یوم خواتین اور ایک احتساب

Spread the love

محمّد اکمل الہدیٰ
متعلم شعبہ صحافت و ترسیل عامہ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدرآباد

ایک پاکیزہ ہستی عورت، جو کبھی ماں کی شکل میں ، کبھی بہن کی شکل میں، کبھی بیوی کی شکل میں، کبھی بیٹی کی شکل میں تو کبھی ایک اچھی دوست کی شکل میں ہمارے گرد و نواح میں موجود رہتی ہے۔ میں نے یہاں عورت کے ساتھ ایک لفظ استعمال کیا ہے "پاکیزہ”۔ اب میرا سوال یہ ہے کہ ہم نے اس صنف نازک کو کہاں تک پاکیزہ رکھا؟ جس کے لیے اللّٰہ نے قرآن کریم میں پوری سورۃ نازل فرما دی

۔
اگر ہم اپنے معاشرے میں غور و فکر کریں تو ہمیں کچھ ایسی بیماریاں ملیں گی جو ناسور بن کر ہمارے سینوں میں پیوست ہیں۔ آج ہم قبل اسلام کے اُس دور کو دہراتے ہوئے نظر آتے ہیں جہاں بیٹیوں کی پیدائش پر اُسے زندہ در گور کر دیا جاتا تھا۔ افسوس ہے کہ تعلیم کے زیور سے مالا مال آج کا سماج وہی زمانہ جاہلیت کی سوچ رکھے ہوئے ہے۔ ہمارے سماج نے آج تک اِس صنف نازک کو وہ مقام نہیں دیا جسکی وہ حقدار ہے۔ کہیں آوارہ گیدڑوں کی گندی نگاہیں اُنکی عزت کو پامال کرتی نظر آتی ہیں تو کہیں یہ سننے کو ملتا ہیںکہ تم تو ناقص العقل ہو۔ حیرت کی بات ہے کہ ہم تعلیم میں کتنے پیچھے ہیں کہ جس سے ہمارا وجود ہے اُسے ہی ناقص العقل قرار دیتے ہیں۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں "وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ” اور ایک بڑے مفقر کا قول ہے کہ ” بچے کی پہلی درسگاہ اُسکے ماں کی گود ہوتی ہے۔”

مطلب یہ نکلتا ہے کہ ہم اُسے ہی ناقص العقل کہ رہے ہیں جو ہماری پہلی اُستاد ہے۔
اللہ نے جب عورت کو تخلیق فرمایا تو اُسے نزاکت دی، ساتھ ہی ساتھ اُسے برداشت کرنے کی قوت دی لیکن اسکا یہ مطلب نہیں کہ ہم اُسے درد دیں۔ روزآنہ اخبارات کی سرخیاں ایسے معاملوں سے بھری رہتی ہیں کہ "فلاں جگہ ایک لڑکی کی عصمت کو لوٹ لیا گیا۔” کیا ہم ایسے معاشرے کو ترقی پسند معاشرہ کہ سکتے ہیں؟ اگر یہ ترقی پسند ہے تو معاف کریں میں زمانہ جاہلیت کو اس سے بہتر سمجھتا ہوں۔

ٹائمس آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق اکیلے ہندوستان میں سال 2020 میں ہر روز اوسطاً 77 عصمت دری کے معاملات پیش آئے تھے۔ یہ ویسے معاملات تھے جنکی رپورٹ درج کی گئی تھی۔ نہ جانے کتنے ایسے معاملات اور ہوں گے جنکی رپورٹیں درج نہیں ہوتی ہیں۔ کیا ہمارے لیے یہ مقام شرم کی بات نہیں ہے؟ کیا ہم پڑھے لکھے جاہل نہیں ہیں؟ کیا ہم فخر سے خود کو اس معاشرے کا حصہ کہ سکتے ہیں؟

یہ کچھ ایسے سوالات ہیں جنکے جوابات ہمیں خود سے پوچھنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم خود کو اس گندے معاشرے کا حصہ کہتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں تو یقیناً ہمارا ضمیر مر چکا ہے اور ہمیں بھی مر ہی جانا چاہیے۔

آؤٹ لک انڈیا نے 2019 سے 2020 تک ہونے والی جنسی ہراسانی کے معاملات پر ایک رپورٹ شائع کیا تھا جسکے مطابق سال 2019 تا 2020 میں کُل 678 جنسی ہراسانی کے معاملات درج کرائے گئے تھے جس میں سے زیادہ تر معاملات بڑی بڑی کمپنیوں میں کام کرنے والی خواتین نے درج کروایا تھا۔

Leave a Comment