کیا ہندوستان کے مسلم نوجوانوں اور خاص طور پر شمالی ہندوستان کی مسلم بستیوں میں رہنے والے نوجوانوں کو یہ معلوم ہے کہ گزشتہ 8 اکتوبر سے آج 31 دسمبر 2023 کی صبح تک کتنے فلسطینی مسلمان شہید ہوچکے ہیں؟
ذرائع ابلاغ کی فراوانی کے اس دور میں یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ انہیں اس سلسلہ میں کچھ معلوم نہیں ہوگا۔ پھر کیا وجہ ہے کہ اس کے باوجود مسلمانوں اور خاص طور پر مسلم نوجوانوں کا طرز زندگی اور طرز عمل کیوں نہیں بدلا؟
چاروں طرف سے آنے والی یہ اطلاعات بہت تکلیف دہ ہیں کہ سال رواں کے اختتام پر نئے سال کی آمد کا جشن منانے میں مسلم نوجوان بھی پیچھے نہیں رہتے۔ بعض مقامات پر تو وہ طوفان بدتمیزی برپا ہوتا ہے کہ جو دوسروں کے علاقے میں بھی نہ ہوتا ہو۔ عالمی سطح پر رونما ہونے والے احوال سے لاتعلقی کا عالم یہ ہے کہ بہت سے نوجوانوں کو یہ بھی علم نہیں کہ اس روئے زمین پر کوئی جگہ فلسطین کے نام سے بھی ہے اور وہاں آج کل بوڑھوں‘ بچوں‘ عورتوں‘ مردوں‘ نوجوانوں‘ نمازیوں اور ہسپتال میں پڑے مریضوں کا خون بڑی بے شرمی اور بے دردی کے ساتھ بہایا جارہا ہے۔ مسجدوں اور مکانوں کو منہدم کیا جارہا ہے۔ حتی کہ قبروں سے شہیدوں کی نعشوں کو نکال کر ان پر بمباری کی جارہی ہے۔
45-40 سال پہلے مختلف پروگراموں میں خطیبوں اور شاعروں کو سنتے تھے تو ان کا موضوع فلسطین ہوتا تھا۔ گھر میں بھی والدین ہر روز اخبارات کی خبریں پڑھ کر سنانے کے بعد فلسطین کے قضیہ پر کچھ نہ کچھ بتاتے تھے۔ کم عمری اور ناپختگی کے باوجود یہ تو اچھی طرح سمجھ میں آگیا تھا کہ اس روئے زمین پر ایک جگہ فلسطین ہے‘ وہاں مسلمانوں پر ظلم ہوتا ہے اورظم و زیادتی کی بنیاد پر بسایا جانے والا ایک ملک اسرائیل ہے جو مسلسل ظلم وبربریت کرتا رہتا ہے۔
کیفی اعظمی جیسے شاعر کو متعدد بار فلسطین پر اپنی مشہور نظم سناتے ہوئے دیکھا اور سنا۔ جب وہ اپنی نظم کا یہ حصہ سناتے تھے تو شعور نہ ہونے کے باوجود جسم وجاں میں لرزش آجاتی تھی:
اے صبا لوٹ کے کس شہر سے تو آتی ہے
تیری ہر لہر سے بارود کی بو آتی ہے
خوں کہاں بہتا ہے انسان کا پانی کی طرح
جس سے تو روز یہاں کرکے وضو آتی ہے
اردو کے تحفظ کی مختلف تحریکات میں علی سردار جعفری اور کیفی اعظمی جیسی شخصیات شریک ہوتی تھیں تو نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ہوتی تھی۔ ایسی تحریکات میں ایک طرف جہاں لسانی طور پر اردو کے فروغ اور بقاء پر بات ہوتی تھی وہیں نظریاتی طور پر فلسطین پر بھی بات ہوتی تھی۔ ایسی تحریکات میں نوجوان ہی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ اسلام اور عالم اسلام سے متعلق مختلف موضوعات پر تحریری اور تقریری مقابلے منعقد ہوتے تھے۔ مسلم بستیوں میں اصلاح معاشرہ کی مجلسیں منعقد ہوتی تھیں۔ لیکن آج یہ سب عنقا ہوگیا ہے اور اس کی جگہ مسلم نوجوانوں کی بے حسی‘ بے حیائی اور شور و ہنگامہ نے لے لی ہے۔
