الیکشن کمیشن کے ووٹنگ ریکارڈ کی روشنی میں
سمیع اللہ خان
سوشل میڈیا پر بیٹھ کر بعض لوگ سیاسیات پر ایسے تبصرے اور دعوے کرنے لگتے ہیں جس سے ہزار بار یہی ثابت ہوتا ہے کہ ان کی معلومات کے ذرائع بس یوٹیوب اور ہوا ہوائی ہیں ، حقائق کو حاصل کرنا یا تھوڑی محنت سے زمینی سیاست کو سمجھنا ان کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے ، اس لیے بار بار ایسی اٹکلیں پیش کرتے ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے اور نہ ہی اس مسئلے کی مکمل معلومات فراہم کرتے ہیں کہ کم از کم پڑھنے والے درست نوعیت سے ہی واقفیت حاصل کرسکیں ،
اتر پردیش الیکشن کے وقت یہ ہنگامہ اسدالدین اویسی کے خلاف کیا گیا تھا کہ وہ ووٹ کاٹ رہے ہیں اور ان کے ووٹ کاٹنے کی وجہ سے سماج وادی پارٹی ہار گئی اور بھاجپا جیت گئی، پھر بعد میں ، میں نے حتمی نتائج کے تفصیلات کا تجزیہ پیش کیا تھا جس کی روشنی میں یہ ثابت ہوتا تھا کہ اس دعوے کی کوئی حقیقت نہیں ہے ۔
میرا یہ کہنا ہےکہ اگر آپ کوئی دعویٰ عوام کے درمیان پیش کرتے ہیں تو کیا بس سنی سنائی کو قابلِ تحریر سمجھ لیتے ہیں یا اس پر زمینی ریسرچ بھی کرتے ہیں، سوشل میڈیا کے اردو حلقے میں افواہیں تحریروں کی صورت میں گردش کرتی ہیں ۔
اب یہ جانیے کہ پرکاش امبیڈکر نے کہاں کہاں امیدوار کھڑے کیے تھے اور ان کی کیا صورتحال رہی ۔ میں اعدادوشمار کی روشنی میں حقائق رکھ دیتا ہوں تاکہ آپ خود ہی فیصلہ کرسکیں:
احمدنگر ،نڈوری، لاتور، ماڑھا، پربھنی، وردھا، گڈچرولی، ممبئی نارتھ سنٹرل، ممبئی نارتھ ایسٹ، ممبئی ساؤتھ، ممبئی ساؤتھ سنٹرل، ہنگولی، ناندیڑ، نندوبار، ناسک، رامٹیک، شرڈی، شیرور، عثمان آباد اور جالنہ
ان تمام سیٹوں پر ونچت بہوجن آگھاڑی کے امیدوار کھڑے تھے لیکن یہاں پر انڈیا۔الائنس کے امیدوار جیت گئے،
اگلی بات یہ سمجھ لیجیے کہ جو یہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ صاحب پرکاش امبیڈکر ایک بھی امیدوار جتا کر نہیں لا سکے وہ بھی انتہائی ناواقفیت پر مبنی ہوا ہوائی ہے،
خود شرد پوار جیسے قدآور سیاستدان کی بیٹی سپریا سلے باری متی سے جیتی ہیں اور پرکاش امبیڈکر سے حمایت لےکر جیتی ہیں ، پرکاش امبیڈکر نے یہاں سپریا سلے کو حمایت دےکر اپنے بندے کو واپس بلا لیا ، سپریا سلے نے اس بات کا اعتراف تمام الیکشن ریلی میں کیا ،
سانگلی جیسی اہم ترین سیٹ پر ونچت بہوجن نے وشال پاٹل کو سپورٹ کیا اور اس کے لیے پرکاش امبیڈکر نے ریلیاں کیں اور وہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے قدآور لیڈر سنجے پاٹل کو ہرا کر جیت گیا۔
سولاپور میں ونچت بہوجن کے امیدوار راہل گائکواڈ نے اپنی امیدواری واپس لے لی جس کے بعد کانگریس کی پرنیتی شندے چوہتر ہزار ووٹوں سے جیت گئیں۔
کولہاپور میں بھی پرکاش امبیڈکر نے چھترپتی شاہو کی حمایت میں کی۔
یہ سب پارلیمنٹ میں ہر حال میں ونچت بہوجن آگھاڑی پرکاش امبیڈکر کی طرف سے بھی نمائندگی کریں گے ۔
ناگپور میں بھی پرکاش امبیڈکر نے انڈیا الائنس کی حمایت کی ۔
