یومِ سائنس اور ہندوستانی سائنسدانوں کی بقاء..!

Spread the love

~ عبدالمقیت عبید اللّہ فیضی

آج مورخہ ٢٨ فروری یومِ سائنس ہے، اور پورا ملک یومِ سائنس منا رہا ہے_ لوگ مختلف سائنسدانوں کے قول سوشل میڈیا پر شیر کر کے یومِ سائنس کا حصہ بن رہے ہیں_ خصوصاً سائنس کے طالب علم جو سائنس و ٹیکنالوجی کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں_ اسکول، کالج اور یونیورسٹیز میں سائنس کے حوالے سے پروگرام، سیمینار منعقد کیئے جا رہے ہیں، ضلعی اور ریاستی سطح پر سائنس میلا کا انعقاد کیا جا رہا ہے_ ملک کے صدر جمہوریہ، وزیراعظم و دیگر ریاستوں کے وزیر اعلیٰ سائنسی پروگرام میں شرکت کر کے عزت بخش رہے ہیں اور لوگوں کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں_ گویا یہ کہ پوری جوش و خروش کے ساتھ ملک بھر میں یومِ سائنس منایا جا رہا ہے_

ذاتی طور پر کہوں! بہت خوشی ہوتی ہے، کافی اچھا محسوس کرتا ہوں ایسے پروگراموں کو دیکھ کر، لوگوں کے ذریعے سائنسدانوں کے بارے میں سن کر، ان کے ایجادات کو جان کر، ان کے تئیں سماجی خدمات سے روشناس ہوکر اور سائنسی معلومات حاصل کر کے_ بہت فخر محسوس ہوتا ہے، دل کے دریچوں میں ایک الگ طرح کی خوشی شامل ہو جاتی ہے_ اور ہو بھی کیوں نہ کیونکہ ہمارے سائنسدانوں نے ملک کے لئے، ملک کے عوام کے لئے کیا کچھ نہیں کیا، یقیناً ان کی ایثار و قربانیوں کو بھلایا نہیں جا سکتا_

لیکن افسوس! آج المیہ یہ ہے کہ ان کے ایثار و قربانیوں کے لئے ہم نے محض ایک دن متعین کر لیا ہے بس_ اس کے بعد ہم بھول جاتے ہیں سائنس کو، اپنے سائنسدانوں کے خدمات کو جنہوں نے اپنی پوری زندگی ہمارے لئے صرف کر دی_ شاید دیگر دنوں میں کوئی انہیں یاد کرتا ہو تو وہ صرف سائنس کے طالب علم ہیں جو ان کی بقاء کو سنجوئے ہوئے ہیں_ کثیر تعداد میں لوگ ہونگے جنہیں یہ تک نہیں معلوم ہو گا کہ یہ دن کیوں خاص ہے؟ ہم اسے کیوں اتنی عزت بخش رہے ہیں؟ یومِ سائنس کیوں منایا جاتا ہے؟؟
خیر….

یہاں بتانا مناسب سمجھتا ہوں کہ یومِ سائنس ہندوستان کے ایک عظیم سائنسدان چندرشیکھرا وینکٹا رمن کے نام پر منایا جاتا ہے_ جنہیں سر سی بی رمن کے نام سے بھی جانا جاتا ہے_ ہندوستان کے اس عظیم، ہونہار، اعلیٰ تعلیم یافتہ شخصیت کی پیدائش ٧ نومبر ١٨٨٨ء کو تمل ناڈو کے مدراس میں ہوا تھا_ پرائمری و جونیئر کی تعلیم علاقائی اسکول سے فراہم کی_ گریجویشن فزکس میں مدراس یونیورسٹی کو ٹاپ کیا_ اعلیٰ تعلیم کے لئے کولکتہ کوچ کر گئے وہیں سے فزکس میں ایم اے کیا، اس کے بعد انڈین انسٹیٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی بنگلور میں تحقیقی طالب علم کے حیثیت سے داخلہ لیا_ کافی عرصےتک اسی انسٹیٹیوٹ میں زیر تعلیم رہے_ فزکس کے میدان میں نمایاں کردار ادا کرتے ہوئے لائٹ اسکیٹرنگ کی تحقیق کی_ لائٹ اسکیٹرنگ مطلب لائٹ کو ویب لینتھ اور ایمپلیٹیوڈ میں بدلنا_ مجموعی طور پر کسی چیز یا لائٹ کا ٹرانسپیرنٹ کرنا_
ان کی اس تحقیق کو رمن افیکٹ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے_ جو کہ فزکس کے میدان میں کافی مقبولیت کا باعث رہا ہے_ یہ نامور شخصیت ایشیا کا وہ واحد پہلا شخص ہے جسے سائنس کے محکمے میں نوبل پرائز اعزاز سے سرفراز کیا گیا_ جو کہ ہم ہندوستانیوں کے لئے باعث فخر کا زامن ہے_ اس کے علاوہ انہیں مختلف طرح کے ملکی اور بیرون ملکی اعزاز سے بھی نوازا گیا_ جن میں ١٩٢٤ء میں فلو آف دی رویل سوسائٹی، ١٩٣٠ء میں نائٹ بیچلر، ١٩٣٠ء میں ہیوجز میڈل، ١٩٥٤ء میں بھارت رتنا و ١٩٥٧ء میں لینن پیس پرائز وغیرہ شامل ہیں_
ہندوستان کا یہ عظیم چمکتا ستارہ ٨٢ سال کی عمر میں ریاست بنگلور کے شہر میسور میں ٢١ نومبر ١٩٧٠ء کو ہمیشہ کے لئے اپنی شمع سمیٹتے الوداع کہہ گیا_ آج کا یہ قومی یومِ سائنس اسی ستارے کے نام سے منسوب ہے_

