~ عبدالمقیت
عبید اللّہ فیضی
آج سے 143 سال قبل شیخ نور محمد صاحب کے گھر ایک ایسے بچے کا ظہور ہوا جس نے آگے چل کر ایک غلام اور محکوم قوم کو آزادی حاصل کرنے کا درس دینا تھا، جس کی شاعری نے مشرق کی اندھیری رات میں ید بیضا کا کام سر انجام دینا تھا، جس نے وقت کے ابلیس کی مجلس شوریٰ اور اسکے کارندوں کے بارے میں امت کو آگاہ کرنا تھا-
وہ جوان جب لندن گیا تو تہذیب مغرب نے اسکی آنکھیں خیرہ نہیں کی اور پکار اٹھا…
"خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوہ دانش افرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف”
اس نے ملائیت، خانقاہیت اور سرمایہ دارانہ جمہوریت کی نفی کرکے اسے امت کے لئے زہر ہلاہل قرار دیا، اس نے ایک گراں خواب قوم کو جگانے کے لئے آذان دی جسکی بازگشت آج تک سنائی دے رہی ہے-
وہ عرب و عجم اور ترک و ایراں سب کا شاعر تھا، وہ بلبل باغ حجاز تھا، اسکی نغمہ عاشقانہ ہزاروں سال تک سنی جائے گی-
اقبال نے اپنی شاعری میں ایسے بہت سے نکات پر روشنی ڈالی ہے جن پر عام لوگوں کی نظر نہیں پہنچ سکی، انھوں نے اردو شاعری کے ذریعے ایسے بہت سے گوشے بے نقاب کر دیئے جو ابھی تک پر اسرار راز بنے ہوئے تھے۔ انھوں نے سب سے پہلے شاعری میں ایسی علامات اور ایسے الفاظ استعمال کیے جو اس سے پہلے مستعمل نہیں تھے۔ ملی معاملات ہوں یا غیر ملی معاملات، ان کی دیدہ بینا بہت سی نادیدہ باتوں کی تہہ تک پہنچ جاتی تھی۔ اردو ادبیات میں علامہ نے سب سے پہلے اس قسم کے الفاظ استعمال کیے….
خودی، اٹھو، جاگو، رست خیز، برخیز، انقلاب، از خواب گراں خواب گراں خواب گراں، کمر بستہ ہونا، کفن بدوش ہونا وغیرہ….
اقبال کی شاعری اور نثری تخلیقات ہمیں آزادی، حب الوطنی اور قومی جذبے کا پیغام بھی دیتی ہیں۔ اقبال کا پیغام اپنی شاعرانہ اور فلسفیانہ تخلیقات کے ذریعے ہماری زندگی کے تمام اہم اور ضروری شعبوں میں ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ یہ ہمیں ایک بہتر زندگی اور ایک بہتر انسان بننے کی طرف رہنمائی کرتا ہے جو کہ کامیاب اور خوش حال لوگوں کی خصوصیات ہیں۔
علامہ اقبال صاحب نے 12000 سے زیادہ اشعار کہے جن میں سے 7000 اشعار فارسی زبان میں ہیں-
آج کے اس یومِ رحلت پر ان کی ایک خوبصورت نظم ملاحظہ فرمائیں….
دنيا کي محفلوں سے اکتا گيا ہوں يا رب
کيا لطف انجمن کا جب دل ہي بجھ گيا ہو
شورش سے بھاگتا ہوں، دل ڈھونڈتا ہے ميرا
ايسا سکوت جس پر تقرير بھي فدا ہو
مرتا ہوں خامشي پر، يہ آرزو ہے ميري
دامن ميں کوہ کے اک چھوٹا سا جھونپڑا ہو
آزاد فکر سے ہوں، عزلت ميں دن گزاروں
دنيا کے غم کا دل سے کانٹا نکل گيا ہو
لذت سرود کي ہو چڑيوں کے چہچہوں ميں
چشمے کي شورشوں ميں باجا سا بج رہا ہو
گل کي کلي چٹک کر پيغام دے کسي کا
ساغر ذرا سا گويا مجھ کو جہاں نما ہو
ہو ہاتھ کا سرھانا سبزے کا ہو بچھونا
شرمائے جس سے جلوت، خلوت ميں وہ ادا ہو
مانوس اس قدر ہو صورت سے ميري بلبل
ننھے سے دل ميں اس کے کھٹکا نہ کچھ مرا ہو
صف باندھے دونوں جانب بوٹے ہرے ہرے ہوں
ندي کا صاف پاني تصوير لے رہا ہو
ہو دل فريب ايسا کہسار کا نظارہ
پاني بھي موج بن کر اٹھ اٹھ کے ديکھتا ہو
آغوش ميں زميں کي سويا ہوا ہو سبزہ
پھر پھر کے جھاڑيوں ميں پاني چمک رہا ہو
پاني کو چھو رہي ہو جھک جھک کے گل کي ٹہني
جيسے حسين کوئي آئينہ ديکھتا ہو
مہندي لگائے سورج جب شام کي دلھن کو
سرخي ليے سنہري ہر پھول کي قبا ہو
راتوں کو چلنے والے رہ جائيں تھک کے جس دم
اميد ان کي ميرا ٹوٹا ہوا ديا ہو
بجلي چمک کے ان کو کٹيا مري دکھا دے
جب آسماں پہ ہر سو بادل گھرا ہوا ہو
پچھلے پہر کي کوئل، وہ صبح کي مؤذن
ميں اس کا ہم نوا ہوں، وہ ميري ہم نوا ہو
کانوں پہ ہو نہ ميرے دير وحرم کا احساں
روزن ہي جھونپڑي کا مجھ کو سحر نما ہو
پھولوں کو آئے جس دم شبنم وضو کرانے
رونا مرا وضو ہو، نالہ مري دعا ہو
اس خامشي ميں جائيں اتنے بلند نالے
تاروں کے قافلے کو ميري صدا درا ہو
ہر دردمند دل کو رونا مرا رلا دے
بے ہوش جو پڑے ہيں، شايد انھيں جگا دے
اردو کے اس عظیم شخصیت کو یومِ وفات پر خراج عقیدت پیش کرتے ہیں-