علیزے نجف
جب بھی کوئی فرد یا قوم اپنی بقا کے لئے متحرک و مستعد یو جاتی ہے تو اس کے اندر ایک ایسی طاقت سر اٹھانا شروع کر دیتی ہے جو کہ بہتوں کو حیرت میں ڈال دیتی ہے، کیوں کہ زندہ رہنا ہر فرد یا قوم کی پہلی ترجیح میں شامل ہوتا ہے، اگر مسلسل کسی خوف کے ذریعے ان کی سانسوں میں گھٹن پیدا کرنے کی کوشش کی جائے تو ایک نہ ایک دن وہ خوف کی نفسیات سے باہر نکل کر دشمن کی شہہ رگ پہ انگلی رکھنے کی ہمت کر ہی لیتی ہے، ایسا ہی کچھ گذرے دنوں اسرائیل میں ہوا، حماس جیسی ایک چھوٹی تنظیم نے اپنی پوری قوت سے اس پہ اس شدت سے حملہ کیا کہ وہ پوری طرح لڑکھڑا گیا، اس حملے نے اسے اندر و باہر دونوں طرح سے بری طرح ہلا دیا، جس دفاعی سسٹم پہ اسرائیل کو ناز تھا اسے خاک میں ملا دیا ، وہ غرور جو اسے اپنے حدود سے تجاوز کرنے پہ آمادہ کرتا تھا اب پہلے جیسا نہیں رہا، یہ ایک الگ سوال ہے کہ حماس کا یہ قدم کہاں تک صحیح تھا کیوں کہ اس کی قیمت اب عام فلسطینی عوام چکا رہے ہیں، ان کی جان و مال، عزت و آبرو اور سکون سب ملیا میٹ ہو چکا ہے، لیکن یہ ایک سچ ہے کہ اس اقدام پہ آمادہ کرنے والی یہی مغربی طاقتیں ہیں جو کہ آج حماس کے اس قدم کی مذمت کررہی ہیں، جب فلسطین کے علاقوں میں اسرائیل اپنے نوآباد کاروں کو بسا رہے تھے تو انھوں نے محض چند لفظی مذمت پہ اکتفا کیوں کیا، کیوں نہیں اسرائیل کے ہاتھ اس وقت پکڑے جب وہ امن کے دنوں میں بھی فلسطینیوں کو نشانہ بناتا رہتا تھا، ان کی آزاد زندگی میں بھی وہ مخل ہوتا رہتا تھا، جب فلسطین ایک آزاد ریاست ہے تو اسرائیلی اس پہ کس حیثیت سے مسلط ہیں؟ وہ اقوام متحدہ جو کہ دنیا میں امن پیدا کرنے اور برقرار رکھنے کے لئے وجود میں آیا ہے اس نے عملی سطح پہ فلسطینیوں کو تحفظ کیوں نہیں فراہم کیا، اپنی خاموشی سے فلسطینیوں کو یہ احساس دلایا کہ یہ تمھاری جنگ ہے ہم اسرائیل کے سامنے تمھیں تحفظ نہیں فراہم کر سکتے، ایسے میں جب وہ خود اپنے دم پہ اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہا ہے تو پھر یہ مذمت کیسی؟اس وقت یہ جنگ تیسرے ہفتے میں داخل ہو چکی ہے اسرائیل اپنی ندامت اور شکست کو مٹانے کے لئے غزہ کو پوری طرح تباہ کرنے پہ مصر ہے اب تک ہزاروں عام فلسطینی مارے جا چکے ہیں ہزاروں تباہ شدہ ملبوں میں ابھی بھی دبے پڑے ہیں باقی جو زندہ ہیں وہ اسکولوں اور ہسپتالوں میں پناہ لینے کی کوشش کررہے ہیں سینکڑوں زخمی ہیں اور پوری کی پوری کالونی کی بلڈنگیں ملبے کا ڈھیر ہو گئی ہیں، حالیہ تحقیق کے مطابق جاری تشدد میں 3,785 سے زیادہ فلسطینی باشندوں کی موت ہوگئی اور 12,500 سے زیادہ زخمی ہوئے، جن میں سے 53 فیصد خواتین اور بچے ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق غزہ میں تشدد سے اپنے گھروں سے بے گھر ہونے والی 493,000 خواتین اور لڑکیوں میں ایک اندازے کے مطابق 900 نئی بیوہ خواتین شامل ہیں۔