سیف الرحمٰن
چیف ایڈیٹر انصاف ٹائمس
ہندوستان کے مستقبل کےلئے ٹرننگ پوائنٹ مانے جانے والے 2024 کے لوک سبھا انتخاب کا سیمی فائنل کہے جانے والے 2023 کے پانچ صوبوں کے اسمبلی انتخابات کا رزلٹ سامنے آچکا ہے جس میں تمام طرح کے قیاس آرائیوں اور ایگزٹ پول کو جھٹلاتے ہوئے بھارتیہ جنتا پارٹی نے تاریخی فتح حاصل کی ہے، ایک طرف راجستھان و مدھیہ پردیش میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے ناقابل یقین سطح پہ اکثریت حاصل کی ہے تو وہیں دوسری طرف چھتیس گڑھ میں جہاں کانگریس یکطرفہ جیتتی دکھائی جارہی تھی وہاں بھی بھاجپا نے اقتدار حاصل کر کے اپنی جیت درج کیا ہے، ان کے علاوہ تلنگانہ میں بھارتیہ راشٹریہ سمیتی کو کے انتہائی کم فرق کے فیصد کے ساتھ شکست دیکر کانگریس نے فتح حاصل کی ہے،اب اگر ہم 2024 لوک سبھا انتخاب کے آئینے میں اس سیمی فائنل کے نتائج کو دیکھیں تو مکمل طور پر یہ انڈیا اتحاد کیلئے بہت بڑا دھچکا ہے، بےشک تلنگانہ میں کانگریس نے فتح حاصل کی ہے لیکن تلنگانہ کی جیت زیادہ اہمیت اس وجہ سے نہیں رکھتی کہ وہاں کانگریس براہ راست بھاجپا کے مدمقابل نہیں تھی بلکہ اس نے ایک بھاجپا مخالف پارٹی کو شکست دی ہے، قابل غور بات یہ ہے کہ اگرچہ بھاجپا وہاں جیت نہیں سکی لیکن وہاں بھارتیہ جنتا پارٹی پہلے کے مقابلے میں اپنے ووٹ فیصد و سیٹوں میں اضافہ کرنے میں کامیاب رہی ہے، اب جبکہ سیمی فائنل میں بڑی ناکامی کا سامنا ہو چکا ہے تو ضروری ہے کہ فوری طور پر کانگریس لیڈرشپ سر جوڑ کر بیٹھے اور ہر طرح کے اکڑ سے نکل کر زمینی حقائق کو قبول کرتے ہوئے 2024 کے لوک سبھا انتخاب کا لائحہ عمل تیار کرے اور ظاہری طور پہ صرف دل بڑا کرکے ہی نہیں بلکہ حقیقت پسند بن کر اپنے مقاصد کا جائزہ لے کر اس کے مطابق حکمت عملی بنائے اس حقیقی مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے انڈیا اتحاد کے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھ کر کھل کر گفتگو کرے ،میری تجزیاتی رائے کے مطابق ضروری ہے کہ اس وقت تمل ناڈو،بہار اور کرناٹک و تلنگانہ ماڈل کے اہم نکات کو اپنایا جانا چاہیے ،جس میں چند اہم نکات مندرجہ ذیل ہیں
01، ہر صوبے کی پارٹی قیادت کا تجزیہ کرتے ہوئے تمام جھوٹی مصلحتوں کو درکنار کر کے ایسی لیڈرشپ سامنے لائے جو کہ 2024 کو سامنے رکھتے ہوئے صحیح فیصلے لے سکے اور اس کے مُطابق کام کر سکے ،جو کہ انڈیا اتحاد کے نظریہ و پالیسی کے ساتھ کھڑے رہنے والے ہوں ،جو کہ سدھارمیا و شیو کمار اور ریونت ریڈی جیسی قیادت دے سکے اور مرکزی قیادت کے احکام کو ترجیح دے سکے،ایسے افراد جو کہ اس پر کھرے نہیں اُتر رہے جیسے کہ مدھیہ پردیش میں کمل ناتھ و دِیگراُن سے قیادت چھین لی جائے جس سے وقتی پریشانی کا سامنا تو ہوگا مگر آنے والے وقت کیلئے یہ مفید فیصلہ ثابت ہوگا