تازہ صورتحال اور زیر بحث موضوع سے متعلق ممبئی کے معروف بزرگ صحافی شکیل رشید کہتے ہیں کہ’’ہر مسلم محلے میں مسلم بچے اپنے اپنے طور پر نیا سال مناتے ہیں۔ اس معاملہ میں باندرہ‘ اندھیری‘ ملبار ہل اور دوسرے پوش محلوں کے مسلمان تو وہ تمام کام کرتے ہیں جو طوفان بدتمیزی کے دائرے میں آتے ہیں۔ گیٹ وے آف انڈیا پر مسلم نوجوانوں کی بڑی بھیڑ جمع ہوتی ہے‘ موٹر سائیکلیں خوب دوڑتی ہیں‘ صورتحال افسوس ناک ہے۔ فلسطین کے بارے میں مسلم نوجوان حساس ہیں‘ لیکن بہت کم ہیں جو اس قضیہ سے واقف ہیں۔ چند علماء اور دانشور ہیں جنہوں نے اس موضوع پر خطاب کیا‘ باقی بے حس ہیں۔‘‘
یوپی‘ بہار‘ کرناٹک‘ تامل ناڈو‘ تلنگانہ اور مغربی بنگال کے کئی احباب سے ملی جلی آراء موصول ہوئی ہیں۔ لیکن ایک نکتہ پر سب متفق ہیں کہ مسلم نوجوانوں کو قضیہ فلسطین کی درست معلومات نہیں ہیں۔ کم و بیش اس نکتہ پر بھی سبھی یک رائے ہیں کہ مساجد میں خطیبوں اور اماموں میں سے بھی بیشتر اس قضیہ کی تاریخ سے ناواقف ہیں اور وہ اپنے نمازیوں کو شاذ و نادر ہی درست صورتحال سے واقف کراپاتے ہیں۔
تامل ناڈو میں کچھ صورتحال بہتر ہے۔ وہاں کی راجدھانی چینئی سے منصور عالم عرفانی نے بتایا ہے کہ ’’یہاں سال نو کے جشن کیلئے طوفان بدتمیزی نہیں ہوتا۔ مسلم نوجوانوں کو فلسطین میں جاری جنگ اور خوں ریزی کی پوری واقفیت ہے‘ ظالم کے خلاف ریلیاں بھی نکلتی ہیں۔ نوجوانوں میں فلسطینیوں پر جارحیت کے خلاف ناراضگی بھی ہے۔ مساجد کے ائمہ اور جمعیت علماء تامل ناڈو جیسی جماعتیں مسلمانوں کو صحیح صورتحال سے آگاہ بھی کرتی رہتی ہیں۔ مسجدوں میں بھی کھل کر مائک پر دعائیں کی جاتی ہیں۔‘‘
کرناٹک میں بھی صورتحال قدرے بہتر ہے۔ بنگلور سے مولانا زین العابدین نے بتایا ہے کہ ’’یہاں کے مسلم نوجوان سال نو کے جشن جیسی خرافات میں شامل نہیں ہوتے۔ وہ فلسطین کے معاملات سے واقف ہونا چاہتے ہیں تاہم انہیں درست طور پر بتانے والا کوئی نہیں ہے۔ ائمہ وخطباء بھی پوری معلومات نہیں دے پاتے۔ ان کے اندر مطالعہ کا ذوق بالکل نہیں ہے۔ مذہبی پیشوائوں کو بھی معلوم نہیں ہے کہ اس طرح کی معلومات کا ماخذ کیا ہونا چاہئے۔ لہذا نوجوان یوٹیوب اور گوگل سے آدھی ادھوری ‘ غلط اور غیر معتبر معلومات حاصل کرتے ہیں۔ یہاں کے نوجوان حساس بھی ہیں اور مسئلہ کے تئیں ادراک بھی رکھتے ہیں۔ تاہم روزمرہ کے معاملات میں ان کی جو بےڈھنگی رفتار پہلے تھی وہ اب بھی ہے۔ فلسطین کی سنگین صورتحال نے ان کے اندر کوئی تبدیلی پیدا نہیں کی ہے۔‘‘
