شعیب رضا فاطمی
مولانا آزاد نہ جانے اس وقت کس موڈ میں رہے ہونگے جب انہوں نے یہ کہا تھا کہ "اگر دنیا مزید دس ہزار سال یا دس لاکھ سال بھی قائم رہے تو پھر بھی دو چیزیں ختم نہیں ہونگی ۔ایک تو ہندو قوم کی تنگ نظری ،اور دوسرے مسلمان قوم کی اپنے سچے رہنماؤں سے بدگمانی "
عام انتخاب کے نتائج بھی آ گئے اور اکثریت نہ ملنے کے باوجود نریندر مودی اپنے این ڈی اے کے ساتھیوں کے ساتھ سرکار بنانے کے لئے تیار ہیں ۔5جون کو دہلی میں نریندر مودی نے این ڈی اے کے اپنے حواریوں خاص طور پر بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار اور آندھرا پردیش کے وزیر اعلی چندرا بابو سمیت دیگر این ڈی اے کے رہنماؤں سے ایک ایسے مسودے پر دستخط کرا لیا گیا جس میں یہ اعلان تھا کہ این ڈی اے کے تمام لیڈران نریندر مودی کو این ڈی اے کا لیڈر تسلیم کرتے ہیں ۔
یہ سب نہایت سرعت سے کیا گیا تاکہ صدر معظم کو جلد از جلد وہ فہرست دے دی جائے جس میں 272سے زیادہ ممبران پارلیامنٹ کے نام ہوں ۔نریندر مودی کو اس سلسلے میں اتنی جلدی تھی کہ انہوں نے خود بی جے پی کے ممبران پارلیامنٹ کی میٹنگ بلانے سے پہلے ہی این ڈی اے کی میٹنگ بلا لی ۔اور خود این ڈی اے کے لیڈران کو اس مسودے پر دستخط کرنے کی اتنی جلدی تھی کہ انہوں نے نریندر مودی سے یہ پوچھنے کی زحمت بھی نہیں کی کہ کیا آپ کی پارٹی نے اپنا لیڈر آپ کو چن لیا ہے ؟
دوسری طرف ایک دہلی میں ایک دوسری میٹنگ کانگریس صدر کے گھر پر بھی ہوئی جس میں انڈیا الائنس کے قومی لیڈران شریک ہوئے اور تازہ صورت حال پر تبصرہ کرنے کے بعد یہ طئے کیا گیا کہ فی الوقت انڈیا اتحاد کے لئے سرکار بنانے کی بھاگ دوڑ میں شامل ہونے کی جگہ اپوزیشن کی کرسی پر بیٹھنا زیادہ مناسب ہوگا ۔جب تک کوئی ایسی صورت حال نہ پیدا ہوجائے جس میں اس کا سرکار بنانے کی کوشش ناگزیر نہ ہو جائے ۔
حالانکہ انڈیا الائنس کے دو حلیف شیو سینا اور ترنمول کانگریس کے نمائندوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے سرکار بنانے کے لئے تگ ودو کرنے کا مشورہ ضرور دیا لیکن انڈیا اتحاد کی دو بڑی پارٹی کانگریس اور سماج وادی پارٹی کے لیڈران نے اس کوشش کو اقتدار کے حصول کی ناجائز کوشش بتاتے ہوئے یہ کہا کہ ہم نے عوام کے سامنے جب یہ وعدہ کیا ہے کہ ہمارا اتحاد ملک میں با اصول سیاسی روایت کو از سر نو بحال کریگا تو پھر ہم کو جو مینڈٹ ملا ہے وہ یہی ہے کہ ہم اپوزیشن کا کردار ادا کریں سو ہمیں وہی کرنا چاہئے۔اس میٹنگ میں کانگریس کے صدر نے ایک نہایت عالمانہ اعلان ضرور کیا وہ یہ کہ انہوں نے ملک کی تمام سیاسی پارٹیوں کے لئے انڈیا الائنس کے دروازے اس شرط کے ساتھ کھول دئے ہیں کہ ان پارٹیوں کا ملک کے آئین کی تمہید پر اٹوٹ بھروسہ ہو ۔