02،بھاجپا کے خلاف ہوئے پچھلے تمام انتخابات نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ جہاں بھی ہارڈ ہندوتوا کا توڑ سافٹ ہندوتوا سے کرنے کی کوشش کی گئی وہاں ناکامی ہی ہاتھ لگی ہے، آج جہاں بھی بھاجپا مخالف حکومتیں ہیں وہ وہی صوبے ہیں جہاں انتخاب مکمل سیکولرزم و سماجی مساوات کی بنیاد پر لڑا گیا جس میں ایک بڑی مثال اس سیمی فائنل میں کانگریس کے ہاتھ آئی تلنگانہ ریاست کی حکومت ہے کہ جہاں ایک طرف بھارتیہ راشٹریہ سمیتی کا سافٹ ہندوتوا تھا تو دوسری طرف کانگریس کی سماجی مساوات اور سیکولرزم کی سیاست تھی، جیت سماجی مساوات و سیکولرزم کے سیاست کی ہوئی، کرناٹک میں بجرنگ دل کی دہشت گردی و برہمن وادی فاشزم پر عوام کو بیدار کیا گیا تو جیت ہوئی اور مدھیہ پردیش میں بجرنگ بلی کا نعرہ دےکر نرم ہندوتوا دکھایا گیا اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا اور شکست سامنے ہے، اسی طرح بہار میں ہم دیکھتے ہیں کہ ذات پر مبنی مردم شُماری و ریزرویشن میں اضافے اور لگاتار زمینی سطح پر سماجی مساوات کے نظریہ سے متعلق مہمات کی وجہ سے وہاں پر بھارتیہ جنتا پارٹی کے حالات ایسے ہوگئے ہیں کہ پوری پارٹی طاقت لگا کر کبھی یادو سمیلن کرتی ہے اور کبھی کسی اور ذات کا سمیلن پھر بھی اُن سمیلنوں میں دس فیصد و پندرہ فیصد سے زیادہ کرسیاں نہیں بھر پاتی ہیں، لہٰذا ضروری ہے کہ اب سافٹ ہندوتوا کی سیاست سے نکل کر مکمل طور پر ہارڈ سیکولرزم و سوشل جسٹس کی سیاست کو اپنا کر ایک طرف اُن تمام ریاستوں میں ذات پر مبنی مردم شُماری اور ریزرویشن میں اضافے اور ساتھ ہی پرائیویٹ سیکٹر و سرکاری ٹھیکوں میں ریزرویشن پر فوری طور پر اقدام کرنا چاہیے جہاں کانگریس و حزب اختلاف کی دوسری پارٹیوں کی حکومت ہے، اس کے علاوہ گاؤں سطح سے لےکر ضلعی اور صوبائی سطح تک پر مستقل نظریاتی پروگرامس کا ایک خاکہ تیار کیا جائے جس میں عوامی زبان میں ضروری ڈیٹا پر مبنی مدلل مواد مستقل پیش کیا جائے اور ساتھ ہی ساتھ سنگھ پریوار و بھارتیہ جنتا پارٹی کے نظریہ و پالیسیوں کو واضح طور پر ایکسپوز کیا جاتا رہے
