ارمان دلکش ندوی
خون دل میں انگلیاں ڈبو کر یہ خبر تحریر کر رہا ہوں کہ وقت کہ دامن میں مثبت طرز فکر کے موتی لٹانے والا اب ہمارے درمیان نہیں رہا۔یہ کہتے ہوئے قلم کا جگر کانپ رہا ہے کہ امت کے ہاتھ میں امن کا جام تھمانے والا ‘آخرت کے ائیرپورٹ کی طرف روانہ ہو گیا’جی ہاں! بین الاقوامی شخصیت،مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدر،دارالعلوم ندوة العلماء کے ناظم اعلی اور حضرت مولانا علی میاں ندوی رح کے چشم و چراغ حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی رح 13اپریل کو بادہ عشق ومحبت پی کر مستانہ ہوگئے۔وقت کے نازک لبوں کو واقعی اس خبر نے چیر کر رکھ دیا،دل کے چمن میں جیسے خزاں کا موسم آگیا،وجود کے شجر سے جیسے مسرت کے پتے بکھرنے لگے،جسم کے شہر میں جیسے مسکراہٹ کی راہیں جام ہونے لگیں،خوشی کا جہاز جیسے کسی بلند چٹان سے ٹکرا کر پاش پاش ہوگیا۔اور خدا کی قسم کچھ دیر کے لئے ایسا لگا جیسے زندگی نے اپنی ساری معنویت کھودی ہے،اس کے حسن کو جیسے گہن لگ گیا ہو،اس کی خوبصورتی پر جیسے کسی نے چار تکبیریں پڑھ دی ہوں۔
خدا کی قسم یہ صرف الفاظ کے میخانے نہیں بلکہ "میرے ٹوٹے ہوئے دل کے درد انگیز نامے ہیں ” کاش میں آپ کے سامنے اپنے جذبات کی ترجمانی کرسکتا،کاش اس کی بھی کوئی زبان ہوتی اور اس وقت ہمارے دل کی جو حالت ہے اسے میں کلیم عاجز کی زبان میں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں۔
پہلو میں ہمارے دل کیسا دل پر تو قیامت بیت گئی
مرجھایا ہوا ایک غنچہ ہے ٹوٹا ہوا ایک پیمانہ ہے