پروین شاکر کی غزلوں میں کرب کا احساس

Spread the love

خوشبو پروین قریشی
ریسرچ اسکالر ( اردو)
یونی ورسٹی آف دہلی

اُردو ادب کی دنیا کہیں یا اردو شاعری کی دنیا اِس جانب صنف نازک بہت کم ہی قدم رنجا ہوئیں لیکن جو اس راہ کی مسافر بنیں انہوں نے اس کو ایک نئی جہت بخشی ایک نئے رنگ سے آہنگ کیا زمانہ قدیم سے ہم سنتے آرہے ہیں کہ عورتوں کی زندگی مشکل ہوتی ہے اور کسی کسی عورت کی زندگی تو مشکل ترین ہوتی ہے لیکِن اس کے بعد بھی اگر کوئی صنف نازک ادب کی طرف مائل ہوتی ہیں یا شاعری کرتی ہیں تو اس وقت وہ اپنی شاعری میں اپنی زندگی کی اپنے دل کے تمام دریچے وا کر دیتی ہیں ایسی ہی ایک شاعرہ 24 نومبر 1951 کو کراچی میں پیدا ہوئیں جنہیں آج اردو ادب کی دنیا پروین شاکر کے نام سے جانتی ہیں پروین شاکر کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ان کی شخصیت کو منفرد بنایا ان کے انداز بیان، ان کے لب و لہجے، اور انکے بے باکانہ انداز نے پروین شاکر نے کم عمری میں ہی شاعری شروع کر دی تھی ان کے نانا حسن عسکری اچھا ادبی ذوق رکھتے تھے انہوں نے ہی پروین شاکر کی توجہ شاعری کی جانب مبذول کرائی خوشبو کے نام سے پہچانی جانے والی یہ شاعرہ اردو کا وہ درخشندہ ستارہ ہیں جو زندگی کے بعد بھی جگمگا رہا ہے ۔۔

پروین شاکر کو شہرت و مقبولیت کے لیے لمبے انتظار سے نہیں گزرنا پڑا کم عمری میں ہی ان کے چار مجموعے خوشبو، صدبرگ، خودکلامی اور انکار منظرعام پر آگئے تھے ان کی شہرت کی وجہ کم عمری میں ان کی کتابوں کی تعداد نہیں تھی ان کی مقبولیت کی اصل وجہ تھی ان کا اسلوب ان سے پہلے کسی شاعرہ نے نسوانی جذبات و احساسات کو اتنی نزاکت سے اپنے اشعار میں قلمبند نہیں کیا تھا اُن کے پہلے مجموعہ کلام” خوشبو” میں صرف محبت نظر آتی ہے اور یہ بات بھی جگ ظاہر ہے کہ جہاں محبت ہوتی ہے وہاں بغاوت کی بو بھی محسوس ہوتی ہے ایسا ہی ان کی شاعری میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے ۔خوشبو سے مسحور یہ شاعرہ اپنے مجموعہ کلام میں لکھتی ہیں کہ

"” جب ہولے سے چلتی ہوئی ہوا نے پھول کو چھوا تھا تو خوشبو پیدا ہوئی تھی””

خوشبو کو محسوس کرنے والی رنگوں سے کھیلنے والی یہ شاعرہ شوہر سے علیحدگی کے بعد ٹوٹ گئی شادی کے ٹوٹ جانے کی وجہ سے انہیں ڈپریشن کے دورے پڑنے لگے اور وہ سکون دل کے لیے بے قرار رہیں۔ شادی ٹوٹنے کی وجہ کیا تھی اس کا کسی کو علم نہیں ہے جبکہ شادی ان کے خالہ کے لڑکے نصیر علی کے ساتھ باہمی رضامندی سے ہوئی تھی،رشتے کے ٹوٹنے کے درد نے انہیں نڈھال کر دیا تھا جو ان کے اشعار میں جا بجا دیکھنے کو ملتا ہے اپنی اس تکلیف کوشعر کی شکل میں اس طرح کہنے میں کامیاب نظر آتی ہیں

چلنے کا حوصلہ نہیں رکنا محال کر دیا
عشق کے اس سفر نے تو مجھ کو نڈھال کر دیا

اس غزل کا محض ایک شعر نہیں بلکہ یہ مکمل غزل ان کی زندگی میں ہورہے نشیب و فراز کا آئینہ دار معلوم ہوتا ہے اس غزل کا ایک ایک شعر ان کے کرب کی ترجمانی کرتا ہوا محسوس ہو رہا ہے ایک عورت بیٹی، بہن، بیوی اور ماں کے علاوہ اگر دیکھیں تو وہ سراپا محبت ہوتی ہیں ان کا ہر روپ محبت کا پیکر ہوتا ہے اس کے باوجود ہر رشتہ اس سے ہر قدم پر قربانی چاہتا ہے ایک عورت کتنی مجبور ہوتی ہے پروین شاکر کے اس شعر سے اندازہ لگائیں

میرے لبوں پہ مہر تھی پر میرے شیشہ رو نے تو
شہر کے شہر کو مرا واقف حال کر دیا

پروین شاکر جہاں ایک عورت ہیں وہیں وہ ایک بیوی ہے ایک ماں ہے انہوں نے جس زندگی کو جیا اس کا حق ادا کر دیا جہاں ایک بیوی رہ کر اپنے شوہر سے محبت کا برملا اظہار کرتی ہیں وہیں جب عورت کے روپ میں سامنے آتی ہیں تو وہاں مردوں کے استحصال کے خلاف احتجاج کرتی ہوئی نظر آتی ہیں اور جہاں ماں ہیں وہاں محبت کا سمندر بہا دیتی ہیں لیکن اس کے باوجود محرومیاں ان کا مقدر بنی رہیں۔ اپنے ایک شعر میں اس محرومی کو انہوں نے بڑے ہی سلیقے سے پیش کیا ہے ۔

