پٹنہ (پریس ریلیز/اِنصاف ٹائمس) آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے ایک بیان میں واضح کیا کہ نئی دہلی، رفیع مارگ پر واقع ساڑھے تین سو سالہ سنہری مسجد کو شہید کر نے کی کسی بھی سازش کو قبول نہیں کیا جائے گا۔
مسلم پرسنل لا بورڈ کے ترجمان ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ نیو دہلی مونسپل کونسل نے ایک مبہم نوٹس جاری کر کے سنہری مسجد کو شہید کر نے سے متعلق لوگوں سے اعتراضات طلب کئے ہیں۔ نوٹس میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ دہلی ٹریفک کمشنر نے مسجد کے اردگرد ٹریفک کے بآسانی گزرنے میں پریشانی کا اظہار کر تے ہو ئے این ڈی ایم سی سے اس مسجد کو ہٹائے جانے کا مطالبہ کیاہے۔ جس پراین ڈی ایم سی نے مسجد کا مشترکہ معائنہ کیا اور اس معاملہ کو مذہبی کمیٹی کے سپرد کیا۔ اب یہ کہا جا رہا ہے کہ نام نہاد مذہبی کمیٹی نے اتفاق رائے سے یہ کہہ دیا ہے کہ مسجد کو منہدم کیا جا سکتا ہے۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ یہ واضح کر دینا ضروری سمجھتا ہے کہ سنہری مسجد نہ صرف ایک قدیم مسجد ہے بلکہ ان 123وقف اراضیوں میں شامل ہے جس پر ہائی کورٹ نے اسٹے لگا رکھا ہے ۔ اسی طرح یہ مسجد ہیریٹج پراپرٹیز کے گریڈ III میں بھی شامل ہے جس کے بارے میں ہیریٹج کنزویشن کمیٹی کی ہدایت ہے کہ یہ عمارتیں سماجی اور فن تعمیر و جمالیاتی حسن کے لحاظ سے مخصوص اہمیت کی حامل ہیں۔ لہٰذا ان کا منہدم کیا جانا اس لحاظ سے بھی غلط ہے۔
مسجد کو شہید کر نے کے لئے ٹریفک کا بہانہ کھڑا کیا گیا۔ اس سے قبل اس مسجد کے انہدام کے اندیشہ کے پیش نظر عدالت میں کیس داخل کیا گیا تھا اور عدالت نے اس پر اسٹے لگاتے ہو ئے یہ یقین دہائی کرائی تھی کہ اسے منہدم نہیں کیا جائے گا۔ اس یقین دہائی کے بعد ہی اس کیس کو واپس لے لیا گیا تھا۔ این ڈی ایم سی اگر عدالت کی اس یقین دہائی کے خلاف کاروائی کر تا ہے تو توہین عدالت کا بھی مرتکب ہو گا۔ مسلم پرسنل لا بورڈ یہ واضح کر دینا بھی ضروری سمجھتا ہے کہ مسلمانان ہند مسجد کے انہدام کو برداشت نہیں کریں گے۔ مسجد اللہ کا گھر اور وقف الی اللہ ہے۔ اس کو نہ تو منتقل کیا جا سکتا ہے، نہ ہی ا س کی کو ئی خرید فروخت ہو سکتی ہے۔ لہٰذا این ڈی ایم سی اپنے اس مذموم ارادے سے فوری باز آجائے اور ملک کی راجدھانی میں خواہ مخواہ فرقہ وارانہ کشیدگی پھیلانے سے گریز کر ے۔ اس سلسلے میں کچھ دینی تنظیمیں اور انصاف پسند لوگ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کی لیگل کمیٹی اس سلسلے میں ان کا تعاون کر سکتی ہے۔
ہم ریاستی و مرکزی حکومتوں پر یہ واضح کر دینا ضروری سمجھتے ہیں کہ وہ مساجد، منادر، گرودواروں و دیگر عبادت گاہوں کے انہدام کے ارادوں سے فوری طور پر باز آجائیں اور ملک کی فرقہ وارانہ صورت حال کو مزید پراگندہ کر نے کی کوشش نہ کر یں۔