہ کر قتل کیا تو کسی کو سنّی کہہ کر تبرا کیا۔۔۔ اختلاف کرنے والے کسی بھی فرد کو بی۔جے۔پی یا یہودی ایجنٹ کہہ دینا، قادیانی یا اہل خوارج کہہ دینا، تجدید ایمان اور تجدید نکاح کا فتویٰ دے ڈالا، کافر، مشرک، بدعتی، فاسق فاجر اور جہنمی کہہ دینے کو اپنا تکیہ کلام بنالیا۔۔ کبر و غرور کی انتہا یہ کی کہ اپنے مسلک اور اپنے بزرگ سے جو بھی اختلاف کرے اس کو یا تو خارج از اسلام یا کمترِ اسلام تصور کیا۔علماءِ حق کی تعریف یہ متعین کی کہ جو اپنے مسلک سے ہو یا کم از کم اپنے مسلک کی تائید نہ سہی تو مخالفت بھی نہ کرتا ہو۔ باقی جتنے علماء ہیں، ان تمام کو علماء سو تصور کیا۔حالانکہ ایک حدیث میں آپ (ﷺ) نے اس امت کے علماء کے درجے کو بنی اسرائیل کے پیغمبروں کے برابر فرمایا (جس کا مطلب یہ ہے کہ علماء کو برا بھلا کہنا پیغمبروں کو برا بھلا کہنے کے برابر ہے)۔۔۔ لیکن اس نے یہ کیا کہ اپنے مسلک کو نہ ماننے والے کسی بھی عالم پر تنقید کرنے اور اس پر سب و شتم کو جائز قرار دے لیا۔
انا الحق کے نشے میں چور، اپنے علم اور عقیدے پر مغرور، ضدی اور ہٹ دھرم مولویوں اور شدت پسند بلکہ دہشت پسند ملاؤں نے دین کی اپنی خودساختہ تعبیریں اختیار کیں۔ اور ان معصوم، کم عقل، کم پڑھے لکھے اور جذباتی لوگوں کو ورغلایا اور ان کے ذہن میں یہ بات بٹھادی کہ "جو بھی عالم دین ان کے مسلک سے اتفاق نہ کرے، اس پر نہ صرف تنقید کی جا سکتی ہے بلک اس پر اور اس کے تمام ماننے والوں پر لعنت بھی کی جاسکتی ہے۔ بلکہ ان کے خلاف ہتیار بھی اٹھایا جاسکتا ہے۔
اسی کا نتیجہ یہ ہے کہ بے شمار سادہ دل لوگ بالخصوص نوجوان انہی شدت پسند مولویوں کا شکار ہو گئے ہیں۔ ان بیچاروں کو نہ عربی آتی ہے، نہ سلیقے کی اردو اور جو قرآن و حدیث بھی بمشکل پڑھ سکتے ہیں۔ اگر پڑھتے بھی ہیں تو کبھی اس کا ترجمہ نہیں پڑھتے۔ یا پھر ترجمہ پڑھتے ہیں تو احکامات کی اصل حکمت و تقاضوں کو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ انہوں نے خطبہ حجۃ الوداع کوبھی کئی بار پڑھا ہوگا لیکن اس کا نفاذ کب، کیسے، کہاں اور کس پر ہوتا ہے، انہوں نے یہ کبھی نہیں سوچا ہوگا لیکن چونکہ یہ جذبہ ایمانی سے سرشار ہوتے ہیں لہذا ان پڑھ ملاؤں کی صحبت میں چند مخصوص آیات، احادیث، بے سند قصے کہانیاں اور غیرمنطقی دلائل رٹ لیتے ہیں اور اسلام کی اصل تعلیمات کی تبلیغ کرنے کے بجائے اپنے مسلک اور اپنے علماء کے سیلزمین یا ایڈوکیٹ بن کر ان کی تبلیغ و تشہیر کرنے نکل جاتے ہیں۔ایسا نہیں ہے کہ یہ رویہ غیر مقلدین کا مقلدین کے خلاف ہے۔ خود مقلدین اور غیر مقلدین کے اندر بھی بے شمار مسلک در مسلک، جماعت در جماعت اور سلسلے در سلسلے ہیں جو ایک دوسرے سے وہی رویہ رکھتے ہیں جو مقلدین غیر مقلدین کے ساتھ یا غیر مقلدین، مقلدین کے خلاف روا رکھتے ہیں۔