کھڑگے جی بھی بھوسے کے ڈھیر میں سوئی تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔جو لوگ ابھی تک یہ زور زور سے چلا رہے تھے کہ نریندر مودی کے ساتھ کھڑے لوگوں کی بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو ڈرے سہمے ہوئے ہیں ،اور جن کو یہ خوف ہےکہ وہ اگر اس کے ساتھ نہیں رہے تو ان پر انکوائری بٹھا دی جائیگی اور ان کا جیل جانا طئے ہے ۔لیکن 4اور 5جون کے درمیان تو نریندر مودی کا وہ سحر ٹوٹ گیا اور عوام نے ان کو اتنا بے بس کر دیا کہ ان کی پارٹی بغیر کسی بیساکھی کے سرکار بنا ہی نہیں سکتی تھی ۔ایسے میں وہ ایماندار اور آئین کے پہریدار کمانداروں کو سانپ کیوں سونگھ گیا ؟انہیں آگے بڑھ کر ایک ایسا محاذ بنانا چاہئے تھا جو نریندر مودی اور امت شاہ کے بغیر سرکار تشکیل کرنے کی راہ ہموار کرے ۔جہاں عوام کے مسائل حل ہوں ،بیروزگاری پر لگام لگے ،نفرت کے ماحول کو ختم کرنے کی مہم چلائی جائے ،تعلیم اور صحت پر زیادہ سے زیادہ توجہ دی جائے ۔سرکاری اداروں کی خود مختاری انہیں واپس کی جائے ،عدلیہ آئین کی روشنی میں چلے اس پر کوئی سرکاری دباؤ نہ ہو ،ریاستوں کو اس کا حق بغیر کسی عصبیت کے دیا جائے اور مرکز ان کے ساتھ کوئی معاندانہ سلوک نہ کرے ۔لیکن ان اقدار کی واپسی کوئی نہیں چاہتا ۔یہی وجہ ہے کہ دس سال تک پانی پی پی کر نریندر موفی کو گالی دینے والے لوگ ،انہیں آئین مخالف تانا شاہ کہنے والے لوگ ،مودی کے ہاتھ سے اقتدار کی باگ ڈور چھیننے کے لئے محاذ بنانے والے لوگ مودی کے حواری بن کر کھڑے ہو گئے اور ان کو تیسری بار حلف دلوانے کی سرگرمی میں مصروف ہیں ۔
کانگریس اور سماج وادی پارٹی کا یہ فیصلہ بہت اہم ہے کہ اس نے جوڑ توڑ کر کے اقتدار حاصل کر نے سے بہتر یہ سمجھا کہ مضبوط اپوزیشن کا رول ادا کرے ۔اس طرح عوام کے سامنے بہت سارے ایسے بھیڑ نما بھیڑیوں کا چہرہ بھی بے نقاب ہو جائے گا جو سیکولرزم ،آئین ہند اور امبیڈکر کے نام پر ملک کے سیکولر عوام کو دھوکہ دینے کا کام کرتے رہے ہیں ۔اس انتخاب میں بھی مسلمانوں نے اپنے سچے رہنماؤں کی معاونت نہ کی اور خالی ہاتھ ہی رہے ۔ہنفو قوم کی تنگ نظری تو ظاہر ہے کہ آج اتر پردیش میں اکھلیش یادو ، بہار میں نتیش کمار اور بنگال میں ممتا بنرجی کا جو پرچم لہرا رہا ہے اس کی وجہ مسلمان ووٹرس ہی ہیں لیکن کیا ابھی تک کہیں سے کسی بھی لیڈر کی زبان سے اس کا اعتراف کیا گیا ؟جبکہ اپنی شکست کا ٹھیکرہ مایا وتی نے مسلمانوں کے سر پر ضرور پھوڑ دیا ۔اور یہ دھمکی بھی دی کہ آئنفہ مسلمانوں کو بی ایس پی کا ٹکٹ نہیں دیا جائے گا ۔