اب آگے آپ ذرا انڈیا الائنس جن سیٹوں پر ہاری ہے ان کا اعداد و شمار کی روشنی میں جائزہ لے لیجئے:
ہتھ کنگلے میں انڈیا الائنس کے امیدوار ستیہ جیت باٹل ہار گئے یہاں پر سوابھیمانی پکش کے راجیو شٹی نے ایک لاکھ اسی ہزار ووٹ لے لیے وہیں بہوجن اگاڑی کو چالیس ہزار ووٹ ملے، تو یہاں ووٹ کون لے گیا؟
جلگاؤں میں انڈیا الائنس کے امیدوار کرن پاٹل بھاجپا کی اسمتا واگھ سے دو لاکھ اکاون ہزار ووٹوں سے ہارے جبکہ یہاں پر ونچت بہوجن کے امیدوار کو صرف بیس ہزار ووٹ ملے، اگر یہ بیس ہزار بھی کرن پاٹل کو مل جاتے تو کیا ہوتا؟
کلیان میں انڈیا الائنس کی امیدوار ویشالی دریکر شیوسینا شندے کے امیدوار شری کانت شندے سے 2 لاکھ سے زائد ووٹوں سے ہار گئیں وہیں ونچت بہوجن کے امیدوار شہاب الدین شیخ کو صرف اٹھارہ ہزار ووٹ ملے۔
مَول میں انڈیا الائنس کے امیدوار سنجوگ بھیکو شیوسینا شندے کے امیدوار شری رنگ چندو سے 97 ہزار ووٹوں سے ہار گئے جبکہ یہاں ونچت بہوجن کے امیدوار کو 27 ہزار ووٹ ملے۔
ممبئی نارتھ میں کانگریس کے امیدوار بھوشن پاٹل بھاجپا کے امیدوار پیوش گویل سے 357000 سے ہارے ہیں جبکہ یہاں ونچت بہوجن کے امیدوار کو صرف چھ ہزار ووٹ ملے۔
ممبئی نارتھ ویسٹ میں انڈیا الائنس کا امیدوار امول کریتر جیت گیا تھا جس کے بعد کلیکٹر آفس میں بھاجپا والوں نے دھمال مچایا، انڈیا الائنس والے اپنی جیت کا دفاع نہیں کرسکے جس کے بعد صرف 48 ووٹوں سے شندے کے امیدوار کو جیت دے دی گئی۔
پالگھر میں انڈیا الائنس کی امیدوار بھارتی کمدی بھاجپا کے امیدوار ہیمنت وشنو سے ایک لاکھ 83 ہزار ووٹوں سے ہاری، یہاں ایک دوسری پارٹی بہوجن وکاس گاڑھی نامی کھڑی ہوئی تھی اور اس نے دو لاکھ 54 ہزار ووٹ لے لیے، جبکہ ونچت بہوجن کو یہاں صرف دس ہزار ووٹ ملے۔
پونہ میں کانگریس کے امیدوار رویندر ہیمراج بھاجپا کے امیدوار سے ایک لاکھ چوبیس ہزار ووٹوں سے ہار گئے یہاں پر ونچت بہوجن کے امیدوار کو صرف بتیس ہزار ووٹ ملے ۔
راے گڑھ میں انڈیا الائنس کے امیدوار اننت گیتے بھاجپا الائنس امیدوار سنیل تٹکرے سے 83 ہزار ووٹوں سے ہارے اور یہاں پر ونچت کے امیدوار کو صرف انیس ہزار ووٹ ملا ہے.
راویر میں انڈیا الائنس کے امیدوار دیا رام پاٹل بھاجپا کی امیدوار رکشا کھڑسے سے پونے تین لاکھ ووٹوں سے ہار گئے یہاں پر ونچت کے امیدوار کو انسٹھ ہزار ووٹ ملے۔
اب رہ جاتی ہے بات کہ آکولہ اور اورنگ آباد کی تو یہ دونوں امبیڈکر وادیوں کے بڑے قلعے ہیں یہاں تو وہ لڑیں گے ہی، آپ کو کم از کم یہ معلوم ہونا چاہیے کہ امتیاز جلیل اورنگ آباد سے اکیلے جیت کر نہیں آپائے تھے نہ کبھی آسکتے تھے، ونچت کے ساتھ انہوں نے اتحاد کیا تھا پھر جیتے تھے پرکاش امبیڈکر کے ووٹ بینک نے انہیں جیت دلائی تھی، پھر جب اتحاد ٹوٹ گیا تو پرکاش امبیڈکر اپنا امیدوار اتاریں گے ہی، امتیاز جلیل سے اورنگ آباد کے لوگوں کی ناراضگی بہت بڑی وجہ رہی اس دوران ہم تین مرتبہ اورنگ آباد گئے تھے اچھے خاصے مخلص مسلمانوں نے امتیاز جلیل سے بیزاری بلکہ نفرت کا اظہار کیا تھا حالانکہ میں نے خود امتیاز جلیل کےحق میں اپیل کی تھی، خیر آپکو ایک دلچسپ زمینی حقیقت بتاتا ہوں ، ہندوستان کی تاریخ میں کانگریس نے بھاجپا کے ساتھ اور بھاجپا نے کانگریس کے ساتھ اتحاد صرف آکولہ میں کیا تھا تاکہ پرکاش امبیڈکر کو کارپوریشن پر حکمرانی کرنے سے دور رکھا جائے، اس امبیڈکر کو شکست دینے کے لیے بھاجپا اور کانگریس سعادت مند بیٹے کی طرح دم ہلاتے ہیں یہ زمینی حقیقت ہے ۔