یہ صحیح ہے کہ میلاد، عرس، چراغاں، قوالی، تعویذ، عملیات وغیرہ کے نام پر آج جتنی بدعات، مشرک قوم کی ہو بہو نقل، اسراف اور لوٹ مار ہو رہی ہے، یہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ جو شخص بھی اسلام کے بارے میں کلمے کے علاوہ کچھ اور نہیں جانتا وہ بھی ان چیزوں کو دیکھ کر کہہ اٹھتا ہے کہ بخدا یہ اسلام نہیں ہو سکتا کیونکہ اسلام ایک دین فطرت ہے اور یہ تمام چیزیں فطرت اور اخلاق کے خلاف ہیں۔
ان عظیم ہستیوں کے تاریخی کارناموں سے واقف ہونے اور واقف کروانے کی آج سخت ضرورت ہے۔ صلاح الدین ایوبی، نورالدین زنگی کے ا شاگردتھے ا اور نورالدین زنگی حضرت سید عبدالقادر جیلانی ؒ کے شاگردوں میں تھے۔ حضرت عبدالقادر جیلانیؒ کا اصل کارنامہ یہ تھا کہ جب ہلاکو خان نے بغداد کو تباہ و تاراج کردیا وہ جنگلوں میں نکل گئے۔ کئی سال کے مراقبوں اور ریاضت کے بعد اپنے بیٹوں، دامادوں، بھانجوں اور بھتیجوں کی ایک ایسی فوج تیار کی جس نے گاوں گاوں شہر شہر جا کر وعظ و تبلیغ کے ذریعے اصل دین کی شمع کو دوبارہ روشن کیا اور اسی سے نورالدین زنگی اور صلاح الدین ایوبی جیسے مجاہدین پیدا ہوئے۔ اسکے بعد کی نسلوں میں ایسے ایسے لوگ پیدا ہوئے جنہوں نے حضرت عبدالقادر جیلانی ؒ کے اصل کارناموں پر پردہ ڈالا اور غوثِ اعظم جیسے فرضی خطابات سے نواز کر من گھڑت قصّے گھڑے اور ان کے نام کی ایجنسیاں قائم کرکے ہندوستان پاکستان میں اپنی اپنی دوکانیں کھول کر بیٹھ گئے۔ اور ایسا تاثّر دینا شروع کیا کہ ان کی مخالفت گویا حضرت عبدالقادر جیلانیؒ کی مخالفت تصوّر کی جائے۔
حضرت معین الدین چشتی کا کلکتہ تا اجمیر کا سفر پڑھئے۔ پتا چلے گا کہ کس طرح وہ تنہا نکلے تھے اور مشرکوں کے ہاتھوں بدترین مظالم سہتے ہوئے جب اجمیر پہنچے تو ان کے ساتھ دس ہزار سے زیادہ انسان تھے جنہوں نے توحید کو گلے لگایا تھا اور آج انہی کی نسلوں سے لاکھوں مسلمان ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش میں حلقہ اسلام میں ہیں۔ آج ان کے جانشینوں نے یقینا ان بزرگوں کی قبروں کو کاشی اور متھرا میں تبدیل کردیا۔ بجائے ان کی چلائی ہوئی توحید کی دعوت کو لے کر آگے بڑھتے، اُن کی کرامات اور وسیلوں کے قصے سنا کر ان کی قبروں پر چٹّھیاں لکھ کر، ڈوریاں باندھ کر لوگوں کے عقیدے خراب کرنے لگے۔ لیکن اس کا مطلب یہ کہاں نکلتا ہے کہ معین الدین چشتی ؒ یا ایسے بزرگوں پر انگلی اٹھانا جائز ہے؟۔ کیا ان بزرگوں پر تنقید کرنا احسان فراموشی، تاریخ سے روگردانی اور اسلاف کی توہین نہیں ہے؟
