ودود ساجد
نریندر مودی ’این ڈی اے‘ کے ذریعہ تیسری بار وزارت عظمی کیلئے منتخب کرلئے جانے کے باوجود ہندوستان کے امن پسند عوام کی اکثریت سے ہتک آمیز شکست کھا گئے۔ یہ ہتک آمیزی اس وقت تک ان کا تعاقب کرتی رہے گی جب تک وہ حکومت میں رہیں گے۔۔۔
ان کی حکومت کب تک چلے گی نہیں معلوم لیکن شمال اور جنوب کے جن دو مختلف لیڈروں کے سہارے ان کی حکومت قائم ہوئی ہے ان دونوں کے معلوم نظریات بی جے پی یا آر ایس ایس کے مسموم نظریات سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔ دونوں‘ مختلف متنازعہ اشوز پر اپنی رائے کھلے طور پر نہ صرف ظاہر کرتے رہے ہیں بلکہ عملی طور پر اس کا مظاہرہ بھی کرتے رہے ہیں۔
نتائج بتاتے ہیں کہ بی جے پی کو ہندوستان کی نصف آبادی نے بھی قبول نہیں کیا ہے۔ یعنی آدھے سے زیادہ ہندوستان نے بی جے پی حکومت اور وزیر اعظم مودی کے طرز حکمرانی کو مسترد کردیا ہے۔ 2024 کےنتائج نے بہت سے نکات قائم کردئے ہیں لیکن سب سے زیادہ حیرت انگیز نکتہ یہ ہے کہ بی جے پی اس فیض آباد کی سیٹ بھی ہارگئی جہاں ایودھیا واقع ہے۔ ایودھیا وہ نگری ہے جہاں بابری مسجد کے مقام پر گزشتہ 22 جنوری کو ہی وزیر اعظم نے عالیشان رام مندر کا افتتاح کیا تھا۔۔ 2014 میں بی جے پی کو 282 اور اس کے حلیفوں کو 54 سیٹیں حاصل ہوئی تھیں۔ 2019 میں بی جے پی کی سیٹیں بڑھ کر 303 ہوگئیں جبکہ اس کے حلیفوں کی سیٹیں گھٹ کر 50 رہ گئیں۔۔
اب ان اعداد و شمار کی روشنی میں 2024 کا نتیجہ دیکھئے: بی جے پی کی 63 سیٹیں گھٹ گئیں اور اسے محض 240 سیٹیں حاصل ہوئیں۔ حکومت بنانے کیلئے 272 سیٹیں درکارہوتی ہیں۔ اس اعتبار سے بھی بی جے پی اپنے دم پر حکومت بنانے سے 32 سیٹیں پیچھے رہ گئی۔ تاہم اس کے حلیف 50 سے 52 پر پہنچ گئے۔ پچھلی دونوں مدت ہائے کار میں بی جے پی کو اس صورتحال کا سامنا کرنا نہیں پڑا تھا۔ اس کے پاس خود اپنی اتنی سیٹیں تھیں کہ وہ اپنے دم پر حکومت بناکر چلاسکتی تھی۔ لیکن اب وزیر اعظم کی کرسی میں سات آٹھ پائے لگے ہوئے ہیں۔ اور کوئی پایہ ایک دوسرے کے سائز کا نہیں ہے۔ یہاں تک کہ سامنے کے دو بڑے پائے بھی ایک سائز کے نہیں ہیں۔ حکمراں اتحاد میں بی جے پی کے بعد دو بڑی پارٹیوں‘ تیلگودیسم اور جنتادل(یو) کے پاس بالترتیب 16 اور 12سیٹیں ہیں۔ مہاراشٹر کے شوسینا (شندے گروپ) کے لیڈر ایک ناتھ شندے کے پاس سات سیٹیں ہیں۔ اس کے بعد پانچ پانچ اور دو دو اور ایک سیٹ والی پارٹیاں بھی ہیں۔ تیلگو دیسم اور جنتادل(یو) کے پاس مجموعی طور پر 28 سیٹیں ہیں۔ اگرکسی مرحلہ پر یہ دونوں پارٹیاں کسی وجہ سے الگ ہوجاتی ہیں تو حکومت گرجائے گی۔۔۔
ایک سوال یہ پیدا ہوسکتا ہے کہ جب پچھلی دونوں مدت ہائے کار میں بی جے پی کے پاس خود اتنی سیٹیں تھیں کہ وہ تنہا حکومت بناکر چلاسکتی تھی تو اس نے ایسا کیوں نہیں کیا اور کیوں اس نے اپنے حلیفوں کوساتھ رکھا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ بی جے پی نے نئے قانون بنانے اور مختلف قوانین میں ترمیم کا راستہ ہموار کرنےکیلئے انہیں ساتھ رکھا۔ تاہم وزیر اعظم نے ان حلیفوں کو کبھی اپنے برابر میں کھڑے ہونے نہیں دیا۔ لیکن جن لوگوں نے گزشتہ 5 جون کی وہ تصویر دیکھی ہے جس میں وزیر اعظم کے بائیں طرف تیلگو دیسم پارٹی کے صدر چندر بابو نائیڈو اور جنتا دل(یو) کے صدر نتیش کمار کھڑے ہیں انہیں حیرت ضرور ہوئی ہوگی۔۔۔