یہاں دہلی میں صورتحال انتہائی خراب ہے۔ مسلم بستیوں میں تو ایسا لگتا ہے کہ یا تو ابھی تک فلسطینیوں کے خاک وخون میں غلطاں ہونے کی خبریں نہیں پہنچیں یا پہنچ گئی ہیں توان بستیوں کے مکینوں کا ضمیر مرچکا ہے۔ وہی آدھی رات تک سڑکوں اور گلیوں میں آوارہ مویشیوں کی طرح گھومنا اور بلند آواز سے ایک دوسرے کو گالیوں سے نوازنا ۔ نہ نماز کی فکر اور نہ مسجدوں کے تقدس کا خیال۔ نہ عورتوں کا احترام اور نہ مریضوں کے تنگ ہونے کا خوف۔ راستوں کو اس طرح روک کر کھڑے ہوجاتے ہیں جیسے اب یہاں سے کوئی نہیں گزرے گا۔ ضابطوں کے پابند کار سواروں کو جو جسمانی اور ذہنی کوفت ہوتی ہے اس کا ذرہ برابر بھی احساس نہیں۔
دوکانوں اور ہوٹلوں کے آگے آدھی سڑک تک موٹر سائیکلوں کوآڑی ترچھی کھڑی کردینا اور یہاں سے وہاں تک جام لگ جانے کی صورت میں کھڑے ہوکر تماشہ دیکھتے رہنا۔ مسلم بستیوں کی بس یہی پہچان ہے۔ ان علاقوں کی مسجدوں میں جائیے تو نمازوں کے اوقات میں مسجدیں بھی بھری رہتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ بیشتر ان نوجوانوں کے والد اور سرپرست ہی نماز پڑھتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان بے ہنگم اور احساس سے عاری نوجوانوں کو ان کے والد اور سرپرست انہیں کیوں نہیں سمجھاتے ؟ یا وہ بھی احساس سے عاری ہیں ۔
سوال یہ بھی ہے کہ کیا ان علاقوں کی مسجدوں کے ائمہ و خطباء کو اس صورتحال سے سابقہ نہیں پڑتا؟ آخر وہ کیوں اللہ کے رسول کی وعیدیں انہیں نہیں سناتے؟ کیوں نہیں بتاتے کہ اللہ کے رسول نے عوامی راستہ روک کر کھڑے ہوجانے والوں پر اللہ کی‘ اس کے رسول کی اور پوری کائنات کی لعنت بھیجی ہے؟ مسلم بستیوں میں مسلم دوکانداروں کے احوال تو اور بھی خراب ہیں۔ بداخلاقی عروج پر ہے۔ جھوٹ بول کر زیادہ نفع حاصل کرنا اب ان کی پہچان بن گئی ہے۔ لہذا گنجائش رکھنے والے مہذب گھرانے کی عورتیں اب ان علاقوں کی بجائے غیر مسلم دوکانداروں کا رخ کرتی ہیں۔
ایک فلسطین ہی کیا خود یہاں بھی امتحانات اور افتاد کیا کم ہیں؟ مگر اس پر بھی مسلمان اور خاص طورپر ان کے نوجوان اپنا رویہ بدلنے کو تیار نہیں۔ یہ ہمارے ائمہ کرام اور خطباء عظام کیلئے ایک اچھا موقع ہے کہ وہ اپنے نمازیوں کو اور ان کے توسط سے نماز سے غافل ان کی اولادوں کو مختصراً ہی سہی‘ ضرور بتائیں کہ فلسطین کی تاریخ کیا ہے۔ انہیں بتائیں کہ اس سرزمین پر ہمارا قبلہ اول واقع ہے۔ وہاں مسجد اقصی ہے۔ وہیں سے ہمارے تاجدار مدینہ معراج کے سفر پر تشریف لے گئے تھے۔