حضرت نظام الدین اولیا اور امیر خسرو وہی ہیں جن کی وجہ سے دہلی نہ صرف مسلمان ہوا بلکہ مسلم تاریخ کا ہمیشہ مرکز رہا۔آج بھی لاکھوں ہندووں کے دل میں اسلام سے جو عقیدت ہے وہ ان کے آباواجداد کی ان محبت کا نتیجہ ہے جو ایسے بزرگوں کیلئے ان کے دلوں میں تھی۔آج حجۃ الوداع کے خطبے کی جو بھی کھلی خلاف ورزی ہو رہی ہے وہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہماری تاریخ ایسے ہی افسوسناک واقعات سے بھری پڑی ہے۔ تاریخ کے ہر دور میں دشمنانِ اسلام سے زیادہ خود مسلمانوں نے مسلمانوں کا خون بہایا ہے۔ شہادتِ عثمانؓ سے لے کر کربلا تک اور کربلا سے لے کر آج تک شیعہ سنی دشمنی میں دونوں ایک دوسرے کے گلے کاٹتے آ رہے ہیں۔ شافعی حنفی کے اختلافات میں بغداد کی مسجدیں لہو سے رنگین ہوئی ہیں۔ معتزلہ اور خوارج کے فتنوں نے ہزاروں کی جانیں لی ہیں۔ ابوالکلام آزاد نے اپنے والد کی سوانح حیات میں تفصیل سے لکھا ہے کہ کس طرح مسلمانوں کے ایک طبقے نے اہل حدیث طبقے پر زندگی تنگ کی اور جب یہ لوگ مکہ جاتے توشریف مکہ کے توسط سے کس طرح اہل حدیث افراد کو قید کروا کر بغاوت کے الزام میں انگریزوں کے حوالے کیاجاتاتھا۔ اور اس کے بعدکی حالیہ تاریخ میں ہم سب واقف ہیں کہ سعودی عرب میں جب وہابیوں نے غلبہ حاصل کیا تو کس طرح ان لوگوں نے بھی اپنے مخالفین سے گن گن کر بدلے لیے۔
اگر یہ دین حقیقت میں انسانیت کے لیے آیا تھا، اگر محمد رسول اللہ ﷺ نبی آخرالزماں ہیں اور قیامت تک کے انسانوں کے لیے رحمۃ للعالمین ہیں تو خود اس امت کے افراد ایک دوسرے کے لیے رحمت کیوں نہیں ہیں؟
اس مسئلے کا پہلا اصلی سبب یہ ہے کہ لوگوں کو قرآن کو راست پڑھنا اور اس پر غور و تدبر کرنا چھوڑ دیا اور اپنے اپنے احبار و رہبان کی پیروی کرنے لگے۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ مولویوں اور ملاؤں نے عوام کی غفلت، جہالت اور اندھی عقیدت کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ اپنے اپنے مزاج پر دین کا اسٹامپ لگایا اور اپنے اطراف جم غفیر جمع کرنے کے لیے، دین کو غالب کرنے والے موضوعات کو نظرانداز کر کے ایسے موضوعات پر علمی موشگافیاں کرنے لگے جن سے زیادہ سے زیادہ انتشار پیدا ہو سکتا ہے۔
ان تمام فرقوں، گروہوں، مسلکوں، جماعتوں اور سلسلوں سے ایک ہی سوال یہ ہے کہ: ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کے حقوق والی ان آیات اور احادیث کا مقام کیا ہے؟ یہ احادیث اور آیات آیا صرف تقریر کیلئے ہیں؟ کیاصرف قوم کو سنانے کیلئے ہیں یا خود اپنی ذات پر پہلے نافذ کرنے کیلئے ہیں؟جیسے
1) یا ایہا الذین آمنوا لا یسخر قوم من قوم عسی ان یکونوا خیرا منہم ولا نساء من نساء عسی ان یکن خیرا منہن ولا تلمزوا انفسکم ولا تنابزوا بالالقاب بئس الاسم الفسوق بعد الایمان ومن لم یتب فاولئک ہم الظالمون (الحجرات:11)
