(خدیجہ خاتون/ انصاف ٹائمس پٹنہ) یوپی کے شاملی میں تقریباً 4 بیگھہ میں پھیلے 250 سال پرانے خستہ حال ڈھانچے میں اذان دینے کے جُرم میں ہفتہ کے روز ایک شخص کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا جسے بہت سے لوگ مغل دور کی مسجد مانتے ہیں
شاملی کے ایس پی ابھیشیک نے کہا ملزم جس کی شناخت عمر قریشی کے نام سے ہوئی ہے، جلال آباد کا رہنے والا ہے۔ شکایت کے بعد اس کے خلاف آئی پی سی سیکشن 505 (2) اور آئی ٹی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ گوس گڑھ کے ایک گاؤں کے سربراہ کے نمائندے نیرج کمار کے ذریعے
ایک مقامی پولیس افسر نے بتایا کہ قریشی،20 کی دہائی کے اوائل میں جمعہ کو مسجدِ کی جگہ پر گئے اور نماز پڑھنے کی کوشش کی اس طرح 1940 کے برطانوی حکم کی خلاف ورزی کی۔ انہوں نے اس کی ویڈیو بھی بنائی اور سوشل میڈیا پر وائرل ہو گیا
1940کے حکم کے مطابق شاملی کی مسجد میں نماز کی اجازت نہیں ہے
پولیس اہلکار نے کہا کہ اگرچہ یہ ڈھانچہ جزوی طور پر کھنڈرات میں آج بھی موجود ہے لیکن اکثریتی برادری کا ایک حصہ اسے منہر راجوں سے جوڑتا ہے۔ دوسروں کا دعویٰ ہے کہ یہ ایک مسجد ہے۔
بھانو پرتاپ سنگھ، منہر کھیڑا فورٹ کلیان سمیتی کے سکریٹری، ایک سماجی گروپ نے TOI کو بتایا یہ خطہ 1350 سے منہار قلعہ کا حصہ رہا ہے جہاں کبھی منہر کھیڑا کے ہندو بادشاہوں نے حکومت کی تھی۔ بعد میں مغلوں نے اس پر قبضہ کر لیا۔ نجیب الدولہ کے زیر اثر علاقہ۔ اسے پھر مسجد میں تبدیل کر دیا گیا لیکن آج بھی یہاں کوئی مسلمان خاندان نہیں رہتا ہے
بھانو پرتاپ نے دعویٰ کیا کہ برطانوی راج کے دوران اس مقام پر نماز دوبارہ شروع کرنے پر جھگڑا ہوا تھا جس سے کشیدگی پیدا ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ 1940 میں ایک پنچایت ہوئی جس میں اس وقت کے ڈی ایم اور جسمور ریاست کے مہاراجہ نے شرکت کی تھی جس کے بعد انگریزوں کی طرف سے ایک آرڈر پاس کیا گیا تھا
برطانوی حکم کے مطابق اس ڈھانچے کو ہندوؤں کے ذریعہ مسمار نہ کیا جائے اور مسلمانوں کو اس جگہ پر نماز ادا کرنے سے گریز کرنا چاہئے یہ اب بھی برقرار ہے. مقامی لوگوں نے بتایا کہ غلام قادر مغل دور میں یہاں حکومت کرتے تھے۔ قادر نجیب الدولہ کے پوتے تھے جنہوں نے نجیب آباد قائم کیا تھا