اور اس امبیڈکر نے ہمیشہ نظریاتی بنیادوں پر زمینی نیٹورک کے ساتھ ہندوتوا اور آر ایس ایس کو کمزور کیا ہے ، اس آدمی کے ماننے والے وہ واحد بھیڑ ہیں جو گزشتہ دس سالوں میں جابجا ہندوتوا بھیڑ کے مقابلے میں مسلمانوں کی مدد کرتے رہے، خود ہمارا مشاہدہ ہے کہ ہندوتوا بھیڑ پرکاش امبیڈکر کی ٹیم کے سامنے زمینی لڑائی میں کبھی ٹک نہیں پائی ۔
ان اعداد و شمار کو پڑھنے کے بعد اب آپ مجھے بتائیے کہ یہ کہنا کس قدر امانت داری یا سچائی کے زمرے میں آتا ہے کہ ونچت بہوجن آگھاڑی نے سیکولروں کے ووٹ کھا لیے اس لیے سیکولروں کی سیٹیں کم ہوگئیں ، یہ دراصل بہانے ہیں اور ان بہانوں میں سچائی کے نام پر کچھ بھی نہیں ہے۔ اگر آپ سیاسی تجزیہ کررہے ہیں اور اس میں کسی پر کوئی الزام دھرنا چاہتے ہیں تو کیا آپ کم از کم یہ بھی نہیں دیکھتے کہ وہ الزام سچ بھی ہے یا جھوٹ؟
اور اگر ان بہانوں کا اصولی پوسٹ مارٹم کیا جائے تو یہ بالکل غیر معقول بات ہے کہ کانگریس اور بھاجپا کے علاوہ کوئی بھی الیکشن ہی نہ لڑے، اور لڑنا ہو تو کانگریس کو اپنا باپ مانے ، اسی بات کا جواب پرکاش امبیڈکر نے ایک جگہ دیتے ہوئے غالباً بی۔بی۔سی کے صحافی کو پھٹکارا تھا کہ ” کیا یہ تمہارے باپ کی جاگیر ہے جو ہمیں کہتے ہو کہ یا تو کانگریسی برہمنوں کو اپنا لیڈر مانو یا تو الیکشن مت لڑو، ارے یہ آئین میرے دادا کا دیا ہوا ہے اور یہ جمہوریت ہے جس کی مرضی جیسے چاہے سیاسی میدان میں حصہ لے، کانگریس کو اگر ہمیں ساتھ لینا ہے تو برابر کی عزت دے، ہمیں معلوم ہے کہ کانگریس کے ساتھ جاتے ہی پارلیمنٹ کی سیٹ یقینی ہو جائے گی لیکن ہم اپنے سوابھیمان اور سدھانتوں پر سمجھوتہ کرکے پارلیمنٹ کی سیٹ نہیں چاہتے ہندوتوا اور سنگھی برہمنوں کے خلاف عوامی تحریک چلاتے رہیں گے اور ایک دن خود کے دم پر جیت کر جائیں گے بلکہ ہم خود سرکار بھی بنائیں گے "
نفرت کے وجودہ ماحول میں اور ہندوستانی سیاست میں مسلمانوں کی زوال پذیر صورتحال میں ہر دانشور مسلمان یہ کہتا ہے کہ کسی نہ کسی غیرمسلم سے اتحاد ضروری ہے تو اب کیا وہ غیرمسلم بھی کچھ مخصوص برہمن ہوں گے اور کچھ مخصوص مسلمانوں کی پسند کے ہوں گے؟ ہم اگر کسی کو درست سمجھیں اس کے ریکارڈ کی روشنی میں کہ اس نے ظلم اور ہندوتوا کی لڑائی کےخلاف ہمارا ساتھ دیا ہے، اس کا نظریہ ہندوستان میں مسلمانوں کے لیے اچھائی کاہے منوسمرتی اور سنگھ واد کے خلاف وہ زندگی بھر جدوجہد کررہا ہے تو کیا ہمیں اس کی حمایت کرنے کے لیے بھی کچھ کانگریسی مسلمانوں کی اجازت لینی پڑےگی؟. نہیں، اب ایسا نہیں چلےگا، ہم خود مختار ہیں اور اپنے حق خودارادیت کو ہم خوددار ملت کےساتھ مل کر حاصل کرنے جارہے ہیں۔
samiullahkhanofficial97@gmail.com