اے ایمان والو! مرد دوسرے مردوں کا مذاق نہ اڑائیں ممکن ہے کہ یہ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں کا مذاق اڑائیں ممکن ہے کہ یہ ان سے بہتر ہوں اور آپس میں ایک دوسرے کو عیب نہ لگاؤ اور نہ کسی کو برے لقب دو۔ ایمان کے بعد فسق برا نام ہے، اور جو توبہ نہ کریں وہی ظالم لوگ ہیں۔
2) جس شخص نے لا الہ الا اللہ کا اقرار کر لیا اس کا قتل نہیں کیا جا سکتا۔
صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب تحریم قتل الکافر بعد ان قال: لا الہ الا اللہ
3) اگر روز قیامت لا الہ الا اللہ تمہارا دامن پکڑ لے تو تم کیا کرو گے؟
صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب تحریم قتل الکافر بعد ان قال: لا الہ الا اللہ
4) کسی مسلمان کا شر ثابت ہونے کے لیے اتنا کافی ہے کہ وہ کسی دوسرے مسلمان کی تحقیر کرے
ابو داؤد، کتاب الادب، باب فی الغیبۃ
5) کسی مسلمان کو اپنے سے کمتر سمجھنا ہی کبر ہے اور کبر اللہ کی چادر ہے
ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب البراۃ من الکبر و التواضع
آیا یہ احکامات فرض ہیں، واجب ہیں، مستحب ہیں، مباح ہیں، فرض کفایہ ہیں یا پھر کیا ہیں؟ کیا ان کا مقام مسلکی اور علمی اختلافات کے مقابل کالعدم ہو جاتا ہے؟ جن اختلافات کو آپ "عقیدے ” سے یوں تعبیر کرتے ہیں کہ گویا وہ اسلام اور کفر کے درمیان حد فاصل ہیں، کیا وہ اتنے ہی اہم ہیں کہ ان کے آگے ہم کسی بھی کلمہ گو کو کافر، مشرک، بدعتی، فاسق، فاجر، جہنمی، ایجنٹ وغیرہ قرار دے سکتے ہیں؟
کیا کسی فرد، جماعت، مرشد یا عالم یا مفتی کو یہ حق حاصل ہے کہ اختلاف الرائے رکھنے والے کے ایمان کی پیمائش کرے اور اس کے خلاف فیصلہ سنائے؟ کیا ایسے فیصلے دینے کی کوئی دلیل قرآن، حدیث یا سیرت مبارکہ یا سیرتِ صحابہ ؓسے مل سکتی ہے؟
ائمہ کی تقلید کرنے والوں کو کافر قرار دینا یا درگاہوں پر حاضری دینے والے مسلمانوں کی تکفیر کرنے کو جائز کر لیا گیا ہے۔ اور ان کے مخالف طبقے نے اسلاف اور ائمہ کی شرح و اقوال کو نہ ماننے والوں کی تکفیر کو جائز کر لیا ہے۔ عجیب لطیفہ یہ ہے کہ یہ سارے اہل تکفیر بھرے مجمع میں انتہائی وسیع القلبی سے اتحادِ امت کی اہمیت پر تقریریں کرتے ہیں۔ لیکن جب اپنے مخصوص حلقہ احباب میں ہوتے ہیں تو دوسرے مسلکوں اور جماعتوں کا نہ صرف مذاق اڑاتے ہیں بلکہ ان کی تکفیر کرنے میں کوئی جھجھک محسوس نہیں کرتے۔ اگر ان تمام تکفیروں کا اعتبار کر لیا جائے تو روئے زمین پر آج گویا ایک بھی مسلمان باقی نہیں ہے۔ کیونکہ شیعوں کے مطابق تمام سنی داخلِ جہنم ہونے والے ہیں اور بریلویوں کے مطابق تمام اہل حدیث اسلام سے خارج ہیں، دیوبندیوں کے مطابق تمام بریلوی شرک و کفر کے مرتکب ہیں اور اہل حدیث کے نزدیک تمام شیعہ اور مقلدین کفر پر ہیں۔تو پھر آخر میں بچتا کون ہے؟