قارئین! ہندوستان کے ایسے اور بھی بہت سی شخصیتیں ہیں جن کے خدمات کو بھلایا نہیں جا سکتا_ کلپنا چاولہ جنہوں نے خلاء میں اپنی موجودگی کو یقینی بنایا، اور ہندوستانی ترنگے کو فرنگیوں کے مابین سجایا_ یہ خلاء میں ٣١ دن ١٤ گھنٹے اور ٥٤ منٹ کی مدت تک موجود رہیں_ لیکن افسوس کچھ تکنیکی پریشانیوں کی وجہ سے٤٠ سال کی کم عمری میں یو ایس اے کے کولمبیا خلاء میں جاں بحق ہو گئیں_
اس کے علاوہ خلائی سفر کے مشہور و معروف شخصیت پنجاب کے راکیش شرما، جو کی ہندوستان کے ائر فورسز کے ونگ کمانڈر رہ چکے_ انہوں نے بھی خلاء میں سفر کئے_ خلاء میں ان کی کل مدت ٧ دن ٢١ گھنٹے ٤٠ منٹ کی تھی_ یہ باآسانی اپنی مدت پورا کر سلامت واپس آئے_

علاوہ ازیں! ہندوستان کا میزائل مین جس نے ملک کو ایک نہیں بلکہ ٧ یا ٨ میزائلوں کی رہنمائی بخشی ان کے خدمات و ملک کے تئیں قربانیوں کو کیسے بھول سکتے ہیں_ جی ہاں میں بات کر رہا ہوں تمل ناڈو کے رامیشورم کے چشم و چراغ ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کی_ پورا نام ابوالفاخر زین العابدین عبدالکلام ہے_ انہیں کون نہیں جانتا یا ان کی کہانیوں سے کون نہیں واقف ہے_ گاؤں کا ایک ادنیٰ سا طالب علم جو ملک کے لئے ایک مثال پیش کر کے چلا گیا، جو بچپن سے ہی جاگتے ہوئے خواب دیکھتا تھا، نہ صرف دیکھتا تھا بلکہ ان میں جیتا بھی تھا_ رحم دلی اور دیانت داری اپنی والدہ عائشہ سے اور اخلاق و کردار والد محترم زین العابدین سے سیکھا_ ان کے والدین زیادہ تعلیم یافتہ نہ تھے لیکن والد اور والدہ کو سوسائٹی کے لوگ عزت کی نظر سے دیکھتے تھے_ والد کشتیاں بنا کر ان کو ملاحوں میں فروخت کرتے تھے_ مالی حالت بہتر نہ ہونے پر عبدالکلام صاحب بچپن میں ہی املی کی بیج اکٹھا کر کے بیچتے تھے، تھوڑے بڑے ہوئے تو صبح شہر میں اخبار بیچنا شروع کر دیا تھا_ دھیرے دھیرے گھر کی پریشانیاں کم ہوتی گئی تعلیم کے میدان میں آگے بڑھتے گئے، اعلیٰ تعلیم کے لئے گھر میں پیسے نہ ہونے پر بڑی بہن نے اپنے زیور گروی رکھ کر کالج میں داخلہ دلایا_ گویا یہ کہ پوری زندگی گٹھنائیوں و پریشانیوں سے دو چار تھی، پھر بھی ہار نہ مانا اپنے بلند عزم و حوصلے کے ساتھ ڈٹے رہے_ دن گزرتے گئے اور پھر یہ کارنامہ انجام کر دیا_ جو ملک کے لئے ایک عظیم کارنامہ تھا_ ہندوستانی حکومت اور دیگر ملکوں کے حکومت نے مختلف اعزاز سے سرفراز کیا_ ہندوستانی حکومت نے صدر جمہوریہ کے لئے بھی عبدالکلام صاحب کا انتخاب کیا_ یہاں پر بھی آپ نے اپنی الگ پہچان چھوڑی جسے ملک ہمیشہ یاد کرتا رہے گا_
یہ عظیم شخص شام کے وقت لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے ٢٧ جولائی ٢٠١٥ کو اپنے مالک حقیقی سے جا ملا_

