محمد رفیع
ہندوستان کی سرزمین پر بادلوں جیسا سیر کرتا ہوا ایک نام جو بڑی تیزی سے مشہور و مقبول ہو رہا ہے وہ نام مولانا احمد ولی فیصل رحمانی صاحب سجادہ نشین خانقاہ رحمانی کا ہے۔ اس نام میں چار حروف ہیں احمد، ولی، فیصل اور رحمانی۔ چاروں کے معنی پر غور کیا جائے تو نام اور شخصیت کا صحیح اندازہ ہوگا اور اس سے یہ بھی پتا چلے گا کہ نام اور اس معنی کے مقابل شخصیت ہے کہ نہیں۔ احمد یعنی بہت تعریف اور حمدوثنا پانے والا، تعريف کيا ھوا- حضور نبی کريم صلی اللہ عليہ وسلم کا اسم مبارک، ولی کا معنیٰ ہے اللہ کا نیک بندہ، خدا رسیدہ، خدا کا مقرب اور محبوب الٰہی وغیرہ، فیصل کا معنیٰ فیصلہ کرنے والا، حاکم ہے اور رحمانی خدا سے منسوب ہے یعنی خدا داد، رحمانی اس خانوادے سے بھی منسوب ہے جس نے قوم و ملت کے لئے بڑی قربانیاں دی ہیں حضرت مولانا فضل الرحمن گنج مرادآبادی سے تعلق رکھنے والے حضرات رحمانی لکھا کرتے ہیں، حضرت مولانا موصوف ایک صاحب نسبت بزرگ تھے، ان کی نسبت میں جو لوگ جڑے ہیں وہ رحمانی کہلاتے ہیں۔ حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی کے پردادا حضرت مولانا محمد علی مونگیری رحمۃ اللہ علیہ فضل رحماں گنج مرادآبادی کے خاص مریدین میں سے تھے اس طرح حضرت کا مولانا فضل الرحمن گنج مرادآبادی سے قریب کا رشتہ ہے۔
حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی کے نام، اس کے معنی کی تفصیل پر غور کرنے سے ہی حضرت کی شخصیت کا اندازہ ہو جاتا ہے، ان کی قیادت پر اعتماد ہو جاتا ہے۔ حضرت کے چہرہ انور پر جو نورانیت ہے وہ ظاہر تو ظاہر، باطن کی خوبصورتی کو بھی عیاں کرتا ہے۔ ان کے اندر خلوص اور ملت کا درد موجود ہے، ان کی یہی خصلتیں ہر کسی کو ایک لمحہ میں اپنی روحانی رہنمائی میں لے لیتا ہے۔ ایسا باوقار باکمال اور بااحترام شخصیت جو ہر وقت مسلمانوں کی فلاح، اس کی دینی و عصری تعلیم کے لئے فکرمند ہو اور ہر وقت مسلم مسائل کو دور کرنے، ان کے ذاتی معاملات کو دور کرنے کے لئے فکر مند ہو۔ خانقاہ رحمانی مونگیر کے بہترین منتظمین ہونے کے ساتھ ہی امارت کی ذمہ داریوں کو بخوبی ادا کرتے ہوئے ہر ایک لاکھ آبادی پر دارالقضاء قائم کرنے کی فکر قابل رشک ہے۔ اس کے ساتھ ہی عصری تعلیم کو فروغ دینے کے لئے ابھی تک 13 امارت پبلک اسکول قائم کئے جا چکے ہیں، یہ حضرت مولانا ولی رحمانی رحمتہ اللہ علیہ کی جدید فکر کو پر لگانے جیسا ہے۔ حضرت امیر شریعت ہر لمحہ فکرمند رہتے ہیں کہ مسلمان چھوٹے چھوٹے مسائل سے نکل کر بڑے سے بڑا کام کو انجام دے، اپنا اور قوم کی ترقی کے لئے قدم بڑھائیں۔ حضرت امیر شریعت اردو اور مدارس کی بقاء کو لے کر کافی فکرمند ہیں۔ یہاں تک کہ سرکاری مدارس کو لے کر بھی ان کی فکر قابل اعتماد ہے، وہ بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ پٹنہ کے چیئرمین جناب سلیم پروز و سیکریٹری عبدالسلام انصاری اور حکومت سے مسلسل رابطہ میں ہیں۔ لیکن حضرت سرکاری مدارس کی حالات بہتر ہو اس کے لئے بھی فکرمند ہیں۔ عصری تعلیم کو لے کر وہ اتنے فکرمند ہیں کہ حضرت امیر شریعت کے متعلق عبدالسلام انصاری کہتے ہیں کہ قوم کی ترقی کے لئے حضرت کے خیالات وقت سے آگے کا ہے۔ انہوں نے مختلف ممالک کا دورہ کر چکے ہیں، کیلیفورنیا یونیورسٹی میں تعلیمی خدمات انجام دے چکے ہیں اور جامع اظہر یونیورسٹی مصر میں رہ کر استفادہ حاصل کیا ہے اس لئے ان کی فکر بھی اسی سطح کی ہے۔ قومی اساتذہ تنظیم بہار کے ریاستی مجلس عاملہ کے رکن محمد امان اللہ کے مطابق حضرت 50 سال آگے کی سونچ رکھتے ہیں۔ میں نے خود حضرت امیر شریعت سے بات کی ہے، قوم کی ترقی اور ان کی حالت کو لے کر میں نے دیکھا کہ ان کے اندر کتنی کڑھن ہے۔ وہ رات رات بھر جگتے ہیں اور پلاننگ کرتے ہیں کہ کیسے مسلمان بین الاقوامی سطح پر دوسری قوموں سے آگے کی صف میں کھڑا ہو جائے، رحمانی 30 اس کی بڑی مسال ہے جہاں قوم کا مستقبل تیار ہو رہا ہے۔ یونی فارم سیول کوڈ کے مسئلہ پر جس زبردست طریقے سے حضرت امیر شریعت کی قیادت میں امارت شرعیہ نے کام کیا وہ قابل تحسین ہے۔ حکومت ہند کو 85 لاکھ ای میل موصول ہوئے جس میں 52 لاکھ ای میل امارت شرعیہ کے سرور (Server) سے بھیجے گئے تھے جو حضرت امیر شریعت کی محنت کا ہی نتیجہ تھا۔ جس خاموشی کے ساتھ حضرت امیر شریعت دانشوران کے درمیان مسلمان اور آئین ہند خصوصاً یونی فارم سیول کوڈ کے تعلق سے پریزینٹیشن دے کر عوامی بیداری پھیلا رہے ہیں وہ قابل رشک ہے۔
اس طرح کے ڈائنامک خیالات کے مالک کو آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کا سیکریٹری بنایا جانا قابل فخر ہے۔ ان کی صلاحیت اور قابلیت کے مطابق یہ عہدہ میرے سمجھ سے بہت بڑا نہیں ہے، ان کے لئے عہدہ معنی نہیں رکھتا لیکن اس ذریعہ سے انہیں کام کرنے کا جو موقع فراہم ہوا ہے اس کے متعلق جب میں نے حضرت سے دریافت کیا تو خود حضرت امیر شریعت نے کہا کہ آپ دعا فرما دیں کہ نئی ذمہ داری کے تقاضوں کو بخوبی ہم ادا کر سکیں۔ میں یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی دامت برکاتہم کے امیر شریعت منتخب ہونے کے قبل میں ان سے بالکل ناواقف تھا اور ان کو امیر شریعت بنائے جانے کا میں زبردست مخالفت کر رہا تھا لیکن لال گنج ویشالی میں دارالقضاء کے قیام کے موقع پر خادم امارت شرعیہ صبغت رحمانی کے ذریعہ میری ان سے پہلی ملاقات ناشتہ پر ہوئی تو میں ان کے اخلاق و کردار، ایثار و قربانی کے جزبہ اور خندہ پیشانی کو دیکھ کر ان کا گرویدہ ہو گیا اور میرا دل باغ باغ ہو گیا کہ ملک میں جس طریقے سے نئے نئے چائلینجیز ہیں ایسے میں روایتی امیر شریعت نہیں بلکہ عصری و دینی تعلیمات سے لیس و بزرگان دین کے گھرانے میں تربیت یافتہ امیر شریعت ہی لازمی طور پر ہونا چاہئے۔ موجودہ امیر شریعت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی میں ہر و خصلتیں ہیں جس پر پورا اعتماد کیا جا سکتا ہے کہ اس دور جدید میں وہ قوم و ملت کی بہترین رہنمائی کی ذمہ داریوں کو انجام دے سکتے ہیں۔