مسلمان اور خاندانی منصوبہ بندی

Spread the love

حفظ الرحمٰن ابنِ مولانا عبد القوی

رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب اولاد آدم وفات پا جاتا ہے تو تین عمل کے سوا اس کے دوسرے اعمال رک جاتے ہیں۔ وہ تین اعمال یہ ہیں۔ (۱) صدقہ جاریہ (۲) نفع پہونچانے والاعلم (۳) نیک اولاد جواس کے لئے دعائیں کرے۔ (اذامات ابن ادم انقطع عمله الا من ثلاث. صدقة جاریۃ او علم ينتفع به او ولدصالح يدعوله (صحيح مسلم كتاب الوصيه ))۔

خالص آخرت کے اعتبار سے نیک اولاد (ولد صالح) مؤمن کے لئے اللہ کی بڑی نعمت ہے۔کیوں کہ انسان موجودہ زندگی کے دن پورا کرنے کے بعد کھانے اور کپڑے کا محتاج نہیں رہتا ہے چاہے وہ عورت ہو یا مرد۔لیکن اسے دعاؤں اور نیکیوں کی ضرورت رہتی ہے۔یہ نیکی وہ سکہ ہے جس کی آخرت کی زندگی میں ضرورت ہوگی۔اس کے علاوہ مزید فائدہ یہ ہے کہ نیک اولاد کی وجہ سے ماں باپ کو دنیا میں بھی عزت ملتی ہے اور ماں باپ کی آنکھیں ٹھنڈی اور نام روشن ہوتے ہیں۔ نیک اولاد دنیا میں خیر اور بھلائی کو ظہور میں لانے، باقی رکھنے اور پھیلانے کا ذریعہ بنتی ہیں اور برائیاں ان کے دم سے کمزور پڑتی اور مٹتی ہیں۔اس لئے جو عورت اور مرد اس نیت سے نکاح کرتا ہے اور صالح تربیت کر کے اسے صالح بنا کر سماج میں اچھے انسان کا اضافہ کرتا ہے وہ یقیناً انسانیت کا محسن ہے۔کیونکہ انسانی آبادی میں خیر و بھلائی برے لوگوں کے ذریعے وجود میں آسکتی ہے اور نہ برائیاں اور بد امنی صالح، نیک اور شریف طبیعتوں کو رہتے ہوئے ترقی پا سکتی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم شادی کرو، میں تمہاری تعداد میں زیادتی پر فخر کروں گا۔ وتزوجو فاني مكاثر بکم الامم (ابن ماجہ)۔
ایک مرتبہ ارشا د فرمایا کہ خوب محبت کرنے والی اور زیادہ بچوں کی ماں بننے والی سے نکاح کرو۔ میں قیامت کے دن تمہاری تعداد میں زیادتی پر دوسرے نبیوں کے مقابلے میں فخر کروں گا ۔ ( تزوجو الودود الولود. فانى مكاثر بكم الأمم الانبياء يوم القيامة. (ابو داؤد، كتاب النكاح)۔ اب کون کہہ سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم امت کے ایسے افراد پر بھی فخر کریں گے جو اس دنیا میں خیر کے بجائے شر اور بھلائی کے بجائے برائی کے نمائندہ بنے ہوئے تھے۔ چوں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم صالح اور نیک لوگوں پر فخر کر سکتے ہیں فاسقوں اور دنیا پرستوں پرنہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس ترغیب میں یہ حکم پوشیدہ ہے کہ ہر عورت اور مرد اپنی اولاد کی شکل میں امت میں نیک اور صالح افراد کا اضافہ کرنے کی کوشس کرے تا کہ ہر زمانے میں اس مقصد کے لئے افرادی قوت حاصل رہے جس کے لئے یہ امت برپا کی گئی ہے۔ایسا اضافہ یقینی طور پر اللہ کے رسول کے لئے قیامت کے دن فخر کا باعث بنے گا۔ بری اولادیں جب اس دنیا میں اچھے باپ کے لئے فخر کا سبب نہیں بن سکتیں تو پھر وہ قیامت کے دن رسول اللہ کے لئے فخر کا باعث کیسے ہو سکتی ہیں۔