ایک طرف انھیں جنگی حملوں کا سامنا ہے دوسری طرف ان کی بنیادی ضروریات جیسے لائٹ، پانی، دوائیں، اور دیگر کھانے پینے کی اشیاء کی ترسیل کا راستہ بند کر دیا گیا ہے، متعدد ملکوں سے بھیجے جانے والے امدادی قافلے ضروری اشیاء کو لئے رفح بارڈر پہ کئی دنوں تک کھڑے رہنے کے بعد غزہ کو پہنچے ہیں دو طرف سے اسرائیل نے ناکہ بندی کر رکھی ہے تیسری طرف سمندر ہے چوتھی طرف مصر کی سرحد ہے، مصر فلسطینیوں کے لئے اپنی سرحد کھولنے کے حق میں نہیں اس کا کہنا ہے کہ جب فلسطینیوں کے پاس اپنی زمین ہے تو وہ ہجرت کیوں کریں، اگر فلسطینی ہجرت کر گئے تو اسرائیل کی نو آبادکاری کی راہ میں ہونے والی مزاحمت سست پڑ سکتی ہے، بےشک یہ پہلو بھی قابل غور ہے لیکن یہ کیسے نظر انداز کر دیا جائے کہ ان کی زندگیاں بھی تو قیمتی ہیں، اسرائیل مسلسل بمباری کئے جا رہا ہے وہ بڑی بڑی بلڈنگوں کے ساتھ ہسپتال اور شیلٹر ہوم کو بھی نشانہ بنا رہا ہے، وہ برملا طور پہ یہ کہہ رہا ہے کہ فتح کے حصول تک جنگ جاری رہے گی، بےشک اقوام متحدہ نے اسرائیل کے اس قدم کی مذمت کی ہے لیکن وہ اسرائیل کا ہاتھ پکڑنے سے قاصر ہے، کیا محض مذمت کر دینے اور اس طرح کا جوابی بیان دینے کے لئے اقوام متحدہ کا وجود عمل میں آیا ہے اگر اقوام متحدہ کی اس مذمت سے اسرائیل کوئی اثر نہیں لے رہا ہے تو پھر حماس کیوں پرواہ کرے گا۔تجزیہ کاروں کا ایک بڑا سوال یہ ہے کہ حماس اتنی ساری میزائلز غزہ میں اکٹھا کررہا تھا اسرائیل کو اس کی خبر کیوں کر نہیں ہو سکی، فلسطینی اسرائیل کی نگرانی میں رہتے رہے ہیں وہ اسرائیلیوں کی اجازت کے بغیر غزہ سے باہر سفر بھی نہیں کر سکتے تھے کہا جاتا ہے کہ امریکہ نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ حماس کی حرکتیں مشکوک سی ہیں کچھ الگ ہونے والا ہے پھر کیا وجہ تھی کہ اسرائیل نے حملہ ہونے سے پہلے کوئی ایکشن نہیں لیا تجزیہ نگاروں کی رائے کے مطابق اسرائیل کے موجودہ صدر بنیامن نتن یاہو نے ایسا اپنی کرسی بچانے کے لئے کیا ہے، پچھلے کئی سالوں سے اسرائیل کی سیاست میں اتار چڑھاؤ کا ماحول چل رہا ہے بنیامن نتن یاہو پہ کئی طرح کے مقدمات چل رہے ہیں، ان پہ فراڈ کا کیس چل رہا ہے اور کئی معاملات میں رشوت لینے کا بھی کیس درج ہے الزام یہ ہے کہ انھوں نے کئی ارب پتیوں سے موٹی رقم رشوت کے طور پہ وصول کی ہے نیتن یاہو اگرچہ اس کو تسلیم نہیں کر رہے لیکن وہاں کی عوام کی ایک بڑی تعداد اس کے خلاف احتجاج کرتی رہی ہے ان پہ ٹرائل چلنے والا تھا ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بنیامن نیتن یاہو نے محض اپنا اقتدار بچانے کے لئے اسرائیلی عوام کی توجہ کو دوسری طرف موڑنے کے لئے اس جنگ کو ہونے دیا، یہ بھی سوچ کا ایک پہلو ہے اس میں کہاں تک سچائی ہے یہ ایک الگ بات ہے۔اس ساری صورتحال میں یہ بھی ایک بڑا سچ ہے کہ اسرائیل اپنی اس کوشش میں کامیاب نہیں ہونے والا کیوں کہ اسرائیلی عوام کی ایک بڑی تعداد اس جنگ کے خلاف آواز بلند کررہی ہے دوسری طرف اسرائیل کے انتہائی مستحکم دفاعی سسٹم میں حماس نے سیندھ لگا کر عالمی برادری کی نظروں میں اس کا قد چھوٹا کر دیا ہے۔ اس وقت اقوام متحدہ اور خود اسرائیل کا سب سے بڑا ہمنوا امریکہ نے بھی یہ بات کہی ہے کہ دو ریاستی حل پہ عمل کرنا ضروری ہے۔اسرائیل جس طرح سے وحشیانہ انداز میں مسلسل حملے کئے جا رہا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کے اندر شکست کی جھلاہٹ پیدا ہو چکی ہے، امریکہ و برطانیہ جیسے مضبوط ترین ممالک کی پشت پناہی میں اس نے عالمی سیاست میں اپنا قد اونچا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے وہ بہت سے عرب ممالک سے سفارتی تعلقات بحال کر چکا تھا، قریب تھا کہ اسلام کا مرکز کہا جانے والا عرب ملک سعودی عرب کو بھی وہ اپنا ہمنوا بنا لیتا لیکن حماس کے اس حملے نے سارا منظر نامہ بدل کر رکھ دیا، سعودی عرب نے اسرائیل کی ان سفاک حملوں کی مذمت کی ہے، مسئلہء فلسطین جس سے کہ خود عرب ممالک بھی نظریں چرانے لگے تھے اب پھر سے شہ سرخیوں میں آ گیا ہے، یہ حماس کی ایک بڑی فتح ہے کہ اس نے قضیہء فلسطین کو ایک بات پھر سے عالمی توجہ کا مرکز بنا دیا ہے۔ عالمی برادری کی ذمےداری ہے کہ اس مسئلے کا حل نکالنے پہ خصوصی توجہ دے، اگر ایسا نہیں ہوا تو اس کی قیمت ہمیشہ اسی طرح عام عوام چکاتے رہیں گے جس کے مرنے اور تباہ ہونے پہ ہر کوئی بلا تفریق رنج و تاسف ظاہر کر رہا ہے۔اسرائیل عام دنوں میں بھی جس طرح فلسطینیوں کا عرصہء حیات تنگ کیا ہوا ہوتا ہے کچھ اس طرح کہ وہ ایک کھلی جیل کا نقشہ کھینچ رہے ہوتے ہیں اس وقت امریکہ کی انسانیت نوازی کہاں سو رہی ہوتی ہے، بےشک اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے، سوال یہ ہے کہ یہی دفاع کا حق فلسطینیوں کے پاس کیوں نہیں؟ امریکہ اسرائیل کی ببانگ دہل طرف داری کر رہا ہے دوسری طرف عام فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کے حصول کی ضرورت کی بھی بات کررہا ہے تو پھر اسرائیل کو اب تک دو ریاستی حل پہ کیوں نہیں راضی کر سکا کیوں وہ برار فلسطینی علاقوں میں نئی بستیاں بسانے میں لگا ہوا ہے، جس طرح عرب ممالک کے اپنے مفاد نے ان کی زبان پہ قفل ڈال رکھا ہے اسی طرح امریکہ بھی محض اپنے مفاد کے لئے اسرائیل کی پشت پناہی کر رہا ہے۔یہاں پہ سب سے بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ جنگیں مسئلے کا حل بن سکتی ہیں، شاید نہیں اس مسئلے کو بالآخر سیاسی مذاکرات کے ذریعے ہی حل کیا جا سکتا ہے، اسرائیل ہمیشہ جارحانہ نفسیات کے ساتھ اپنے موافق حل پہ اڑا ہوا ہے فلسطین جو کہ اپنے ہی علاقے میں قیدی ہیں وہ ردعمل ظاہر کرنے پہ مجبور ہیں ایسے میں عالمی طاقتیں کیوں نہیں اس مسئلے کا حل نکالنے پہ غور کرتیں، شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ اسرائیل کی دراندازی کے غلط ہونے پہ انگلی اٹھانے کی ہمت امریکہ میں نہیں وہ اس کے خلاف ہونے والے ہر فیصلے کو ویٹو کر دیتا ہے۔ اس وقت فلسطین رہنماؤں کو چاہئے کہ وہ گاندھی ماڈل کو اپنائیں اور پرامن سیاسی جدوجہد کے ذریعے اپنے مجوزہ خطے کی حصولیابی اور اس کی تعمیر و ترقی پہ فوکس کریں، اس طرح کی جنگوں سے وقتی طور پہ عالمی توجہ تو حاصل کی جا سکتی ہے لیکن مسائل کبھی حل نہیں کئے جا سکتے، اس وقت اس کی سب سے بڑی قیمت وہاں کے عوام چکاتی ہیں جن کے چاروں طرف موت رقص کرتی ہے، ان مسلسل جنگ اور جاتی رہنے والی جھڑپوں کی وجہ سے فلسطینیوں کے پاس نہ کوئی مضبوط معاشی نظام ہے، نہ اعلی تعلیم کے حصول کے لئے منظم ادارے ہیں اور نہ ہی وہ اطمینان کہ وہ جنگ سے ہٹ کر دیگر شعبہ ہائے حیات کی تعمیر و تشکیل کی طرف متوجہ ہو سکیں، اس وقت پوری عالمی برادری کے سامنے یہ مسئلہ اہم مسئلہ بن کر سامنے آ چکا ہے ایسے میں فلسطین رہنماؤں کے ساتھ عالمی برادری کے لئے ضروری ہے کہ وہ مذاکرات کا ماحول پیدا کر کے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کریں۔ جاپان کی طرح اپنی زندگی کو ازسرنو منظم کرنے کی سوچیں نا کہ ردعمل کی نفسیات کا اسیر ہو کر اپنی ترقی کی راہوں کو خود مسدود کردیں۔