کوگٹو میڈیا کا قیام: قابل تحسین قدم

Spread the love

سیف الرحمٰن

موجودہ وقت میں ہمارے ملک کی عوام بالخصوص مسلم طبقہ ایک کشمکش اور پریشانی کا شکار ہے، وہ اس وقت معاشرتی سطح پہ کئی طرح کے مسائل سے دو چار ہیں غیر مستحکم مسلم قیادت کی وجہ سے وہ اکثریتی طبقے کی جانب سے درپیش مسائل کا اعلی حکمت عملی سے سامنا کرنے میں بھی ناکام ہے ، وہیں دوسری طرف آپسی اتحاد اور منصوبہ بندی کی کمی کی وجہ سے اُمید کی کوئی کرن بھی نظر نہیں آتی جو مستقبل کے تئیں ان کی پریشانیوں کے سدباب کر سکے، ان تمام چیلنجز کے درمیان ایک بڑا چیلنج اُنکی شناخت کا ہے جسے زعفرانی طاقتوں کے ساتھ ساتھ ملک کی مین اسٹریم میڈیا بہت غلط انداز میں پیش کر رہی ہے ،جس میں ایک طرف مُسلمانوں کے اسلاف کی تمام طرح کی خدمات کو مٹا دینے کی پیہم کوشش کی جا رہی ہے تو وہیں دوسری طرف مسلمانوں کو ولن اور ہندوستانی معاشرے میں کینسر کی طرح پیش کیا جا رہا ہے، مُسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہی دلتوں و آدی واسیوں ،عیسائیوں و سکھوں کے بھی شناخت سے کھلواڑ ہوتے صاف دیکھا جا رہا ہے، ایسے میں یہ ضروری تھا کہ جھوٹ اور فریب کی اس لہر کو سچائی سے مات دیا جائے اس کے لئے میڈیا سب سے بڑا ہتھیار ہو سکتا ہے ایسا متبادل میڈیا جو کہ ان اقوام کی شناخت کی حفاظت کو یقینی بنائے اور ان سب کو معاشرے کے باوقار اور برابر کے شہری کے طور پر پیش کرے ساتھ ہی ان اقوام کی عوام میں خود اعتمادی پیدا کرے و مثبت گائیڈنس فراہم کرے جس سے کہ یہ اقوام تعلیم،معاشیات سمیت ہر ایک محاذ پر ترقی کی راہ ہموار کرتے ہوئے معاشرے کے پہلی صف کا حصہ بن سکے! اس کے علاوہ ملک کی مین اسٹریم میڈیا مکمل طور پر سیاسی ہنگامہ آرائی کے نظر ہو چکی ہے جس میں عوام و ملک کے بنیادی مسائل مکمل طور پر ندارد نظر آتے ہیں ،جس میں تعلیم،معاشیات،صحت،سماجی بندھن،انسانی حقوق وغیرہ کی کوئی جگہ نظر نہیں آتی ہے،خاص طبقات و نظریات کی اجارہ داری والے میڈیا اِداروں میں خواتین کے مسائل و خواتین کی نمائندگی کا کوئی خیال نہیں دکھتا ہے! ایسے میں یہ بات کئی دہائیوں سے بحث کا موضوع رہا ہے کہ مسلمانوں کو آگے آکر ایسے میڈیا ہاؤس کا قیام کرنا چاہیے جو کہ اُنکے مسائل و اُنکی شناخت کو اہمیت دے اور اس کے لئے عملی میدان میں اترے، اور چونکہ مسلمانوں کا یہ مذہبی فریضہ ہے کہ وہ مظلوم طبقات کے حقوق کی لڑائی لڑے اور سماجی ترقی میں اپنا کردار نبھائے لہٰذا ایسے میڈیا ہاؤس کے ذریعے دلتوں،آدی واسیوں خواتین و دیگر مظلوم طبقات کی آواز اٹھائی جائے اور ملکی ترقی میں مثبت کردار ادا کیا جائے! لیکِن اس پہلو پہ مخیر افراد کی توجہ نہ ہونے اور کام کرنے والوں کے پاس وسائل کی کمی کی وجہ سے اس سمت میں کوئی قابل ذکر پیش رفت نہیں ہو سکی تھی، لیکِن الحمدللہ آج ڈیجیٹل میڈیا کے بڑھتے تسلط نے اس کو آسان کر دیا لہذٰا آج ہم دیکھتے ہیں کہ ہر مظلوم طبقہ کے نوجوان صحافی نہ صرف یہ کہ اس کے ذریعے سے آزاد و بےباک صحافت کر پا رہے ہیں بلکہ بہت حد تک مظلوموں کے مسائل و بیانیہ کو بحث میں لاکر کارپوریٹ زعفرانی میڈیا کا متبادل پیش کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں، جسمیں بڑی تعداد میں مسلم نوجوان بھی شامل ہیں، یہ نوجوان صحافی قومی سطح پر جگہ رکھنے والے میڈیا ادارے سے لیکر صوبائی و ضلعی سطح تک کے چھوٹے چھوٹے چینل بھی چلاتے نظر آرہے ہیں جس کے مثبت اثرات مرتب ہو رہے ہیں ،لیکن یہ کوششیں درپیش چیلنجز کے سامنے ناکافی ہیں لہذٰا کئی سال سے اس کا بہتر حل یہ سمجھاجارہا تھا کہ ایسا کوئی پلیٹ فارم بنے جو کہ ملک بھر کے ڈیجیٹل میڈیا اداروں کو کورڈینیٹ کرکے انہیں صحافتی اسکلز و صحافتی اصولوں کی