اس گفتگو سے ظاہر ہے کہ نیک اولاد کے حصول کے ارادے سے نکاح کرنا اور اولاد کی نعمت مل جانے کے بعد ان کو نیک اور صالح بنانے کے لئے مناسب تعلیم، تربیت اور تدبیر اختیار کرنا ایسا عظیم عمل ہے جو ایک عام عورت اور مرد کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے فخر کا سبب بنا دیتا ہے۔ یہ عمل انسانیت کا محسن بھی بنا دیتا ہے کیونکہ ہر بچہ جب بڑا ہوتا ہے تو سماج کے بیچ زندگی گزارتا ہے، عام زندگی کو متاثر کرتا اور کوئی ایک یا کام اختیار کرتا ہے۔ نیک انسان اپنا سماجی اور معاشی کردار انسانوں کو نفع پہونچانے کے ارادے سے ایمان دارانہ طور پر ادا کرتا ہے۔ اگر ان نیک افراد میں سے کوئی وزیر بنے تو وزارت کے فرائض اس طرح نبھائے گا کہ اس کا فائدہ ہر حقدار کو پہونچے گا ۔ اس کی ایمانداری اس کے اندر موجود تقویٰ اسے کسی طبقہ کے ساتھ اسے امتیازی برتاؤ

کرنے نہیں دے گا ۔ اگر وہ ڈ اکٹر بنا تو خود کو خلق کا خادم تصور کرے گا۔اس کی نظر مریض کی شفا یابی پر ہوگی، اس کے جیب سے نکلنے والے پیسے پر نہیں۔ وہ کبھی اتنا بے ضمیر نہیں ہو سکے گا کہ مریض کا گردہ بیچ کر اپنے لئے عیش کا ایک محل تعمیر کرے ۔ یہاں تک کہ وہ اگر مزدوری بھی کرے گا تو پوری محنت اور ایمانداری سے کام کر کے اپنی مزدوری کو حلال کرنا چاہے گا زیادہ کمانے کے ارادہ سے کام چوری نہیں کرے گا۔ درست زاویے سے دیکھئے تو ادراک ہوگا کہ ایک نیک مزدور بھی سماج کے لئے ایک نعمت ہے۔ اس کے بر عکس ایک غیر صالح اور مفاد پرست فرد ترقی کی جتنی منزلیں طے کرے انسانیت کے لئے وبال بنتا جائےگا۔ اگر اس کے ہاتھ میں اقتدار آجائے تو اس کے ناجائز استعمال سے انسانی آبادی کے ایک بڑے حصے کو ظلم وستم کی چکی میں پیس کر تباہی کے دہانے پر پہونچا دے گا۔اسے انسان کی پریشانیوں کے حل سے کوئی خاص دلچسپی نہیں ہوگی بلکہ اپنے مفادات کے لئے سرمایہ داروں سے گٹھ جوڑ کر کے پوری آبادی کے استحصال کا آلہ بن جائے گا۔ ان نکات کو سامنے رکھتے ہوئے غور کرنے سے یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ آبادی میں اضافہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے سرے سے کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ مادہ پرستانہ تربیت کے نتیجے میں لوگوں میں خود غرضی ، مادہ پرستی اور خواہش پرستی بہت زیادہ بڑھ گئی ہے ۔جب پالیسی بنانے والے دماغ اور نافذ کرنے والے ہاتھ ایمان دار نہ ہوں تو ملک کے مادی وسائل معاشی اور سماجی ادارے، سرکاری اسکیمیں اور تعلیمی نظام عوام کو نفع پہونچانے کے بجائے صرف ایک طبقہ کے ارد گرد گردِش کرتے رہتے ہیں اور غالب اکثریت کی محرومی بڑھتی ہی چلی جاتی ہے