میں سوچتی ہوں کہ مجھ میں کمی تھی کسی شے کی
کہ سب کا ہوکے رہا وہ بس اک مرا نہ ہوا

یہ شعر اس حقیقت کی غمازی کرتا ہے کہ پروین شاکر کو محبت، خلوص اور وفا کے بدلے بے وفائی،تنہائی اور محرومی ملی

اردو ادب میں سچے نسائی جذبات و احساسات کی شاعری بہت کم ہوئی لیکن پروین شاکر نے اردو ادب کو اودو شاعرات کو ایک نيا ذہن دیا، ایک نیا نظریہ دیا غزل اور نسائیت کی بات اگر کسی محفل میں ہوتی ہے تو ہمارا ذہن یکایک پروین شاکر کے نام کی طرف گردش کرنے لگتا ہے ۔غزل اور نسائیت سے متعلق پروین شاکر کے بارے میں ایک اقتباس ہے جو اردو شاعری میر سے پروین شاکر تک کتاب سے ماخوذ ہے

"”غزل کی دنیا میں پروین شاکر ایک عہد آفریں شاعرہ بن کر آئیں اور اپنی نسائی آواز اور چونکا دینے والے اسلوب سے اردو شاعرات میں ہلچل مچا دی پروین شاکر کی شاعری میں صنف نازک کی بے چارگی اور بے بسی کا ایسا درد بھرا ہوا ہے جو اس ہرنی کے انداز سے بھرا ہوا ہوتا ہے جو چاروں طرف سے شکاریوں سے گھر چکی اور بے چارگی اور بے بسی سے نتھنے کو رگڑ رہی ہو کیونکہ غزالہ کے معنی ہرنی ہوتے ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ اردو شاعری میں اس صنف سخن کو غزل کہا جانے لگا "””

(اردو شاعری میر سے پروین تک مضمون پروین شاکر از قاضی مشتاق احمد )

پروین شاکر نے محبوب کی بے رخی بے توجہی اور بے وفائی کو جس طرح اپنی شاعری میں بیان کیا ہے پرویا ہے ان کے اس انداز بیان اور طرز تحریر نے انہیں اپنی ہم عصر شعراء میں ممتاز بنا دیا ۔وہ جب ایسے اشعار کہتی ہیں تو جہاں ان کا انداز جاز شاکیانہ ہوتا ہے وہیں ملتجیانہ اور پر امید بھی ہوتا ہے جہاں وہ محبوب کی بے رخی سے دل گیر ہوتی ہیں وہیں وہ درپردہ اس کا اظہار بھی کرتی ہیں کہ وہ اپنی جانب محبوب کی توجہ مبذول کرانے کا ہنر خوب رکھتی ہیں ۔۔

اسی کوچے میں کئی اس کے شناسا بھی تو ہیں
وہ کسی اور سے ملنے کے بہانے آئے

اب تو اس راہ سے وہ شخص گزرتا بھی نہیں
اب کس امید پہ دروازے سے جھانکے کوئی

اب نہ پوچھوں گی میں کھوئے ہوئے خوابوں کا پتہ وہ اگر آئے تو کچھ بھی نہ بتانے آئے

پروین شاکر کے متعلق خلیق الزماں نصرت نے کیا خوب لکھا ہے ۔۔

"”پروین شاکر کی غزلوں میں نسوانیت کی وہ چیخ اٹھی ہوئی ہے جو ایک غیر مطمئن روح سے ابھری ہے جو ایک طرف سے شاخِ گُل ہے تو دوسری طرف تلوار بھی ہے ۔انسانی سماج کی ایک عام عورت جو رشتوں میں بندھی ہوئی ہے ایک ایسی شاخ ہے گل ہے جس پر مرجھائے ہوئے باسی پھول ٹنگے ہوتے ہیں۔ ازدواجی زندگی کی ناخوشی اور عدم توازن کے سبب ان غزلوں میں نسوانی جذبات کی حقیقی عکاسی تو ملتی ہے لیکن ایسی عکاسی جو ایک بااختیار صاحب وسیلہ نسائیت کا عکس ہو اس کے عہدے پر فائز ایک ایسی بااختیار تلوار کی جھنکار صاف سنائی دیتی ہے جس میں رزمیے کی نہیں مرثیے کی لے پائی جاتی ہے جنس کی نا آسودہ تڑپ کا اظہار پایا جاتا ہے ہے "””

( کتاب اردو شاعری میر سے پروین شاکر تک مضمون” پروین شاکر” قاضی مشتاق احمد )

پروین کی شاعری میں محبوب کے ہر رنگ کی آمیزش ملتی ہے کہیں ان کا محبوب ان کو زندگی کے حسین خواب کی سیر کراتا ہے تو دوسری طرف زندگی میں تلخیوں کا خزانہ بھر دیتا ہے لیکن پھر بھی ان کا ظرف دیکھئے اسی پریشانی کو وہ اپنی زندگی کا معمول اور سہارا بنا لیتی ہیں المختصر ہم پروین شاکر کے تعلق سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ پروین کی شاعری ہر اعتبار سے اہم ہے ان کا منفرد لب و لہجہ، درد میں مسکرانے کی ادا ،اُن کا اسلوب، زبان و بیان اور تشبیہات و استعارات ہر لحاظ سے ان کی شاعری اپنے ہم عصروں میں نمایاں مقام رکھتی ہیں

Khushboo Perween Quraishi
University of Delhi ( Urdu)
Resurch Ischolar
Haji colony Ghaffar Manzil
Jamia nagar New Delhi India
Pin 110025
Mo 7644096273
khushboolkr93@gmail.com

Leave a Comment