انہیں بتائیں کہ آج سے 75-74 سال پہلے برطانیہ اور دوسروں کی سازش کے تحت اس سرزمین پر یہودیوں کا ایک نیا ملک اسرائیل بنادیا گیا تھا۔ انہیں بتائیں کہ اس غاصب ملک نے فلسطین کے سینہ کو چاک کرکے خود کو درمیان میں مستحکم کرلیا اور فلسطین کو حصوں بخروں میں بانٹ دیا۔ انہیں بتائیں کہ اہل فلسطین اس وقت دنیا کی وہ مظلوم ترین قوم ہیں جنہیں چاروں طرف سے گھیر کر ان پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا ہے۔ انہیں بتائیں کہ کس طرح پچھلے 17برسوں سے غزہ کے 23 لاکھ کی آبادی پر مشتمل فلسطین کے ایک حصہ کو چاروں طرف سے گھیر کر کھانے پینے کی اشیاء پر پہرہ بٹھا رکھا ہے۔ انہیں بتائیں کہ گزشتہ 8 اکتوبر سے آج تک غاصب اسرائیل کے حملوں میں 21 ہزار سے زیادہ بے قصور فلسطینی شہید اور 56 ہزار سے زیادہ زخمی ہوچکے ہیں۔ 13لاکھ سے زیادہ بے گھر ہوچکے ہیں۔
انہیں یہ بھی بتائیں کہ اسرائیل نے ظلم کی ہر وہ صورت برپا کی جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اس نے قبرستانوں میں بلڈوزر چلاکر نعشوں کو باہر نکالا اور پھر ان پر بھی بمباری کرڈالی۔ اب ان نوجوانوں اور ان کے سرپرستوں سے پوچھیں کہ ان حالات میں آخر کس طرح آپ کونیند آتی ہے اور کس طرح سڑکوں پر اخلاق سے عاری حرکتیں کرنے کو جی چاہتا ہے؟ انہیں بتائیں کہ دنیا بھر میں عیسائی اور یہودی فلسطینیوں کی حمایت میں مظاہرے کر رہے ہیں۔ انہیں بتائیں کہ خود اسرائیل کے اخبارات اور قلم کار فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم پر تڑپ اٹھے ہیں۔
ان سے پوچھیں کہ آخر کب وہ اپنی جڑوں اور شناخت پر واپس ہوں گے؟ ان سے پوچھیں کہ آخر کس طرح ان کے منہ سے مغلظات نکلتی ہیں اور آخر کب وہ اس اخلاق کا نمونہ بن کر دوسروں کو اسلام کی طرف مائل کریں گے جس کا مظاہرہ ان کے آخری نبی نے قدم قدم پر کرکے دکھا دیا تھا۔
مسلم محلوں میں جو اخلاقی تنزلی درآئی ہے اسے دور کرنے کیلئے کچھ اقدامات تو کرنے ہی پڑیں گے۔ آج اگر بیدار نہ ہوئے تو ایک وقت ایسا بھی آسکتا ہے کہ جب مسلمانوں کی اگلی نسلیں فلسطینیوں کو ظالم اور اسرائیل کو مظلوم قرار دیں گی۔ اگر ہر گلی کے بزرگ نمازی صرف اپنی گلی کے نوجوانوں کی اخلاقی تربیت کا بیڑا اٹھالیں تو اس مسئلہ کا حل نکل سکتا ہے۔ اگلی نسلوں تک اسلام اور اس کی تعلیمات کی صحیح شکل کو باقی رکھنے کیلئے جنگی پیمانہ پر اصلاحی اقدامات کرنے ہی ہوں گے۔ اگر ہم یہ نہ کرسکیں تو ہماری نمازوں کا کیا فائدہ اور ان خوش نما مسجدوں کی کیا افادیت؟ مسلم تنظیموں‘ جماعتوں اور انجمنوں کو بھی اس پہلو پر غور کرنا ہوگا۔۔
(wadoodsajid@inquilab.com)