آج کی معاشی اور سماجی ناہمواریاں مادی وسائل کے فقدان کا نہیں بلکہ ایمانداری کی کمی، زندگی کے مادہ پرستانہ تصور ،استحصالی ذہنیت، سرمایہ دار رخی پالیسی کا نتیجہ ہے ۔ رہا آبادی اور وسائل کا معاملہ۔ تو تاریخ گواہی دیتی ہے کہ آبادی میں بڑھوتری کے ساتھ ساتھ ان کی ضرورتوں کے مطابق وسائل وجود میں آنے لگتے ہیں۔اخیر کے دو صدی میں آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے لیکن سائنسی انکشافات اور ایجادات میں ایسی ہمہ جہت ترقی ہوتی رہی اورمتوقع مسائل کا حل بنتی رہی۔ یہ ان ایجادات ہی کا کمال ہے کہ کل جس رقبے پر ایک خاندان کی رہائش بھی مشکل تھی اسی رقبے پر بیس خاندانوں کی رہائش نسبتاً بہتر انداز سے ہو سکتی ہے۔کیا مشینی ترقی اور برقیاتی ایجادات وجود میں نہیں آتے تو یہ کرشمہ کہ اتنی ہی رقبہ پر بیس (۲۰) خاندان کی رہائش ممکن ہو پاتی جتنی میں کل ایک یا دو کی ہوتی تھی۔ تکنیکی ترقی نے کس حد تک فاصلے سمیٹ دیئے ہیں۔آج ایک بر اعظم کی پیداوار کو دوسرے بر اعظم کے کسی پچھڑے ہوئے گاؤں میں ہفتہ سے کم مدت میں محفوظ رکھتے ہوئے پہونچانا معمولی سی بات ہے۔انکشاف اور ایجاد کی حیرت میں ڈال دینے والی یہ تاریخ گواہی دے رہی ہے کہ انسانی ذہن کائنات میں چھپے امکانات کا درست اندازہ نہیں کر پاتا ہے اور گھبرا اٹھتا ہے۔لیکن جوں جوں وقت گزرتا ہے ان کی گھبراہٹ بے معنیٰ ہوتے چلی جاتی ہیں۔خدشات وہم ثابت ہوتے ہیں،کوئی ایک یا کئی ایجاد اس کا حل بن کر سامنے آجاتی ہے۔ہمارے موجودہ معاشی چیلنجز بڑھتی ہوئی آبادی کا نتیجہ نہیں بلکہ غلط معاشی پالیسی اور اقدامات کا نتیجہ ہے۔

اکسفیم انڈیا کے مطابق صرف دس فیصد لوگوں کے ہاتھ میں ملک کی بہتر فیصد (72%)دولت ہے۔صرف پانچ فیصد کے ہاتھ میں باسٹھ فیصد اور ایک فیصد کے ہاتھ میں چالیس اعشاریہ چھ فیصد دولت ہے۔ اس کے مطابق سو افراد کی مشترکہ دولت چون اعشاریہ ایک دو (54.12) لاکھ جبکہ صرف دس افراد کی مشترکہ دولت ستائیس اعشاریہ پانچ دو (27.53) لاکھ کروڑ ہے اور ان کی دولت میں 2021 کے مقابلے میں اب تک %32.8 کی بڑھوتری ہوئی ہے۔ ایک طرف یہ تصویر ہے۔ تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ ملک کے پچاس فیصد افراد کے ہاتھوں میں ملکی دولت کا صرف تین فیصد ہے اور اس میں دن بہ دن کمی آرہی ہے۔ قومی آمدنی میں ان کا حصہ محض %13 فیصد ہے۔ کیا دولت کا یہ ارتکاز اور اس میں ہو رہے اضافے ، اقتصادی میدانوں میں مضبوط ہو رہی اجارہ داری جس کے نتیجے میں مالدار مالدار تر اور مفلس مفلس تر ہوتے جارہے ہیں، بڑھتی ہوئی آبادی کا نتیجہ ہے؟ جب ایک طرف بڑھتا ہوا ارتکاز اور مضبوط ہو رہی ہوتی اجارہ داری ہو اور دوسری طرف اآدھی سے زیادہ آبادی بنیادی ضرورتوں اور سہولتوں سے بھی محروم ہو،ایک طرف گوداموں میں پڑے غلے سڑ جاتے ہوں اور کسان اپنی پیداوار کو مناسب سے کم قیمت پر بیچنے پر مجبور ہوں اور دوسری طرف ایک تعداد فاقہ کشی پر مجبور ہوں تو اسکا الزام ظالمانہ اقتصادی نظام تقسیم دولت میں بے قاعدگی مالداروں کی حد سے بڑھی ہوئی خود غرضی اور حکمرانوں کی غلط اقتصادی پالیسی اور مفاد پرستانہ اقدامات پر لگانے کے بجائے بڑھتی ہوئی آبادی کے سر تھوپنا اپنی غلطیوں کو دوسرے کے خانے میں ڈال دینا ہے۔ کیا محض آبادی گھٹا دینے سے یہ ناہمواریاں دور ہو جائیں گی اور کیا آبادی گھٹائے بغیر صرف تقسیم دولت کو منصفانہ کردیا جائے تو یہ مسائل حل نہیں ہوں گے
"صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لئے”