اس تصویر میں بی جے پی کے دوسرے تمام چھوٹے چھوٹے حلیف بھی کھڑے ہیں۔ ان میں پانچ سیٹوں والے چراغ پاسوان اور محض ایک سیٹ والے جیتن رام مانجھی بھی شامل ہیں۔ پچھلے دس سال میں وزیر اعظم کی ایسی کوئی تصویر نہیں دیکھی گئی جس میں اتنے کمزور حلیف بھی ان کے ساتھ کھڑے ہوں۔ یہی نہیں وزیر اعظم کے ساتھ خود بی جے پی کا بھی کوئی لیڈر کھڑا نہیں ہوسکتا تھا‘ یہاں تک کہ امت شاہ بھی نہیں۔ وہ ہر فریم میں تنہا نظر آتے تھے۔ اس کے علاوہ انہوں نے نہ اپنے قول سے اور نہ اپنے عمل سے کبھی ایسا ظاہر نہیں کیا کہ وہ اتحادی محاذ کی حکومت چلارہے ہیں۔ انہوں نے جب بھی کہا یہی کہا کہ یہ مودی کی گارنٹی ہے۔ بی جے پی نے ایک نعرہ پوری شدت کے ساتھ عام کیا کہ ’مودی ہے تو ممکن ہے‘۔ ایسے میں یہ امتیاز ہی کہیں کھوگیا کہ یہ این ڈی اے کی حکومت ہے۔ پورا ملک اسے بی جے پی بلکہ مودی حکومت کے ہی طور پر جانتا اور سمجھتا رہا۔ لہذا شکست کے جتنے بھی پہلوابھر کر آئے ہیں وہ سب وزیر اعظم مودی کے مرہون منت ہیں۔۔
جس روز نتائج آرہے تھے تو سب سے دلچسپ خبریں بنارس سے آرہی تھیں۔ گنتی کےابتدائی دو دور میں وزیر اعظم پیچھے چل رہے تھے۔ سیاسی حساب کتاب رکھنے والے ماہرین کو معلوم ہے کہ یہ کتنی شرمناک صورتحال تھی۔ 2014 میں وہ پونے چار لاکھ ووٹوں سے اور 2019 میں پونے پانچ لاکھ ووٹوں سے جیتے تھے۔ لیکن 2024 میں وہ فقط ڈیڑھ لاکھ ووٹوں سے کامیاب ہوسکے۔ کیا یہ ان کی روز افزوں مقبولیت کی دلیل ہے؟ ان سے زیادہ ووٹ توخود بی جے پی کے ہی 115 امیدواروں نے حاصل کئے۔ ان کا نمبر 116واں ہے۔
وہ اپنی انتخابی ریلیوں میں یہی کہتے رہے کہ کانگریس راہل گاندھی کی عمر سے بھی کم سیٹیں لا پائے گی۔ یعنی 55 سے بھی کم۔ لیکن کانگریس کو 99 سیٹیں حاصل ہوئیں۔ اس طرح ان کی وہ خواہش بھی مٹی میں مل گئی جس کے تحت وہ ہندوستان کو ’کانگریس مکت‘ یا کانگریس سے پاک ملک بنانا چاہتے تھے۔ کانگریس کی 99 سیٹیں ان کیلئے مسلسل سوہان روح کا سبب بنتی رہیں گی۔ پچھلے دس سالوں میں یہ کہہ کر لوک سبھا میں کانگریس کو ’کلیدی اپوزیشن‘ کا لازمی عہدہ نہیں دیا گیا کہ اس کے پاس پارلیمنٹ کی دس فیصد سیٹیں نہیں ہیں۔ یہ عمل سراسر غیر آئینی تھا لیکن اب کانگریس کو ’اپوزیشن لیڈر‘ کا عہدہ دینا پڑے گا۔ اب اس کے پاس پارلیمنٹ کی 16 فیصد سے بھی زیادہ سیٹیں ہیں۔ اب متعدد میٹنگوں میں وزیر اعظم کواپوزیشن لیڈر راہل گاندھی کے سامنے بیٹھنا ہوگا۔ بہت سے عہدوں کا انتخاب کرتے وقت اپوزیشن لیڈر کی رائے لینا ضروری ہوگا۔ اب چیف الیکشن کمشنر اور دوسرے الیکشن کمشنروں کا تقرر اپوزیشن لیڈرکے بغیر نہیں ہوسکے گا۔واضح رہے کہ اپوزیشن لیڈر کو بہت سی مراعات کے علاوہ کابینی وزیر کا رتبہ بھی حاصل ہوتا ہے۔۔۔
