آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے قومی صدر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کا دردمندانہ بیان "مسلمان اپنی وحدت کو قائم رکھیں اور سہ ریاستی امارت شرعیہ کو تقویت پہنچائیں”

Spread the love

پٹنہ (پریس ریلیز/اِنصاف ٹائمس) امارت شرعیہ کو توڑنے کی ناکام کوشش کے بعد آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے قومی صدر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب کا بیان سامنے آیا ہے انہوں نے کہا کہ "اجتماعی نظام کو وجود میں لانا اور اسکو قائم رکھنا مسلمانوں کا ایک اہم فریضہ ہے،اسی لئے جہاں مسلمان اقلیت میں ہوں وہاں بھی فقہاء نے محدود مقاصد کے لئے ہی سہی نظام امارت کو قائم کرنے کی ہدایت دی ہے، اور اس سلسلے میں دو چیزوں کا خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے، ایک نصب قاضی یعنی مسلمانوں کے آپسی اختلاف کو حل کرنے کے لئے دارالقضاء کا قیام، دوسرے جمعہ وعیدین کا قیام، جس کے لئے قدیم فقہاء نے امیر و سلطان کی اجازت کو لازم قرار دیا تھا ، مگر ہندوستان میں سلطنت مغلیہ کے ختم ہونے کے بعد علماء نے فتوی دیا کہ جمعہ کے قیام کے لئے مسجد کی مقامی کمیٹی اور اس کی اجازت کافی ہے؛ تاہم قاضی کا مقرر کرنا امیری کے ذریعہ ہوسکتا ہے، اس کے علاوہ دینی تعلیم ، عصری تعلیم ٹیکنیکل تعلیم، خدمت خلق کا کام مسلمانوں کے دین وایمان اور جان و مال کی حفاظت کی کوشش وغیرہ ایسے امور ہیں، جن کو کوئی فرد یا افراد کا ایک مجموعہ یا مسلمانوں کا بنایا ہوا ادارہ یا کوئی بھی تنظیم انجام دے سکتی ہے، ان کاموں کے لئے نہ امارت کا نظام ضروری ہے اور نہ امیر کی اجازت ؛ البتہ بہت اہم بات یہ ہے کہ امارت کے نظام کی وجہ سے مسلمانوں کی اجتماعیت برقرار رہتی ہے، اور اتحاد واجتماعیت ہی بہت بڑی طاقت ہے۔ اس لئے یہ حقیر ( خالد سیف اللہ رحمانی ) امارت شرعیہ بہار اڑیسہ و جھارکھنڈ کے رکن شوری اور رکن مجلس ارباب حل و عقد، نیز ملت کے ایک بہی خواہ کی حیثیت سے جھارکھنڈ کے علماء وار باب فکر و نظر اور ذمہ دار شخصیتوں سے درمندانہ اپیل کرتا ہے کہ وہ ان تینوں ریاستوں کی متحدہ امارت کو قائم رکھیں، جس کی ایک روشن تاریخ رہی ہے، اور ہرگز اس میں رخنہ نہ پڑنے دیں، اگر امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ سے کوئی اختلاف ہو تو وہاں کے ذمہ داروں کے سامنے اپنا نقطہ نظر پیش کریں، مجھے یقین ہے کہ امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ کے موجودہ امیر اور ذمہ داران ضرور ایسی باتوں کو توجہ سے سنیں گے، اگر غلط فہمیاں ہوں گی تو دور بھی کریں گے اور کوئی رائے قابل توجہ اور لائق عمل ہوگی تو اس کو رو بہ عمل بھی لائیں گے، بہر حال کسی بھی صورت میں تفرقہ پیدا نہ کریں مل جل کر امت کے کارواں کو آگے بڑھائیں، الگ سے امارت قائم کرنے کے بجائے جو لوگ تعلیم ، سماجی خدمت اور اصلاحی میدان میں کوئی کام کرنے کا جذبہ رکھتے ہوں تو وہ اپنے طور پر انفرادی یا تنظیمی شکل میں اس کو انجام دیں، اس کے لئے الگ سے امارت قائم کرنے کی ضرورت نہیں ہے، موجودہ حالات میں جب کہ مسلمانوں کو سب سے زیادہ اتحاد و اتفاق کی اور اختلاف و انتشار سے بچنے کی ضرورت ہے، ہمیں ایسی باتوں سے ضرور بچنا چاہئے؛ ورنہ یہ بڑی بدبختی کی بات ہوگی ، اللہ تعالیٰ ہمیں اختلاف وانتشار سے محفوظ رکھے”

Leave a Comment