روداد و تاثرات: مفتی محمد نوید سیف حسامی ایڈووکیٹ
کریم نگر، حیدرآباد
تواریخ ورکشاپ: ٢٩، ٣٠ جولائی، ٢٠٢٣ء
تاریخ تحریر: ٣ اگست ٢٠٢٣ء
اٹھارہ جولائی کو اسلامک فقہ اکیڈمی، دہلی کے پی آر او (پبلک ریلیشن آفیسر) مفتی امتیاز قاسمی صاحب کے توسط سے دو روزہ ورکشاپ کا دعوت نامہ بذریعہ ای میل موصول ہوا، اطلاع پہلے مل چکی تھی کہ فقہ اکیڈمی ایسے علماء کی ایک نشست رکھنے کا ارادہ کر رہی ہے جنہوں نے وکالت کی تعلیم مکمل کر لی ہے یا ابھی زیر تعلیم ہیں، پانچ سال قبل جب راقم نے وکالت پڑھی تھی اس وقت اندازہ نہیں تھا کہ مستقبل قریب میں اس حصولیابی کو مؤقر علماء کی جانب سے قدر کی نگاہوں سے دیکھا جائے گا اور فقہ اکیڈمی جیسا ادارہ باضابطہ ملک بھر سے صرف ایسے علماء کو مدعو کرکے ان کی حوصلہ افزائی کرے گا…
اسلامک فقہ اکیڈمی کے نام سے آشنائی افتاء کے سال سن ٢٠١١ء میں ہوئی، جیسا کہ نام سے ظاہر ہے اس ادارہ کا بنیادی مقصد و ہدف امت کو پیش آنے والے ایسے مسائل میں جو یا تو جدید ہیں اور حکم شرعی کے متقاضی ہیں یا قدیم ہیں لیکن صورت حال کی تبدیلی سے ان کے حکم میں تبدیلی کی ضرورت پیش آرہی ہے تحقیق و جستجو کے بعد اقرب الی القرآن والسنۃ رائے فراہم کرنا ہے، ادارہ اپنے قیام سن ١٩٨٨ء سے برابر اس کاز میں لگا ہوا ہے اور بلا شک و شبہ کامیاب بھی ہے، سیکڑوں تحقیقی کتابیں، فقہی مضامین کے مجوعہ جات، ملک کے طول و عرض میں منعقد ہونے والے فقہی سیمینارس و اجتماعات اس کی کامیابی کی بیِّن دلیلیں ہیں، اس کے بانی قاضی مجاہد الاسلام قاسمی علیہ الرحمہ متوفی ٢٠٠٢ء نے اپنے نام کی طرح مختلف میدانوں میں مجاہدانہ کارنامے انجام دیئے، ایک طرف وہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کے بانیین میں سے تھے اور بورڈ کے تیسرے صدر رہ چکے ہیں تو دوسری جانب انہوں نے فقہ اکیڈمی قائم کرکے بالخصوص ہندی ملت اسلامیہ پر احسان عظیم کیا ہے، اب ان کے بھتیجے مولانا خالد سیف اللّٰه رحمانی صاحب مدظلہ اپنے عظیم عمِّ محترم کے نقوش کو تابندہ رکھتے ہوئے ایک جانب اکیڈمی کے جنرل سکریٹری ہیں تو دوسری جانب پرسنل لاء بورڈ کے پانچویں صدر کی ذمہ داری نبھا رہے ہیں…
اکیڈمی کا یہ دو روزہ ورکشاپ ہفتہ کی صبح شروع ہونا تھا، اسی مناسبت سے جمعہ کی رات ہی بذریعہ ہوائی جہاز دہلی پہونچنا طئے پایا، رفقاء سفر کی سفر میں بڑی اہمیت ہوتی ہے، راہ طویل اور سفر صبر آزما ہو لیکن ہمسفر مزاج آشنا و طبیعت شناس ہو تو راستہ کب کٹتا ہے اور منزل کب آتی ہے پتہ نہیں چلتا لیکن معاملہ اگر اس کے برعکس ہو تو وادی ہائے گل و گلزار کا سفر بھی کانٹے کی طرح چبھتا ہے اور مختصر مسافت بھی میلوں بھری نظر آتی ہے، رفقاء سفر میں میرے عالمیت کے درسی ساتھی مولانا زاہد رضی اللّٰہ بیگ قاسمی، مفتی خُبیب اور مفتی عبد السلام سلمہم تھے، اول الذکر پانچ سالہ ایل ایل بی کا آخری امتحان دے چکے ہیں بس نتیجہ اور رجسٹریشن وغیرہ کی کاروائی باقی ہے، بواقی الذکر وکالت کے دوسرے سال میں حیدرآباد میں زیر تعلیم ہیں اور دو سال قبل ہی عالمیت و افتاء مکمل کئے ہیں، ہم جمعہ کی شب قریب آٹھ بجے دہلی اترے اور مختلف سواریوں سے ہوتے ہوئے پونے دس، دس بجے اکیڈمی پہونچے، قیام کا نظم اکیڈمی کی جانب سے قریبی ہوٹل میں تھا اور عمدہ و آرام دہ نظم تھا…