بی جے پی اور وزیر اعظم کی یہ فتح اس لئے بھی ہتک آمیز ہے کہ انہوں نے بڑے کروفر کے ساتھ ’چار سو پار‘ کا نعرہ لگایا تھا۔ کہا گیا کہ صرف بی جے پی کو ہی تین سو 70سیٹیں ملیں گی۔370 کا عدد دراصل جموں و کشمیر میں دفعہ 370 کے خاتمہ سے عبارت تھا۔ لیکن دفعہ370 کے خاتمہ کے عمل کو بھی ووٹروں نے مسترد کردیا۔ اس اعتبار سے عوام نے بی جے پی کو 130 نشستیں کم دیں۔۔ کئی شرپسند لیڈروں نے ووٹروں سے کھل کر کہا تھا کہ ہمیں آئین کو بدلنے کیلئے چار سو سیٹوں کی ضرورت ہے۔ بی جے پی یا وزیر اعظم نے ایسے کسی بھی لیڈر کو نہ روکا اور نہ ان کے بیان کی مذمت کی۔ لیکن جب کچھ حقیقت آشکارا ہونے لگی تو پھر تین سو پار کا نعرہ لگایا گیا۔ لیکن جب حتمی نتائج آئے تو پورا محاذ بھی تین سو تک نہ پہنچ سکا۔۔۔
یہ فتح اس لئے بھی ہتک آمیز ہے کہ فیض آباد میں بھی بی جے پی ہارگئی‘ یہی نہیں بلکہ ایودھیا خطہ کی 9 میں سے 5 سیٹوں پر بھی اسے کامیابی نہیں ملی۔ یعنی ایودھیا کے ووٹروں نے رام مندر کی تعمیر کا بھی کوئی جذباتی اثر قبول نہیں کیا۔ وہاں کے ووٹر رام مندر کے افتتاح کے محض تین مہینوں میں ہی ’وزیر اعظم کا یہ احسان‘ بھول گئے۔ بی جے پی نے اپنے ووٹروں کو تین طلاق کے قانون اور کامن سول کوڈ کی بھی یاد دلائی‘ وزیر داخلہ امت شاہ نے یہاں تک کہہ دیا کہ کامن سول کوڈ کو لاگو ہونے سے کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔ وزیر اعظم نے یوپی کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کےاس بلڈوزر کے قصیدے پڑھے جس نے درجنوں بے قصور لوگوں کے گھروں کو اجاڑ کر رکھ دیا۔ انہوں نے کہا کہ یوگی سے سیکھنا چاہئے کہ بلڈوزر کا استعمال کہاں کیا جاتا ہے۔ لیکن یوپی کے ہی ووٹروں نے بلڈوزر کے اس شرمناک اور غیر قانونی استعمال کو مسترد کردیا۔۔۔
یوپی کی 80 سیٹوں میں سے بی جے پی کو کل 33 سیٹیں ہی مل سکیں جبکہ سماجوادی پارٹی اور کانگریس نے مل کر 43 سیٹیں جیت لیں۔ اس طرح اکھلیش اور راہل کی جوڑی نے بی جے پی کونہ صرف یہ کہ تنہا اکثریت حاصل کرنے سے روک دیا بلکہ آئین کی طرف بی جے پی کے بڑھتے ہوئے بلڈوزر کو بھی روک دیا۔ یہ تو سب کو یاد ہوگا کہ وزیر اعظم نے راجستھان کے بانسواڑہ کی ایک ریلی میں نام لے کر مسلمانوں کو درانداز اور زیادہ بچے پیدا کرنے والا بتا کر ان کی کتنی ہتک کی تھی۔ لیکن بی جے پی اس بانسواڑہ میں ہی کانگریس سےہارگئی۔ انہوں نے بار بار یہ بھی کہا کہ کانگریس ہندئوں کی ماں بہنوں کے منگل سوتر‘ ان کی بھینسیں اور ان کا ریزرویشن چھین کرمسلمانوں کو دیدے گی لیکن لوگوں نے ان سب مفروضوں کو بھی مسترد کردیا۔ انہوں نے سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کے ایک بیان کو توڑ مروڑ کر لوگوں کومسلمانوں کے تعلق سے گمراہ کرنے کی کوشش کی لیکن وہ کوشش بھی ناکام ہوگئی۔