03۔ سوشل انجنیرنگ اور اتحاد کے معاملے میں اب بھی غلطیاں کی جا رہی ہے جبکہ ہم نے دیکھا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی لگاتار صوبائی و مرکزی انتخابات میں چھوٹی چھوٹی پارٹیوں و چھوٹے چھوٹے ووٹ بینک کو کس طرح مینیج کرتی ہے اور کانگریس کی طرف سے مضبوط سوشل انجنیرنگ و اتحاد کے راستے سے بچنے کے نقصانات بھی بار بار سامنے آ چکے ہیں جیسا کہ ابھی راجستھان و مدھیہ پردیش میں بھی ہوا کہ وہاں ہنومان بینیوال کی آر.ایل.پی،بھارتیہ آدیواسی پارٹی اور آزاد سماج پارٹی وغیرہ کو ساتھ نہ لینے کا نقصان قریب 50 سے زائد سیٹوں پر ووٹ کی شکل میں ظاہر ہوا خود اس وقت کانگریس کے قریبی مانے جانے والے معروف سیاسی تجزیہ نگار یوگیندر یادو نے بھی کہا ہے کہ راجستھان میں ایسی پارٹیوں کے نہ لینے سے 30 سے زائد سیٹوں پر نقصان ہوا ہے ،ساتھ ہی ووٹ کے ساتھ ہی نیریٹو کے سطح پر بھی بڑا نقصان ہوا، اگر اس بات کا دھیان رکھا جاتا تو بھارتیہ جنتا پارٹی کی طرف جانے والے آدی واسی و شیڈول کاسٹ ووٹ کو بہت حد تک ساتھ لایا جا سکتا تھا ،اب اگر ہم مدھیہ پردیش میں بھی دیکھیں تو یہی صورتحال نظر آتی ہے ،لہٰذا ضرورت ہے کہ جس طرح تمل ناڈو میں وزیر اعلیٰ اسٹالن نے اتنے مضبوط ہونے کے باوجود چھوٹے چھوٹے ووٹ بینک کو بھی ٹارگٹ بنا کر انھیں ساتھ رکھا ہوا ہے وہ ایک بڑا اتحاد اپنے ساتھ رکھتے ہیں جس میں ایم.ایم.کے و مسلم لیگ جیسی پارٹیوں کو بھی جگہ دی ہے اور اب سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا جس سے کہ ایک مرتبہ اسٹالن کا اتحاد ٹوٹ چکا ہے کو بھی ساتھ لینے کی بات ہو رہی ہے،ویسے ہی ملکی سطح پر بھی انڈیا اتحاد کو مضبوطی دی جاۓ ،آج کے وقت میں بھارتیہ جنتا پارٹی دوسری مرتبہ مرکز میں بڑی جیت حاصل کرنے اور کانگریس سے زیادہ صوبوں کا اقتدار سنبھالنے کے باوجود این.ڈی.اے اتحاد میں 39 پارٹیوں کو شامل رکھتی ہے لیکِن کانگریس اپنی صوبائی کمیٹیوں کی وجہ سے کہیں انڈین نیشنل لوک دل تو کہیں بدر الدین اجمل صاحب کو اور کہیں ایس.ڈی.پی.آئی کو کہیں آزاد سماج پارٹی کو کہیں پرکاش امبیڈکر کو اتحاد میں لینے سے بھاگ رہی ہے اور اسی طریقے سے دلت،مسلم،آدی واسی سماج کی دِیگر کئی اہم پارٹیاں و کئی صوبائی پارٹیاں جو کہ انڈیا اتحاد کیلئے نیریٹو کی لڑائی سے لیکر زمینی جدوجھد و مینیجمنٹ تک میں بہت مفید ثابت ہو سکتی ہے ان کو ساتھ نہیں لایا گیا ہے، جس کی وجہ سے صاف نظر آرہا ہے کم سے کم 50 لوک سبھا حلقوں میں اتحاد کو نقصان کا یقینی سامنا کرنا ہوگا،لہذٰا ضروری ہے کہ ہریانہ کی انڈین نیشنل لوک دل و پنجاب کی شریمنی اکالی دل اور آسام کی بدر الدین اجمل صاحب کی آل انڈیا یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ و راجستھان کی ہنومان بینیوال کی آر.ایل.