اگلے دن باضابطہ ورکشاپ شروع ہوا، اکیڈمی کے جنرل سیکرٹری مولانا خالد سیف اللّٰه رحمانی صاحب اور سیکرٹری برائے تعلیمی امور مولانا عتیق احمد بستوی صاحب دامت برکاتہم نے پروگرام کی اہمیت کے پیش نظر دو دن کا مکمل وقت فارغ کیا تھا اور تمام ہی نشستوں میں یہ حضرات شریک رہے، پہلے دن جملہ تین سیشنس ہوئے، پہلے سیشن میں افتتاحی و صدارتی خطاب بالترتیب بستوی و رحمانی صاحبان نے کیا، اس نشست کے مہمان خصوصی سپریم کورٹ کے وکیل ایم آر شمشاد صاحب تھے، شمشاد صاحب مسلم پرسنل لاء بورڈ کے نمائندہ وکلاء میں سے ہیں، کرناٹک ہائی کورٹ کے حجاب سے متعلق فیصلے کو پرسنل لاء بورڈ نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا جس کی پیروی شمشاد صاحب نے ہی کہ تھی، شمشماد صاحب کا موضوع تھا "مذہبی آزادی کی آئینی ضمانت، عدالتی نظیریں اور لازمی مذہبی عبادات کا تصور”، اس موضوع پر وکیل صاحب نے دستور کی شق 25 اور 26 کی روشنی میں مذہبی آزادی اور اس آزادی کو لیکر آزاد ہند میں پیش آمدہ قانونی معاملات کو سپریم کورٹ کے فیصلوں کی نظیروں میں پیش کیا، شمشاد صاحب کا مطالعہ دستور کے تئیں کافی وسیع ہے اور فیصلوں کی پیچھے کی سائنس سے بھی گہری شناسائی رکھتے ہیں، مضمون نگار بھی ہیں، مختلف ویب سائٹس پر ان کے مضامین موجود ہیں…
ایم آر شمشاد صاحب کے بعد ابرار حسن ندوی ایڈووکیٹ نے تبدیلی مذہب قانون پر محاضرہ پیش کیا، پھر باری آئی نہال احمد ندوی ایڈووکیٹ کی جنہوں نے "قانونی تعلیم تک رسائی؛ مسائل، چیلنجس اور حل” کے موضوع پر بسیط گفتگو کی، نہال صاحب نے اپنے طرز خطاب اور عنوان پر اپنی وسیع ترین معلومات اور ان معلومات کو متعینہ وقت کے سانچے میں ڈھال کر چھنی چھنائی بات پیش کرکے حاضرین کو اپنی گرفت میں لے لیا، ان کا تعلیمی پس منظر اور قانونی قابلیت و صلاحیت قابل رشک ہے، وہ سندیپ یونیورسٹی میں لاء کے اسسٹنٹ پروفیسر رہ چکے ہیں اور ابھی پی ایچ ڈی کر رہے ہیں، ان کی تقریر کے بعد پہلا سیشن اختتام کو پہونچا…
دوسرا سیشن عصر کے معاً بعد رکھا گیا، جس کو چلانے کی ذمہ داری راقم کو دی گئی، اس سیشن میں سپریم کورٹ کے دو ایڈووکیٹس محترم ناصر عزیز اور محترم اسعد علوی صاحبان کے خطابات تھے، دونوں حضرات نے ملک کی عدالت عظمی میں کام کرتے ہوئے اپنے بال سفید کئے ہیں، اردو پس منظر سے تعلق ہے، ناصر صاحب شاعری بھی کرتے ہیں تو اسعد صاحب کے مضامین اردو اخبارات کی زینت بنتے رہتے ہیں اور فیس بک ان کے پروفائل تک رسائی حاصل کرکے پڑھے جاسکتے ہیں، ان دونوں نے بالترتیب مسلم عائلی قوانین اور ہندو عائلی قوانین پر گفتگو کی…