حیرت کی بات یہ ہے کہ طہارت کے ڈھیلے سے لے کر جہاد و قتال تک کے مسائل کا استنباط و استخراج کیا جاتا ہے۔ چند ایک ہم مسلک علماء کے ساتھ قیاس و اجماع سے بھی کام لیا جاتا ہے اور ایسے مسائل اخذ کرلئے جاتے ہیں جن کی بنیاد پر مسلک کھڑے ہیں۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ جب مسائل کے استنباط کے لیے کمزور، ضعیف یا غیر معروف احادیث پر بھی اجماع ہو جاتا ہے تو پھر ان معروف آیات و احادیث پر جو اوپر بیان کی گئی ہیں مسلکوں اور فرقوں کے اصول کیوں قائم نہیں ہوتے؟جیسے مسلمانوں کے حقوق،کسی مسلمان پر لعنت بھیجنے یا اسکو قتل کرنے وغیرہ کے بارے میں جو احکامات آئے ہیں یا جیسے حجۃ الوداع کا حکم نامہ ہے۔۔۔ یہ احکامات تمام مسالک کے اصولِ فقہ میں سب سے اولین اور نمایاں مقام پر کیوں کر جگہ نہیں پا سکے ہیں؟
خطبہ حجۃ الوداع کا تیسرا اہم نکتہ: شیطان کی عبادت جاری رہے گی مگر کس طرح؟؟
الا ان الشیطان قد ایس من ان یعبد فی بلادکم ھذہ ولکن ستکون لہ طاعۃ فی ماتحقرون من اعمالکم فیسرضی بہ و فی التحریش بینھم: شیطان اس بات سے مایوس ہو چکا ہے کہ کبھی اس کی عبادت کی جائے گی لیکن دو باتوں میں دھوکہ دے گا، ایک یہ کہ وہ اپنے چھوٹے چھوٹے کام جن کو تم حقیر سمجھتے ہو وہ تم سے کروا لے گااور اس پر خوش رہے گا (ترمذی ۲۰۵۸) اور وہ تم کو آپس میں ایک دوسرے سے لڑائے گا۔(مسند احمد۴۹۹۹۱)
کسی کے کلمہ پڑھ لینے کے بعد شیطان مایوس ہو جاتا ہے کہ اب اسکی عبادت کی جائیگی۔ لیکن شیطان اپنی عبادت کروانے کے دوسرے طریقے ڈھونڈ لے گا۔ ایسا نہیں ہوگا کہ لوگ نماز، روزہ یا زکوٰۃ چھوڑ دیں گے۔ ان سب کی برابر ادائیگی ہوگی، حج اور عمرے بھی ادا کیے جائیں گے بلکہ بار بار ادا ہوں گے۔ مسجدیں بھری رہیں گی۔ شب برات اور شب قدر میں مسجدوں کو بقعِ نور بنا دیا جائے گا۔ مدرسوں، حفاظ اور قراء کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہوتا جائے گا، ساتھ ہی ان پر انفاق کرنے والوں کی تعداد بھی بڑھتی جائے گی۔ جماعتیں دعوت اور اصلاحِ معاشرہ کے اجتماعات زیادہ سے زیادہ کریں گی۔ اگر کوئی توہین رسالت کا ارتکاب کرے تو لوگ سر پر کفن باندھ کر گھروں سے نکل پڑیں گے۔ گنپتی اور بونال کے جلوسوں کو مرعوب کرنے کے لیے میلاد النبی، صندل اور پنکھوں کے جلوس نظروں کو خیرہ کر دیں گے۔ جھنڈے، عَلَم، تازیانے، ماتم، محافلِ حمد و نعت، سلام، محفلِ قصیدہ بردہ شریف پہلے سے بھی زیادہ سجتے رہیں گے۔رفع یدین اور آمین بالجہر کی خوب تبلیغ ہوتی رہیگی۔ دینی کتب و رسائل کی اشاعت میں اضافہ ہوگا۔ ڈاڑھیوں، ٹوپیوں اور برقعوں کو لوگ سختی سے اپناتے جائیں گے۔ ہر شخص فیس بک، ایمیل گروپس، فورم اور ویب سائیٹس پر خوب سے خوب تر اسلامی معلومات پیش کرے گا۔ مگر۔۔۔ ان سب کے باوجود قوم کی اخلاقی، سیاسی، تعلیمی، سماجی اور معاشی حالت بد سے بدتر ہوتی جائے گی۔ کیوں؟
