گذشتہ کل بروز اتوار تین مارچ کے شمارے میں ایک خبر ریاض آتش کی جانب سے شائع ہوئی جس میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ قرآن کی تقسیم کے کام کو زکریا کالونی میں موجود منافقوں کی جماعت نے روک دیا۔یہ نہایت ہی جہالت بھرا بیان تھا جو ریاض آتش کی طرف سے دیا گیا۔ اول تو یہ ہے کہ کسی بھی مسلمان کومنافق کہنے کا حق انہیں کس نے دیا؟ جبکہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں بھی منافقین کی جماعت کو صرف رسول اللہ ﷺ ہی جانتے تھے یا وہ لوگ جانتے تھے جن کو آپ ﷺ نے بتادیا ہو کہ فلاں شخص منافق ہے۔ اور جب وحی کادروازہ بند ہوگیا تو اب کسی بھی شخص کو منافق کہنے کا حق کسی کو بھی نہیں ہے۔ اور اگر کوئی شخص کسی مسلمان کو منافق کہتاہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ دلوں کا حال جاننے کا دعویٰ کررہا ہے جو سراسر کفر کے مترادف ہے۔ اس لئے کہ نفاق ایک مخفی امر ہے جس کا فیصلہ صرف اللہ تعالیٰ ہی کرسکتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کے کے فیصلوں کا علم وحی کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے اور وحی کادروازہ بند ہوچکا ہے اسی لئے صحابۂ کرام کے زمانہ سے آج تک مسلمانوں کا متفقہ عقیدہ ہے کہ نفاق ایک مخفی چیز ہے، جس کے بارے میں بالیقین فیصلہ کرنے کا کسی کو حق نہیں، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے منقول ہے کہ نفاق کا فیصلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کے ساتھ خاص تھا، اب یا تو مؤمن ہے یا کافر، لہٰذا کسی مسلمان کو متعینہ طور پر منافق کہنا جائز نہیں ہے، پھر بھلا کس اختیار سے مذکورہ شخص نے زکریا کالونی کے مسلمانوں کو منافق کالقب دیا یہ وضاحت طلب امرہے اور اگر واقعی میں اس کادعویٰ یقین کی حد تک پہنچتاہے تو اسے اپنے ایمان کی فکر کرنی چاہئے۔دوسری بات یہ ہے کہ زکریا کالونی میں قرآن پاک کااردو، ہندی اور انگریزی ترجمہ تقسیم کرنے کا جوانہوں نے پروگرام بنایا اس میں مسجد کے امام کے بیان کے مطابق انہوں نے امام صاحب سے فون کرکے اطلاع ضرور دی تھی لیکن ساتھ ہی یہ بات بھی ہوئی تھی کہ بارہ بجے نماز سے پہلے آکر آپ سے ملاقات کریں گے۔ اس لئے طے شدہ بات کے مطابق پہلے انہیں آکر امام مسجد سے ملاقات کرنا چاہئے تھااور جو ترجمہ وہ تقسیم کرنا چاہ رہے تھے اس کو دکھاکر اجازت لینے کی ضرورت تھی لیکن انہوں نے مسجد میں آکر امام سے ملاقات بھی نہیں کیا اور سیدھے کتاب تقسیم کرناشروع کردیا۔ آج کے اس پر فتن دور میں جب کہ طرح طرح کی سازشیں چل رہی ہیں یہ بات مخفی نہیں ہے کہ قرآن کریم میں بہت ساری تبدیلیاں کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور عام عوام کو گمراہ کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ ترجمہ مولانا وحید الدین خان کاہے جن کے بارے میں عام عوام کو معلوم نہیں ہے اس لئے اگر لوگوں نے تشویش کے باعث تقسیم کرنے سے منع کیا تو یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جس کی وجہ سے انہیں منافق کا لقب دے دیا جائے۔ یہ بات معلوم ہے کہ قیامت کی بہت ساری علامات میں سے ایک علامت یہ بھی ہے کہ جاہل لوگ علماء کی موجودگی میں فتویٰ صادر کریں گے یہ شاید اس کی زندہ مثال ہے بلکہ اس سے بھی سخت اس لئے کہ کسی مسلمان کو منافق کہہ دینا بہت سخت ہے جس کے لئے صرف کتابوں کا علم نہیں بلکہ بلافصل وحی کی ضرورت کی ہے جو مذکورہ شخص کے پاس نہیں ہے اور ہمارا گمان یہ بھی نہیں ہے کہ اس شخص نے ایسا کوئی دعویٰ کیا ہے۔یہ محض جہالت کی وجہ سے بغیر علم کے کہی گئی بات ہے۔ جب کہ جس شخص سے ان کا مباحثہ ہوا وہ ایک شرعی آدمی پابند صوم و صلوۃ اور عقیدہ کے پختہ مسلمان ہیں۔اس لئے اس بیان کی وجہ سے ریاض آتش کو معذرت کرنا چاہئے اور توبہ استغفار کرکے اپنے اس شدید الزام کو واپس لینا چاہئے۔