تیسرا سیشن مغرب کے بعد تھا جس کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ دو روزہ ورکشاپ کی یہ سب سے دلچسپ اور سب سے قیمتی نشست تھی، اس نشست کی طوالت نے نہ سامعین کو بیزار کیا اور نہ ہی ذمہ داران اکتاہٹ میں مبتلا ہوئے، رات کے قریب گیارہ بجنے تک یہ مجلس چلتی رہی اور مجبوراً اختتام کا اعلان کرنا پڑا ورنہ مزید ایک گھنٹہ بھی بیٹھنے کو کہا جاتا تھا تب بھی کسی کو انکار نہ ہوتا، دلچسپ بات یہ کہ اس نشست میں کسی باہر والے وکیل کو مدعو نہیں کیا گیا تھا اور نہ ہی کسی ایک مقرر کا خطاب تھا بلکہ سبھی شرکاء کو اپنے تعارف کی ذمہ داری دی گئی تھی، یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ جب اس اجلاس کی تحریک شروع ہوئی اور ملک کے مختلف علاقوں میں ایسے علماء کا تفقد کیا گیا تو تقریباً ستر ایسے علماء کا پتہ چلا جو یا تو وکیل بن چکے ہیں یا ابھی تکمیل کے مراحل میں ہیں (واضح رہے کہ ریاست کیرالہ اور بعید ترین علاقوں کی ابھی جانکاری نہیں لی گئی ہے)، اِن ستر میں سے قریب پچاس علماء اس ورکشاپ میں شریک ہوئے، تمام شرکاء کو دو زمروں میں بانٹا گیا، ایک زمرہ ان علماء کا جو ابھی وکالت پڑھ رہے ہیں اور دوسرے وہ جو مکمل کرچکے ہیں اور پریکٹس میں ہیں،جو ابھی وکالت پڑھ رہے ہیں ان کو بس اپنا نام، پتہ اور کس کالج میں پڑھ رہے ہیں وہ بتانا تھا اور وہ علماء جو وکیل بن چکے ہیں اور پریکٹس کررہے ہیں ان سے کہا گیا تھا کہ وہ اس لائن میں آنے کا سبب بتائیں، ساتھ اپنے تجربات ذکر کرتے ہوئے آگے آنے والوں کو جو مشورہ دینا چاہتے ہو دیں…
اس نشست کی خوبی کو کیا بیان کیا جائے، ہر ایک کی کہانی جدا اور ہر ایک کا قصہ مختلف تھا، کسی نے مجلس کو مسکرانے پر مجبور کیا تو کسی کی گفتگو پر قہقہے امڈ پڑے، کسی نے اپنی مجبوریوں کے باوجود یہاں تک پہونچنے کی ایسی تصویر کھینچی کہ آنکھیں پر نم ہوگئیں تو کسی کے خطاب نے سوچنے پر مجبور کردیا، انہی میں اسامہ ندوی بھی تھے جو مولانا کلیم صدیقی صاحب کا کیس لڑ رہے وکلاء میں سے ہیں اور خود ان کے والد حافظ ادریس صاحب ابھی بھی قید میں دن کاٹ رہے ہیں، انہی میں ایک آصف ملک قاسمی بھی تھے جن کے گھر کے حالات ان کے پاؤں کی بیڑی بنے ہوئے تھے، انگریزی تعلیم تو دور دینی تعلیم کے حصول میں بھی ان کے گھر کی غربت راستہ روکے ہوئے تھی، پھر بھی وہ عالم بن کر وکیل بن چکے ہیں، انہی میں پورنیہ کے ایک گاؤں کے رہنے والے نہال احمد ندوی تھے، جو بہار سے نکلے، دہلی پہونچے، ناسک کی ایک یونیورسٹی میں قانون کے معاون پروفیسر بنے، ان کے پاؤں کا قدرتی عذر بھی ان کو روک نہ سکا، بڑے بڑے تعلیمی اداروں میں اپنی چھاپ چھوڑی اور ابھی بھی ان میدانوں میں اپنا لونا منوا رہے ہیں، انہی میں عمر ندوی بھی تھے جو وکالت کے بعد اب جج کی کرسی پر