کیونکہ جیسا کہ خطبہ حجۃ الوداع میں پیشین گوئی کر دی گئی ہے کہ ہر شخص صرف ایک ایک غلط کام کو معمولی یا حقیر سمجھ کر اور "مجبوری یا مصلحت کی خاطر یا اکثریت کر رہی ہے یا خاندانی رواج کہہ کر اپنے لیے جائز کر لے گا۔ اور یہ سوچ کر اپنے آپ کو فریب دے لے گا کہ اگر میں ایک غلط کام کر رہا ہوں تو کیا ہوا باقی سارے نیک کام تو کر رہا ہوں۔
کسی نے جہیز اور اسراف سے پْر تقریبات کو "رواج” کہہ کر جائز کر لیا ہے اور باقی نماز روزہ وغیرہ سب ہی جاری و ساری ہیں۔ کوئی صاحب ان چیزوں کو حرام تو جانتے ہیں لیکن ان تقریبات میں شرکت کو "اخلاقی فریضہ” کہہ کر جائز کر لیتے ہیں۔ کسی صاحب کے نزدیک رشوت دینا بصورت مجبوری جائز ہے اس لیے وہ ایسی مجبوری کی صورتیں اسی طرح بار بار پیدا کرتے رہتے ہیں جس طرح کوئی خنزیر کے گوشت کھانے کو جائز کرنے کے لیے تین دن بھوکا رہے۔ اور کوئی صاحب رشوت کو ہدیہ کہہ کر اس لیے قبول کر لیتے ہیں کہ "ہم نہیں لیں گے تو کوئی اور لے لے گا”۔ کوئی صاحب، استطاعت رکھنے کے باوجود قرض واپس کرنا اہم نہیں سمجھتے اور ایسے ہی چند برے لوگوں کے تجربات کے سبب کوئی صاحب مستحق کو قرض دینے سے انکار کر دیتے ہیں۔
کسی کے بچوں کو مادری زبان اور عربی نہیں آتی اور وہ ڈھٹائی سے شرمندگی کا اظہار بھی کرتے ہیں مگر اسکول کی دیگر زبانوں کی تعلیم کو اردو اور عربی پر ترجیح دیتے ہیں۔ کوئی صاحب بیوی کی اجازت کے بغیر نہ اپنے ماں باپ سے ملتے ہیں اور نہ رشتے داروں کی مدد کرتے ہیں۔ کوئی صاحب گھر سے باہر والوں کے ساتھ انتہائی بااخلاق ہوتے ہیں لیکن اپنے اہل خانہ کے تئیں نہایت جہالت برتتے ہیں۔
کیا معاشرے میں ایک بھی ایسا شخص ہے جو یہ کہہ سکے کہ وہ "جھوٹ اور غیبت” سے پاک ہے؟ جھوٹ اور غیبت آکسیجن کی طرح ناگزیر ہے لیکن ہر شخص کا یہ خیال ہے کہ جس قسم کا جھوٹ وہ بولتا اور جو غیبت وہ کرتا ہے وہ تو ایک مجبوری ہے جسے اللہ تعالیٰ معاف کر دے گا لیکن جو دوسرے مرتکب ہو رہے ہیں وہ بالکل غلط ہے۔
ان تمام برائیوں کو آدمی چھوٹی اور حقیر سمجھ کر اس لیے اپناتا ہے کہ ” یہ تو سبھی کر رہے ہیں "۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ مسلمان اخلاقی اور سماجی طور پر غیر قوموں بلکہ مشرکوں سے کہیں مختلف نہیں ہیں۔
ذرا غور کیجیے کہ اگر ہر شخص اپنے مزاج اور مفاد کو بھانے والی ہر اس چھوٹی اور حقیر برائی کو، جو کہ خطبہ حجۃ الوداع کے کے حکم کے مطابق، رسول اللہ ﷺ کو پسند نہ ہو، ختم کر دے تو آج ایک ایسا مثالی معاشرہ وجود میں آ سکتا ہے جس کے قدموں کو دنیا کی ساری قومیں چومنے پر مجبور ہو جائیں گی۔