پی جیسی صوبائی پارٹیوں کو اتحاد کا فوری طور پر حصہ بنایا جائے اور ملک کی سیاست میں دوسری سطح کی پارٹیوں میں سے دلت سماج کی آزاد سماج پارٹی،پرکاش امبیڈکر والی ونچت بہوجن اگھاڑی و بام سیف، اسی طرح مسلم سماج کی بنگال سے کانگریس اتحاد کی پارٹی انڈین سیکولر فرنٹ،ملک بھر میں پاؤں پسار چُکی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا،اُتر پردیش سے ڈاکٹر ایوب کی پیس پارٹی و توقیر رضا خان کی اتحاد ملت کونسل و تلنگانہ/آندھرا سے ویلفیئر پارٹی آف انڈیا و مجلس بچاؤ تحریک کو ساتھ ہی آدیواسی سماج سے بھارتیہ آدی واسی پارٹی اور بھارتیہ ٹرائیبل پارٹی وغیرہ کو جیسے بھی ہو سکے اور جس طرح کے بھی سمجھوتے کے ساتھ ممکن ہو اتحاد کا حصہ بنایا جائے جس سے کہ جہاں ایک طرف بڑی تعداد میں سیٹوں پر ووٹوں کے بٹوارے کا جو ڈر ہے اُس سے بچا جا سکتا ہے تو وہیں سوشل انجنیرنگ اچھی ہونے کی وجہ سے ایک مضبوط سماجی اتحاد بن پائے گا جو کہ بھاجپا کو 2024 میں کرناٹک انتخاب جیسی کامیابی دے سکتا ہے۔
04۔ پورے ملک کے لوک سبھا حلقوں میں این.ڈی.اے اتحاد کے ممبران پارلیمنٹ و ممکنہ اُمیدواروں کے خلاف مقامی سطح پر نیریٹو کی بہترین منصوبہ بندی ہو اور مسلسل اس پر کام کیا جائے ،ساتھ ہی سروے کرا کر انڈیا اتحاد کی طرف سے ایسے ہی لوگوں کو ٹکٹ دیا جائے جن کے خلاف اینٹی انکیمبنشی نہ ہو اور جو جیت حاصل کر پانے کی پوزیشن میں ہو کیوںکہ اسمبلی سطح پر کرناٹک و تلنگانہ میں کانگریس کی جیت میں اس نکتہ کا اہم کردار سامنے آ چکا ہے اور راجستھان میں اس نکتہ کو ماننے سے انکار کا خمیازہ اشوک گھلوت و راجستھان کانگریس کو بھگتنا پڑچکا ہے
05۔ ملک،نوجوانوں و خواتین اور طلباء و طالبات،مُسلمانوں،آدی واسیوں، دلتوں،پچھڑوں،عیسائیوں،بدھسٹوں،جینیوں،لنگایت سمیت دیگر طبقات اور ہر ریاست کیلئے الگ الگ مضبوط ترقیاتی ایجنڈا پیش کیا جائے جو کہ عوام کو ممکن نظر آ سکے اور ساتھ ہی بڑی اُمّید جگا سکے (اس کا ایک چھوٹا سا کامیاب تجربہ کانگریس نے تلنگانہ میں کیا ہے مسلم ڈیکلریشن،او.بی.سی ڈیکلریشن اور ایس.سی ڈیکلریشن سمیت دِیگر طبقات کیلئے الگ الگ ترقیاتی روڈ میپ پیش کرکے)، اس سلسلے میں سول سوسائٹی،ہر طبقے کے دانشوران اور پروفیشنل منصوبہ ساز افراد کی ٹیم بنا کر، ڈیٹا اور زمینی تجزیہ و ماضی میں حکومت کی كمیشنوں کے ذریعے آئے رپورٹس کو سامنے رکھتے ہوئے ایجنڈا بنانے کا کام فوری طور پر شروع کر دینا چاہیے کیونکہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے ہندوتوادی اور لالی پاپ سیاست کو صرف سماجی مساوات کے نظریہ و مضبوط و ممکن نظر آنے والے ساتھ ہی خوابوں کو جگانے والے ترقیاتی ایجنڈا پیش کر کے ہی شکست دیا جا سکتا ہے