نظر جمائے بیٹھے ہیں، مونس الرحمن ندوی لکھنوی بھی ملے جن کے والدین بھی وکیل ہیں اور لکھنؤ کورٹ میں باقاعدہ ان دونوں کے چیمبرس بھی ہیں، کس کس کا تذکرہ کیا جائے اور کس کس کو یاد کیا جائے، سب کے تاثرات قلمبند کرنے بیٹھیں تو ایک رسالہ تیار ہو جائے، راقم نے بھی دیئے گئے عنوان پر نو منٹ تیس سیکنڈ گفتگو کی، اس نشست کے مہمان خصوصی ڈاکٹر عبد القدیر صاحب (شاہین انسٹی ٹیوٹ) تھے، خالد سیف اللّٰه رحمانی صاحب اور عتیق احمد بستوی صاحب بھی نشست کے اخیر تک ہمہ تک گوش رہے…
اگلے دن طئے شدہ پروگرام کے برخلاف دو نشستوں کے بجائے ایک طویل نشست میں پروگرام سمیٹ لیا گیا، دور جانے والوں کی سہولت پیش نظر تھی نیز ایک دو مہمانان خصوصی کسی عذر کی بنا پر شریک نہیں ہوسکے تھے، اس نشست میں ایک خطاب تو فضیل احمد ایوبی ایڈووکیٹ کا تھا، یہ بھی سپریم کورٹ میں پریکٹس کرتے ہیں، ایوبی صاحب نے نفرت انگیز تقاریر اور اشتعال انگیز بیانات پر بنائے گئے قوانین پر جامع گفتگو کی، دوسرے مہمان ڈاکٹر قاسم رسول الیاس تھے، پرسنل لاء بورڈ کے ترجمان ہیں اور ایک سیاسی پارٹی کے صدر بھی ہیں، عمر خالد کے والد ہونے کی مناسبت سے میں نے ان سے خصوصی ملاقات کی، اس نشست میں ایک اہم گفتگو زاہد فلاحی ایڈووکیٹ نے بھی کی، انہوں نے وکالت کے بعد پریکٹس کے علاوہ کن شعبوں کو اپنایا جاسکتا ہے اس پر تفصیلی روشنی ڈالی، خطابات کے بعد رحمانی صاحب کا صدارتی و اختتامی خطاب ہوا، شرکاء میں اسناد اور مومنٹوز تقسیم کئے گئے، بورڈ کی جانب سے طبع شدہ کتاب "مجموعہ قوانین اسلامی” بھی سب کو ہدیۃً دی گئی، باعتبار ٹرین سفر خرچ بھی اکیڈمی کی جانب سے دیا گیا، جزاھم اللہ…
اس ورکشاپ کا تذکرہ ادھورا رہے گا اگر مفتی عبد اللہ اور مفتی امتیاز صاحبان کا ذکر نہ کیا جائے، عبد اللہ ابھی ممبئی میں سہ سالہ وکالت کے آخری سال میں ہیں اور امتیاز صاحب اکیڈمی کے پی آر او ہیں، مفتی عبد اللہ کی تحریک اور پہل ، امتیاز صاحب کی کوششوں اور زاہد فلاحی، ابرار ندوی، نہال ندوی وغیرہم کی مستقل دلچسپی اور رحمانی صاحب کی سرپرستی و راہنمائی سے یہ پروگرام منعقد ہوسکا، حقیقت یہ ہے کہ اس دو روزہ ورکشاپ کے مکمل تاثرات و احساسات کو کاغذ پر منتقل نہیں کیا جاسکتا، مضمون کے لمبے ہونے اور پڑھنے والوں کے اکتا جانے کے ڈر سے ہاتھ روک کر لکھنا پڑتا ہے، آج کل زیادہ لکھنا کمال نہیں مختصر اور جامع لکھنا کمال ہے کہ اذہان شارٹس کے عادی اور اختصار کے رسیا ہوچکے ہیں…
ہم چاروں مزید ایک دن دہلی میں رہے، اگلے دن یعنی اکتیس جولائی پیر کی شب نو بج کر پانچ منٹ پر فلائٹ تھی لیکن تقریبا ڈھائی گھنٹہ تاخیر سے نکلی، دو اور ڈھائی کے درمیان حیدرآباد پہونچے، میں رات سوا تین بجے سکندرآباد بس اسٹینڈ پر تھا اور ساڑھے چھ بجے کریم نگر اپنے گھر پر…
مضمون نگار سے رابطے یا اپنی رائے کے اظہار کے لئے
9966870275
muftinaveedknr@gmail.com