علیزےنجف
یوم عاشورہ مسلمانوں کی تاریخ میں ہمیشہ سے اہمیت کا حامل رہا ہے زمانہء جاہلیت میں بھی قریش مکہ اس کا بہت احترام کرتے تھے اس دن خانہ کعبہ پر نیا غلاف ڈالتے تھے اور وہ روزہ بھی رکھتے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دستور تھا کہ قریش ملت ابراہیمی کی نسبت سے جو بھی اچھا کام کرتے تھے آپ صہ اس میں اتفاق و اشتراک فرماتے تھے اپنے اصول کے بنا پر آپ اس دن قریش کے ساتھ یوم عاشورہ کا روزہ بھی رکھتے تھے لیکن دوسروں کو اس کا حکم نہیں دیتے تھے لیکن جب آپ مدینہ تشریف لائے اور وہاں یہود کو بھی روزہ رکھتے دیکھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک یہ روایت پہنچی کہ یہ وہ تاریخی دن ہے جس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو اللہ نے فرعون سے نجات دلائی تھی اور فرعون کو اس کے لشکر کے ساتھ غرقاب کردیا تھا تو آپ نے اس دن روزے کا زیادہ اہتمام کیا اور مسلمانوں کو بھی تاکید کی بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں تک فرمایا کہ یہود اس دن ایک روزہ رکھتے ہیں اور ہم مسلمان یہود کی بہ نسبت حضرت موسیٰ علیہ السلام سے زیادہ قربت رکھتے ہیں اس لئے ہم دو روزہ رکھیں گے
یوم عاشورہ بڑا مہتم بالشان اور عظمت کا حامل دن ہے تاریخ کے کئ عظیم واقعات اس دن سے جڑے ہوئے ہیں
اسی دن قلم اور آسمان و زمین کی تخلیق ہوئی اور حضرت آدم علیہ السلام اسی مبارک دن میں پیدا ہوئے اسی دن حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی اور حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی جودی پہاڑ پر ٹھہری اور یہی وہ دن تھا جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خلیل اللہ کا لقب ملا اور ان پر آگ گلزار کر دی گئ اس کے علاوہ اور بھی کئی عظیم واقعات رونما ہوئے موجودہ وقت میں حضرت حسین علیہ السلام کی شہادت سے بھی یہ دن عظمت کا حامل اور ناقابل فراموش ہو گیا
یوم عاشورہ کی تعیین کے سلسلے میں اہل علم کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے بعض روایات میں پایا جاتا ہے کہ یوم عاشورہ محرم کی دسویں تاریخ کو کہتے ہیں اکثر اہل علم اسی کے قائل ہیں لیکن بعض کے نزدیک محرم الحرام کی نویں تاریخ ہے پہلی صورت میں یوم کی اضافت گزشتہ رات کی طرف ہوگی دوسری صورت میں یوم کی اضافت آئندہ رات کی طرف ہوگی غالبا اس اختلاف کا سبب یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم عاشورہ کا روزہ رکھنے کا حکم دیتے وقت فرمایا کہ یہود جو کہ دسویں محرم کو عید مناتے ہیں اور روزہ رکھتے ہیں اس لئے نویں یا گیارہویں محرم کے دن روزہ رکھو اور فرمایا اگر میں آئندہ سال ژندہ رہا تو میں یہود کی مخالفت میں نویں محرم کو روزہ رکھوں گا اس کی تائید حضرت ابن عباس والی حدیث سے بھی ہوتی ہے
الحکم بن اعرج کہتے ہیں کہ میں حضرت ابن عباس کے پاس گیا جبکہ وہ چاہِ زمزم کے پاس اپنی چادر کا تکیہ بنائے ہوئے تھے میں نے کہا کہ مجھے یوم عاشورہ کے بارے میں بتائیے کیوں کہ میں اس کا روزہ رکھنا چاہتا ہوں تو ابن عباس کہنے لگے جب محرم کا چاند نظر آئے تو دن گننا شروع کر دو اور پھر نو تاریخ کی صبح کو روزہ رکھو تو پھر میں نے پوچھا کہ کیا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی دن روزہ رکھتے تھے ؟ ابن عباس کی روایت کی بنیاد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی ارشاد ہے کہ اگر میں آئندہ سال ژندہ رہا تو یہود کی مخالفت میں نویں محرم کو یوم عاشورہ کا روزہ رکھوں گا چنانچہ ابن عباس نے ایک موقع پہ کہا کہ تم لوگ یہود کی مخالفت کرتے رہو نویں اور دسویں محرم دونوں کو روزہ رکھو
یوم عاشورہ کی فضیلت بہت ساری احادیث سے ثابت ہوتی ہے جیسا کہ ایک حدیث میں ہے
حضرت ابنِ عباس سے روایت ہے کہ میں نے نہیں دیکھا کہ آپ کسی فضیلت والے دن کے روزے کا بہت زیادہ اہتمام کرتے ہوں اور بہت زیادہ فکر کرتے ہوں سوائے اس دن یوم عاشورہ کے سوائے اس ماہ مبارک رمضان کے ( بخآری/ مسلم )
حضرت ابو قتادہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خدا کی ذات سے امید ہے کہ اس دن کا روزہ گزرے ہوئے سال کے گناہوں کے لئے کفارہ ہو جائے گا
روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتداءً یہ روزہ فرض تھا ماقبل اسلام سے ہی قریش یہ روزہ رکھا کرتے تھے بعد کو جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو اس روزہ کی فرضیت ساقط ہوگئ
امام ابوحنیفہ کے نزدیک تنہا دس تاریخ کو روزہ رکھنا مکروہ ہے مالکیہ شوافع اور حنابلہ کے نزدیک مکروہ نہیں
گمان کیا جاتا ہے کہ چوں کہ فی زمانہ یہودیوں کے یہاں قمری کلینڈر مروج نہیں اور نہ ہی اس دن روزہ رکھنے کا اہتمام کرتے ہیں اس لئے نو تاریخ کے روزہ رکھنے کی اصل علت یعنی یہود سے تشبہ اور مماثلت موجود نہیں اس لئے تنہا دس محرم کو روزہ رکھنا بھی کافی ہے اللہ اعلم و علمہ اتم (بحوالہ قاموس الفقہ جلد 4 باب صوم )
الغرض ہم مسلمانوں کو عاشورہ کے دن روزے کا اہتمام کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اس کی اہمیت اور فضلیت کے پیش نظر ہمیں پورا دن ذکر خداوندی اور نیک کام میں گزارنے کی کوشش کرنی چاہئے اور اللہ کی خوشنودی طلب کرتے ہوئے اس سے مغفرت کے طالب بننا چاہئے یوم عاشورہ کے متبرک دن ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ ہم بدعات سے پرہیز کریں سنت ثابتہ پہ ہی عمل کریں اس دن کی اصل روح کا خاص خیال رکھیں یہ اسی وقت ممکن ہوگا جب ہم صحیح علم کے حصول کی راہ کو ہموار کرتے ہوئے خود اس پر عمل پیرا ہونے کے لئے سچے ہوں گے وما توفیقی آلا باللہ