06،بہار میں نتیش و لالو یادو و تیجسوی یادو کی قیادت نے ایک جاب ماڈل پیش کر دیا ہے جس میں لگاتار ہر ایک ڈپارٹمنٹ میں ضرورتوں کے مطابق وّیکنسی نکال کر نوکریاں تقسیم بھی کی جا رہی ہے اور لاکھوں کی تعداد میں نوجوان روزگار پا رہے ہیں،ساتھ ہی نتیش کمار نے خواتین کی ترقی کا ایک ماڈل پیش کیا ہے جس میں لڑکیوں کو سائیکل دینے سی لےکر پنچایتی راج میں خواتین کو 50 فیصد تک ریزرویشن فراہم کرنے اور پولس و انتظامیہ تک میں اُن کو بہترین نمائندگی دےکر ایک مثال قائم کیا ہے لہٰذا کانگریس سمیت حزب اختلاف کی اقتدار والے تمام صوبوں میں آنے والے چند مہینوں میں جاب ماڈل کو اپنایا جاۓ اور ہر میدان میں خواتین کی نمائندگی کو یقینی بنانے کو لےکر بڑے اقدامات کیے جائیں ،کیونکہ موجودہ وقت میں خواتین و نوجوان ایسی سیاست کو پسند کر رہے ہیں جو کہ اُن کے کیریئر کو سنوار سکتے ہوں اور اسی کا فائدہ لگاتار بھارتیہ جنتا پارٹی اٹھا رہی ہے جیسا کہ ابھی مدھیہ پردیش میں بھی شیو راج سنگھ چوہان نے ماما بن کر کیا ہے
07،کانگریس و انڈیا اتحاد کی تمام پارٹیاں بوتھ سطح تک متحرک کمیٹی کے قیام کو یقینی بنائے اور بالکل نچلی سطح تک کارکنان کو متحرک کرنے کیلئے مختلف نظریاتی کیمپ،مہمات وغیرہ اور ضرورت محسوس ہو تو بھارت جوڑو یاترا 2 ڈیزائن کر اُس پر کام شروع کرے
یہ وہ چند نکات ہیں جو کہ بہار،تمل ناڈو،کرناٹک،تلنگانہ وغیرہ میں غیر بھاجپا پارٹیوں کو کامیاب کرنے میں بڑا کردار نبھاتی رہے ہیں اور ان نکات پر جہاں کام کیا گیا ہے وہاں پر بھاجپا،آر.ایس.ایس اور سنگھ پریوار کی سیاست کو کمزور کرنے میں بہت حد تک کامیابی ملی ہے لہذا اب جب کہ کچھ مہینے بچے ہے لوک سبھا کے لڑائی کی، تو ضرورت ہے کہ ان نکات پر فوری طور پر سنجیدگی سے غور و فکر کر کے عملی اقدامات شروع کیے جائیں ،ساتھ ہی ضروری ہے کہ ملکی سطح سے لےکر صوبائی سطح تک آئی.ٹی سیل کی بہترین ٹیم کانگریس و انڈیا اتحاد کی سبھی پارٹیوں کی بنے اور انڈیا اتحاد کا بھی اپنا مرکزی و تمام صوبوں میں صوبائی آئی.ٹی سیل قائم کیا جائے کیونکہ نیریٹو،ایجنڈہ،نظریہ،پروپیگنڈا کا ہر فرد تک پہونچ پانا یقینی بنانا ہوگا جس میں سوشل میڈیا اہم ترین ذریعہ ہے اور کرناٹک و تلنگانہ میں بھی کانگریس نے آئی.ٹی سیل و سوشل میڈیا مارکیٹنگ کا فائدہ دیکھا ہے، سوشل میڈیا کے ساتھ ہی ڈیجیٹل میڈیا کے سبھی چھوٹے بڑے میڈیا پلیٹ کو بھی مرکز کی سطح پر و صوبائی سطح پر اور پھر ضلعی و بلاک سطح پر بھی اچھے سے کورڈینیٹ کیا جانا چاہیے، انڈیا اتحاد نے ریلیوں کا پلان بنایا تھا جو کہ کانگریس کے کچھ لیڈران کی وجہ سے نہیں ہو سکا اور پھر اسی کے بعد انڈیا اتحاد غیر متحرک ہوتا نظر آیا تھا مگر اب اُن ریلیوں کو منعقد کر آگے مسلسل عوامی مہمات کا منصوبہ بھی تیار کیا جانا چاہیے
saifurbihari143@gmail.com
9540926856