تربیت دے اور باہمی مدد کا ایک ماحول بنائے جس سے کہ بہتر سے بہتر طریقے سے یہ اپنے فرائض ادا کر سکیں اور ساتھ ہی قانونی امداد کا بھی مضبوط نظام تشکیل دیا جائے جس سے کہ تمام طرح کے دباؤ سے آزاد ہوکر صحافتی فرائض انجام دینے کے مواقع ڈیجیٹل میڈیا کے صحافیوں کو بھی مل سکے صحافت کے مسائل میں سب سے بڑا چیلنج جو معاشی مسائل سے جڑا ہے اُسے لےکر بھی عوامی بیداری پیدا کی جائے،لہٰذا اس سمت میں کئی الگ الگ کوشیشیں الگ الگ افراد و تنظیموں کی طرف سے گزشتہ چند سالوں میں ہوئیں جو کہ پایہء تکمیل تک تو نہیں پہونچی لیکِن لوگوں کے ذہن کا رخ اس طرف ضرور موڑ دیا، جس کے اثر سے ہی گزشتہ دنوں ملک کی راجدھانی دہلی میں جمع ہوئے ملک بھر کے متبادل میڈیا اِداروں کے ذمّہ داران نے ایک جوائنٹ پلیٹ فارم بنانے کا فیصلہ لیا اور 02 جنوری کو اس کا باضابطہ اعلان کیا، اس جوائنٹ پلیٹ فارم کو کوگٹو میڈیا فاؤنڈیشن کا نام دیا گیا ہے اور مقصد یہ طے کیا گیا ہے کہ ملکی سطح سے لےکر ضلعی سطح تک کے میڈیا اِداروں و آزاد صحافیوں اور صحافت کے طلباء و طالبات کو جوڑ کر مسائل پر مبنی حقیقی بےباک صحافت کو زندہ کرنا ہے اور اس کیلئے صحافیوں کیلئے تربیتی ورک شاپس سے لےکر عوامی ڈسکشن تک کے پروگرامس مستقل منعقد کیا جائیگا اور بہترین تجربہ کار افراد پر مبنی میڈیا تھنک ٹینک و ایڈوائزری کونسل کے ذریعے بہترین گائیڈنس و قانونی مدد سب کےلئے یقینی بنانے کی کوشش کی جائیگی،ساتھ ہی معاشی مسائل کو لےکر عوامی بیداری پیدا کرتے ہوئے میڈیا اداروں کیلئے اس کے حل کو آسان بنانے پر توجہ دیا جائیگا
اس کوگٹو میڈیا فاؤنڈیشن کے تاسیسی ارکان میں ایسے 16 میڈیا ادارے شامل ہیں جو کہ قریب ڈیڑھ دہائی سے مظلوموں کے مسائل و انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے واقعات کو قومی اور ملکی سطح پر لانے میں کامیاب رہے ہیں ،جن میں مکتوب میڈیا،اسٹوری کارواں،مسلم مرر،ملت ٹائمس،کلیرین انڈیا،دی کوگنیٹ،ٹو سرکل،آبزرور پوسٹ،بصیرت آنلائن،ناؤس نیٹورک،حق میڈیا،ایشیاء ٹائمس،اِنصاف ٹائمس،جورنو مرر،خبر اڈہ،ملی ڈائجسٹ وغیرہ شامل ہیں ، اُن تمام اداروں کے ماضی کے خدمات و ان سے جڑے صحافیوں کے اخلاص کو سامنے رکھتے ہوئے ایک بہتر اُمید کوگٹو میڈیا فاؤنڈیشن سے کی جا سکتی ہے اور یقیناً وہ میڈیا ہاؤسز جو کہ بکھرے ہونے کے باوجود ملک میں نریٹو کی سطح پر سالوں سے بہتر اثر ڈال رہے ہیں تو اگر یہ سب متحد ہوکر اور اپنے ساتھ ملک بھر میں پھیلے سینکڑوں چھوٹے و بڑے نیوز پورٹلس/نیوز یوٹیوب چینلس کو جوڑ کر منصوبہ بندی کے ساتھ مستقل متحرک رہتے ہیں تو یقینا ایک صحتمند صحافت کی بہترین مثال و مضبوط بنیاد ملکی سطح پر قائم ہو سکتی ہے اور مسلم قوم جو کہ حقیقت میں سب کیلئے خیر کا ذریعہ ہے لیکن موجودہ نریٹو میں ولن بنا دی گئی ہے وہ اہل وطن کے سامنے ملک و سماج کی اہم ترین ضرورت بن کر سامنے آ سکتی ہے،دلتوں،خواتین و آدی واسیوں کو باوقار زندگی حاصل کرنے میں مدد مل سکتی ہے اور ملک کے حقیقی مسائل کے بحث میں آنے اور اس کے حل کے راستے نکلنے کی وجہ سے ملکی ترقی کے راستے بھی ہموار ہونگے اور جن مقاصد کے تحت دہائیوں سے ہم میڈیا کے قیام پر گفتگو کر رہے ہیں اور بارہا کوشیشیں بھی ہوئی اُس پر ایک مثبت و نتیجہ بخش کام ہوگا ،ساتھ بی ملک کے حقیقی مسائل موضوع بحث بننے سے ملک بھی ترقی کی طرف تیزی سے گامزن ہوگا! لہٰذا ضرورت ہے کہ ایسی کوشش کو سراہا جائے اور ان کا ہر طرح سے ساتھ دیا جائے تاکہ یہ کوشش کامیاب ہو اور آنے والے دنوں میں ہم با اعتماد،حوصلہ مند،مثبت فکر کی حامل،معتدل،ترقی یافتہ اور با وقار امت مسلمہ ہندیہ کو دیکھ سکیں

saifurbihari143@gmail.com
9540926856

Leave a Comment