خدیجہ خاتون: متعلمہ شعبہ صحافت و ترسیل عامہ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی
دنیا بھر میں 08 مارچ کو یوم خواتین منایا گیا – جو کہ زبردست جوش و خروش کے ساتھ ہندوستان میں بھی منایا گیا- سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کی طرف سے سینکڑوں پروگرام منعقد کئے گئے-
ہر سال اس موقع پر میڈیا سے سوشل میڈیا تک تہوار جیسا ماحول بنا دیا جاتا ہے، پیغامات کا تو سیلاب جیسا ہی ہو جاتا ہے- یومِ خواتین کا سلسلہ نیویارک سے شروع ہوا تھا جہاں خواتین نے اپنی ملازمت کی شرائط کو لےکر مظاہرہ کیا تھا پھر 1908 میں امریکہ کی سوشلسٹ پارٹی نے خواتین کے مسائل حل کرنے کے لئے وومن نیشنل کمیشن بنایا اور اس طرح بڑی جدوجہد کے بعد مطالبات مان لیے گئے جس کے سبب فروری کے آخری تاریخ کو خواتین کے عالمی دن کے طور پر منایا جانے لگا تھا-
آج سے قبل 103 سال پہلے1908 میں نیویارک کی سڑکوں پر پندرہ سو خواتین اپنے بہتر اُجرت اور ووٹنگ کے حق کے مطالبات منوانے کے لیے مارچ کرنے نکلے تھی تو پھر 1909 میں سوشلسٹ پارٹی آف امریکہ نے خواتین کا دن منانے کی قرارداد منظور کی اور پہلی بار اسی سال 28 فروری کو امریکہ بھر میں خواتین کا دن منایا گیا اور اس کے بعد ا 1913تک ہر سال فروری کے آخری اتوار کو یہ دن منایا جاتا رہا ہے اس کے بعد 1910 میں کوپن ہیگن میں ملازمت پیشہ خواتین کی دوسری عالمی کانفرنس ہوئی جس میں جرمنی کے سوشل ڈیمکریٹک پارٹی کی کلا راز ٹیکن نے ہر سال دنیا بھر میں خواتین کا دن منانے کا تجویز پیش کی جسے کانفرنس میں شریک 17ممالک کے شرکاء نے متفقہ طور پر منظور کیا 19 مارچ 1911 میں پہلی بار خواتین کا عالمی دن منایا گیا اور آسٹریا ڈنمارک جرمنی اور سوئزر لینڈ میں 10 لاکھ سے زیادہ خواتین نے مزدوروں کام ووٹ اور سرکاری غیر سرکاری عہدوں پر خواتین کے تقرر کے حق اور ان کے خلاف امتیاز کو ختم کرنے کے لیے نکالے جانے والے جلوسوں میں حصہ لیا فروری 1913 میں پہلی بار روس میں خواتین نے عالمی دن منایا اس کے بعد اس سال اس دن کے لیے آٹھ مارچ کی تاریخ مقرر کر دی گئی اور تب ہی سے دنیا بھر میں 8 مارچ کو خواتین کا عالمی دن منایا جانے لگا
لیکن ایسے موقع پر ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم جشن منانے کے ساتھ ساتھ اس بات کا حقیقی احتساب بھی کریں کہ جو باتیں ایسے مواقع پر کی جاتی ہیں اُسے عملی جامہ کہاں تک پہنایا جارہا ہے؟
اگر اس سلسلہ میں غور کیا جائے تو سب سے پہلے ہم مذہبی طبقے م ذہبی سماج خاص کر مُسلم سماج کا جائزہ لینے کی کوشش کریں گے کہ مُسلم سماج میں کیا حالات ہے؟ خواتین کا پروپرٹی رائٹ کی بات کی جاۓ تو خواتین کو اپنے والدِ کے گھر سے کُچھ نہیں ملتا ہے جہیز یا سلامی کے نام پر جو دے دیا جاتاہے جوکہ لڑکے کا ہوجاتا ہے اور اِسکے بعد خواتین کو اُسکے پراپرٹی حق سے محروم کردیا جاتا ہے- خواتین کی تعلیم کی بات کی جائے تو اُس میں بھی لڑکوں کو فوقیت دی جاتی ہے جبکہ خواتین کی تعلیم کے بارے کہا گیا ہے کی اگر عورت تعلیم حاصل کرتی ہے تو اس کا پورا خاندان تعلیم یافتہ ہوتا ہے اور اسلام میں بھی اِسکی اتنی اہمیت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بیوی حضرت عائشہ صدیقہ درس حدیث دیتی تھی اور انکی کئی بیویاں ہاتھوں کے اسکلس کی مدد سے کمائی بھی کرتی تھی – پھر بھی خواتین کو تعلیم حاصل کرنے کے کم مواقع فراہم کئے جاتے ہیں- ضروت اس بات کی ہے کہ خواتین کو اعلٰی تعلیم کے موقع فراہم کیا جائے اِسکے لئے بیداری مہمات چلائی جائے اور کیریئر کونسلنگ و کیریئر گائیڈنس کے پروگرام منعقد کیے جائیں- اسی طریقے سے سیاست اور روزگار میں خواتین کو حقیقی نمائدنگی دینے کیلئے پالیسیاں بھی بنائی جائے اور اس کیلئے خواتین کو نچلی سطح تک تربیت بھی فراہم کیا جائے