2024 کے نتائج نے ان مغرور اور متکبر خواتین کو بھی سخت ہزیمت سے دوچار کیا جنہوں نے اس ملک کے مسلمانوں کو اٹھتے بیٹھتے سخت ذہنی کلفتوں میں مبتلا کیا۔ ان میں مودی کابینہ کی دو وزیر سادھوی نرنجن جیوتی اور اسمرتی ایرانی کا نام سب سے اوپر ہے۔ موخرالذکر تو امیٹھی میں راہل گاندھی کو مقابلہ کیلئے للکارتی رہیں لیکن کانگریس نے اپنے 40 سال پرانے ورکر کشوری لال کو ان کے مقابلہ پر کھڑا کرکے ان کی شکست کو اور ذلت آمیز بنا دیا۔ حیدرآباد کی مادھوی لتا اور مہاراشٹر کی نونیت رانا بھی انہی شکست خوردگان میں شامل ہیں۔ اول الذکر تو سینہ تان کر مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسدالدین اویسی کو شکست دینے کیلئے میدان میں اتری تھی‘ اس نے مسجدوں کی طرف علامتی طور پر تیر چلاکر مسلمانوں اور اسلام کے خلاف اپنی زہریلی فطرت کو عیاں کیا تھا۔ موخرالذکر نے بھی جوش میں آکر اویسی پر نشانہ لگاتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہمیں صرف 15سیکنڈ دیدو‘۔
واقعہ یہ ہے کہ وزیر اعظم کی کم ووٹوں سے جیت اور ان چاروں خواتین کی بھاری ووٹوں سےشکست کے سامنے پورے این ڈی اے کی کامیابی پھیکی پڑگئی ہے۔ یہ نتائج آسام کے شرپسند وزیر اعلی ہیمنت بسوا سرما کیلئے بھی ضرب کاری سے کم نہیں۔ انہوں نے انتخابات سے پہلے اور انتخابی مہم کے دوران کھلے طور پر اپنی زہریلی زبان کے خنجر سے مسلمانوں کوبہت ستایا تھا۔ انہوں نے آل انڈیا یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ کے مولانا بدرالدین اجمل کو بھی سخت لعن طعن کیا۔ مولانا بدرالدین اجمل شکست کھاگئے۔ لیکن دوسری طرف ان کی جگہ کانگریس کے رقیب الحسین تقریباً 11 لاکھ ووٹوں سے جیت گئے۔ سوچ کر دیکھئے کہ ایک طرف یوگی اور کاشی کے بنارس میں وزیر اعظم کو محض ڈیڑھ لاکھ ووٹوں سے سبقت ملتی ہے اور دوسری طرف ہیمنت بسوا سرما کے آسام (ڈھبری) میں رقیب الحسین کو 11لاکھ ووٹوں سے سبقت ملتی ہے۔ مسلمانوں کے خلاف یوپی سے آسام تک اور کنیا کماری سے کشمیر تک کتنی نفرت انگیز بیان بازی ہوئی‘ لیکن ووٹروں کی اکثریت نے سب کو حقارت کے ساتھ ٹھکرادیا۔۔۔
رقیب الحسین کا ذکر آیا ہے تو ان کے بارے میں مختصراً بتانا اہم ہوگا۔ وہ آسام میں نوگانواں کے رہنے والے ہیں‘ وہ پچھلے 25سال سے مسلسل رکن اسمبلی ہیں‘ ان کے والد نورالحسن بھی15سال رکن اسمبلی رہے‘ دونوں آسام حکومت میں وزیر بھی رہے‘ رقیب الحسین جمعیت علماء (مولانا ارشدمدنی) کے آسام کے نائب صدر ہیں‘ اس سے قبل ان کے والد بھی جمعیت علماء ہند آسام کے نائب صدر تھے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس مرتبہ رقیب الحسین کو کانگریس نے ان کے حلقہ سے تین سو کلومیٹر دور الیکشن لڑنے کیلئے بھیجا جہاں وہ کشتی کے ذریعہ مہم چلاتے ہوئے دیکھے گئے۔
رقیب الحسین کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ مسلمانوں کے معاملات میں نفع نقصان کی پروا کئے بغیر میدان میں نکل آتے ہیں۔ آسام میں اگر کوئی مسلمانوں کے خلاف وزیر اعلی ہیمنت بسوا سرما کی زہر افشانی کا مقابلہ کر رہا ہے تو وہ رقیب الحسین ہی ہیں۔ جبکہ مولانا بدرالدین اجمل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے کبھی پارلیمنٹ میں بھی شرپسندوں کے خلاف کوئی موثر آواز نہیں اٹھائی۔ بہرحال اس الیکشن میں مسلمانوں نے بھی سیاسی بصیرت کا ثبوت دیا اور انتہائی خاموشی سے ضروری فیصلہ کرکے شرپسندوں کا بڑھتا ہوا قد تراش کر رکھ دیا