گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے
جس کے نفس گرم سے ہے گرمی احرار
وہ ہند میں سرمایہ ملت کا نگہبان
اللہ نے بروقت کیا جس کو خبردار
ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کا بادشاہ اکبر اعظم اپنی بہت سی فتحیابیوں اور کامیابیوں کے ساتھ ساتھ اس لئے بھی مشہور ہوا کہ اس نے ایک نیا دین ایجاد کیا۔ جس کا نام دین الہی تھا۔ اکبر اعظم کے سامنے کسی کی ہمت نہیں تھی کہ اپنی زبان کھولتا، اسی کے دور میں ایک دینی خاندان میں ایک لڑکا پیدا ہوا اکبر اعظم کے دور میں ہی وہ پلا بڑھا اور علم دین حاصل کیا۔ جب وہ بڑا ہوا تو اکبر اعظم تو گذر چکا تھا مگر اس کے بیٹے جہانگیر کی حکومت تھی، اس نے اسلام کو پھر سے ہندوستان میں زندہ کیا جس کو اکبر اعظم نے مسخ کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس شخصیت کا نام شیخ احمد سرہندی تھا۔ اور انھیں کے بارے میں علامہ اقبال نے یہ اشعار کہے ہیں۔
شیخ احمد سرہندی جو مجدد الف ثانی کے لقب سے مشہور تھے۔ دسویں صدی کے ایک ایسے مشہور عالم دین تھے جن کی عظیم الشان علمی، دینی اور دعوتی خدمات کے پیش نظر ان کو دوسرے ملینیم کا مجدد کہا جاتا ہے۔
شیخ احمد سرہندی کی پیدائش 26 مئی 1564 کو ہندوستان میں ہوئی۔ سترہ سال کی عمر میں دینی تعلیم سے فارغ ہوئے اور پھر درس وتدریس میں مشغول ہوگئے۔ آپ کی شہرت اس دور میں دوسرے ممالک تک پھیل گئی چنانچہ روم، شام، ایران اور افغانستان وغیرہ کے طلباٗ بھی آپ کے درس میں آنے لگے۔ اور آپ سے علم حاصل کرنے لگے۔ آپ نے اپنی پوری عمر درس وتدریس اور تصنیف وتالیف کے ساتھ ساتھ دعوت واصلاح باطن میں گذار دی اور باسٹھ سال کی عمر میں 10 دسمبر 1623ء کو سرہند میں وفات پائی۔
شیخ احمد سرہندوی کا کارنامہ کیاتھا، کیوں وہ مشہور ہوئے۔
شہنشاہ اکبر نے ہندوستان پر1556 سے لیکر1605 تک تقریبا پچاس سال حکومت کی، اس نے اپنے دور میں ہندووں کو خوش کرنے کے لئے ایک نئے دین کی ایجاد کی جس کو دین الہی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اکبر جب گزر گیا تو اس کے بیٹے جہانگیر نے سلطنت سنھبالی۔جہانگیر گرچہ اپنے باپ اکبر کی طرح دین اکبری کا قائل نہیں تھا، مگر اس کے دور میں اکبر کے دین الہی کے اثرات پوری طرح باقی تھے۔ شیخ احمد سرہندی نے نہ صرف یہ کہ اپنے دور کے امراء، روساء اور وزیرو ں کو اصل اسلام کی طرح راغب کیا بلکہ اپنی دعوت وحکمت کے ساتھ جہانگیر کو بھی اسلام کا پرستار بنایا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جہانگیر کے بعد جب اس کا بیٹا اورنگ زیب بادشاہ بنا تو وہ انتہائی متقی،پرہیزگار اور اسلام پرست بادشاہ تھا۔
تاریخ بتاتی ہے کہ جب شیخ احمد سرہندی کی شہرت ہر طرف پھیلی تو بعض امیروں اور وزیروں نے بادشاہ جہانگیر کو آپ کے خلاف بھڑکایا۔ اور یہ یقین دلایا کہ شیخ احمد سرہندی سجدہ تعظیمی کے قائل نہیں ہیں۔ جب کوئی بادشاہ کے سامنے جاتا تو تعظیم کے لئے سجدہ کرنا ضروری تھا۔ جہانگیر کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو اس نے شیخ احمد سرہندی کو دربار میں طلب کرلیا اور شیخ احمد سرہندی جب دربار میں آئے تو سجدہ تعظیمی نہیں کی۔ بادشاہ نے وجہ پوچھی تو کہا:
سجدہ اللہ کے علاوہ کسی کے لئے جائز نہیں ہے۔ یہ اللہ کا حق ہے جو اس کے کسی بندے کو نہیں دیا جاسکتا۔
بادشاہ نے بہت کوشش کی کہ شیخ احمد سرہندی مان جائیں اور ایک بار سجدہ کرلیں۔ مگر وہ اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔ بعض امراء نے آپ کے قتل کی سفارش کی، مگر بادشاہ نے آپ کو گوالیار کے جیل میں قید کردیا۔ ایک مدت تک آپ جیل میں رہے اور وہیں دعوت وتبلیغ کا کام جاری رکھا، کچھ عرصہ بعد بادشاہ نے آپ کو رہا کردیا۔
اس کے بعد شیخ احمد سرہندی نے بڑے بڑے امیروں، وزیروں اور بادشاہ کے مقربین کو صحیح اسلام پر عمل کرنے کی دعوت دی، جس کی وجہ سے اسلام کا وہ مسخ شدہ چہرہ جس کو دین اکبری نے بگاڑ دیا تھا۔ بہت حد تک صحیح شکل میں نظر آنے لگا۔
یہ تھا شیخ احمد سرہندی کا سب سے بڑا کارنامہ!