لیکن افسوس صد افسوس آج ہم نے ان جانبازوں کے خدمات و ان کی قربانیوں کو بھلا دیا_ کہیں نہ کہیں اس کے ہم بذات خود ذمہ دار ہیں اور دوسرے نمبر ہمارا میڈیا بلکہ اگر میڈیا کو قصوروار ٹھہرائیں تو کوئی غلط نہ ہو گا_ کیونکہ آج کا یہ دور سائنس و ٹیکنالوجی کا ہے مختلف طرح کے ٹیکنالوجی سے انسان خود کو مستفیض کر رہا ہے_ لوگوں کے ہاتھوں میں سائنسی ایجاد کردہ اسمارٹ فون موجود ہے، فی الحال لوگ فون اور ٹیلی ویژن کو زیادہ وقت دے رہے ہیں_ ایسے میں میڈیا ہاؤسز کی، میڈیا برادری کی، صحافیوں کی اور پورے صحافی برادری کی یہ زمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس طرح کے سوز ، پروگرام اور خبروں کو فوقیت بخشیں_ تاکہ لوگ خود کو ان چیزوں سے جوڑ سکیں_
لیکن ناامیدی کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہماری میڈیا برادری ان خبروں اور اس طرح کے سوز سے اجتناب کرتی ہے_ اگر سرسری نظر ڈالیں تو ہمیں صرف سیاسی خبریں، سیاسی جماعتوں پر مبنی پروگرام، سیاسی رہنماؤں کے انٹرویوز، سیاسی پینالسٹ کا جماوڑہ وغیرہ کی خبریں ہی نشر کی جاتی دکھائی دیتی ہیں_

ابھی کچھ دنوں قبل یونیورسٹی اور یونیسیف کے جانب سے منعقد ایک پروگرام میں شرکت کیا تھا، اس کے لئے ایک تحقیق کردہ فائل جمع کرنا تھا_ اس لئے کچھ دوستوں کے ساتھ مل کر ایک چھوٹی سی تحقیق کی_ تحقیق تھی شہر حیدرآباد کے دو ہندی اخباروں پر کہ پورے ایک مہینے میں ان دو اخباروں میں کتنی خبریں صحت سے متعلق شائع ہوتی ہیں_ یقین مانیئے صرف ٢ فیصد خبریں ایسی تھیں جو ان دو اخباروں نے پورے ایک ماہ میں صحت سے متعلق شائع کیں_ اس ایک چھوٹی سی تحقیق سے ہم اور آپ متوجہ ہو سکتے ہیں کہ سائنس اور صحت سے متعلق کس حد تک ہماری میڈیا خبروں کی اشاعت سے اجتناب کرتی ہے_

آخر کیوں؟ کیا وجوہات ہو سکتے ہیں؟ پورے میڈیا محکمہ کو اس پر غوروفکر کرنا ہوگا؟
مناسب تو یہ ہوگا کہ میڈیا ہاؤسز سائنس و ٹیکنالوجی سے متعلق سوز و پروگرام چلائے، اخباروں میں روزآنہ جتنا ممکن ہو سکے اس طرح کے خبروں کو جگہ دیں بلکہ اگر ہو سکے تو ہفتے میں یا مہینے میں اخبار کے ساتھ خصوصی ایک شمارہ شائع کریں، جس میں سائنس و ٹیکنالوجی اور صحت سے متعلق چیزیں شائع کریں_ اس طرح سے ہم اپنے سائنسدانوں کے خدمات ان کے ایجادات و نئے نئے سائنسی فیچر سے عوام کو روشناس کرا سکتے ہیں_
آئیئے! آج قومی یومِ سائنس کے موقع پر ہم اپنے تمام سائنسدانوں کو جو اس دارفانی سے کوچ کر گئے ہیں ان کو خراج عقیدت پیش کریں..!
"آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے”

(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد کے شعبہ ترسیل عامہ و صحافت میں زیر تعلیم)

Leave a Comment