چونکہ آج کے انسانوں کے سوچ اور تجزیئے کا کی سمت غلط ہے۔اس لئے کوشش کا رخ بھی غلط ہو چکا ہے۔ اصل عوامل کو مضبوط تر کرتے ہوئے سارا زور اس عامل پر صرف کیا جا رہا ہے جو صرف ایک خیالی عامل ہے۔ ۔ موجودہ اقتصادی، اقتصادی اور سماجی بحران کا حل بڑھتی ہوئی آبادی کو کنٹرول کرنے میں نہیں ہے۔ بلکہ ہر شعبہ کو ایسے افراد مہیا کرنے میں ہے جو اپنے شعبے کا حق ایماندارانہ طور پر پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ ادا کر سکیں۔ اس حوالے سے مروجہ خاندانی منصوبہ بندی کے بجائے دوسری طرح کی خاندانی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ ایسی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے جس کا مقصد آبادی کو مصنوعی طریقہ سے ضبط کرنے کے بجائے لوگوں کو بچوں کی بہتر تعلیم اور اچھی اخلاقی تربیت کے لئے ایسا منصوبہ بنانا اور ایسا طریقہ اختیار کرنا سکھایا جاتا ہو جس کے مطابق ماحول سازی کر کے لوگ اپنے بچوں کو اللہ کے نیک بندے، ملک کے اچھے شہری اور سماج کے بے لوث خادم بناسکیں اور اسی کے ساتھ ذی استعداد، پیشہ ورانہ طور پر ماہر اور با ضمیر تعلیم یافتہ بھی۔ ایسے نو نہال ہی مستقبل میں ملک اور ملت بلکہ پوری انسانیت کے لئے نفع بخش ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس منصوبہ بندی سے ہر شعبہ کے لئے ایسے ایماندار اور با صلاحیت افراد مہیا ہو سکیں گے جس کی ملک کو آج کثیر رخی بحران کے اس دور میں سخت ضرورت ہے۔ ہائے افسوس اس جانب کوئی خاص توجہ نہیں ہے۔ مسلمان چونکہ امت وسط ہیں، عدل و انصاف کے حوالے سے انہیں اللہ کے سامنے جواب دینا ہے۔اس لئے ان کا فرض ہے کہ وہ ایسی خاندانی منصوبہ بندی پر پورا زور لگادیں۔ اور ملک کو ہر شعبہ کے لئے مخلص، ایماندار اور ذی استعداد افراد فراہم کرنے کی ذمہ داری قبول کریں تاکہ مستقبل قریب میں یہ ملک ہر طرح کے بحران سے نکل سکے۔ جو ماں باپ اس اعلیٰ سوچ کے ساتھ پوری توجہ اور محنت سے منصوبہ بند انداز میں یہ کام کریں گے وہ ان شاءاللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے قیامت کے دن فخر کے سبب بھی بنیں گے اور ملک اور انسانیت کے لئے حضرت یوسف علیہ السلام کی سنت ادا کرنے والے افراد فراہم کرنے والے بھی۔ وفات کے بعد بھی ان کی نیکیوں میں اضافہ ہوتا رہے گا اور ان کے بچے دنیا کو ہر طرح کے بحران سے اسی طرح نکال رہے ہوں گے جیسے حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے زمانے میں مصر کو نکالا تھا۔

Leave a Comment