مدارس اسلامیہ کے نصاب ونظام کی اصلاح کا مسئلہ بطور خاص گذشتہ سو سالوں سے ایک ایسی ٹیڑھی کھیر بنی ہوئی ہے، جو درستگی کی مسلسل اور متواترکوشش کے باوجود بھی گلے سے اترتی معلوم نہیں ہوتی۔ پیش نظر کتاب’’مدارس اسلامیہ اور عصری تقاضے‘‘ بھی اسی سلسلے کی ایک توانا کڑی ہے، لیکن اس کی انفرادیت یہ ہے کہ یہ صرف مسائل کا نوحہ نہیں، نظری سطح پر ہی سہی، حل کا شادیانہ بھی ہے۔ پھر اس کی خوبی یہ ہے کہ تحلیل وتجزیہ کا یہ پورا عمل مدارس کے بنیادی مقصد وَلِيُنْذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ یا تبلیغ دین کے عصری چیلنجز کے پس منظر میں مطلوبہ صلاحیتوں کے حامل ’علماے زمانہ‘ یا’ مبلغین اسلام‘ کی کھیپ کی تیاری کے تناظر میں انجام دیا گیا ہے۔
عام طور پر لوگ چیلنجز اور مسائل کی بات کرتے ہیں، اس سے آگے بڑھے تومدارس کے مختصر گراؤنڈ پر آکسفورڈ کے قیام کی تجویز لکھ مارتے ہیں، جن کی حیثیت نظری سے زیادہ تخییلی ہوتی ہے۔ مصنف کتاب کی خوبی یہ ہے کہ وہ صرف نظری جہت سے متعلقہ سوال کا تجزیہ ہی نہیں کرتے ، بلکہ ان کے حل پر بھی روشنی ڈالتے ہیں اور حل کے لیے عملی و تطبیقی تجاویز کیا ہوں گی ، ان کا بھی منطقی تجزیہ و تحلیل کرتے ہیں۔ کتاب کا اسلوب علمی ہے۔ معقولیت اور منطقیت سے بھرپور اس کتاب کو پڑھتے ہوئے بارہا یہ محسوس ہوا جیسے میں خود اپنا ہی لکھا پڑھ رہا ہوں
۔ کتاب دو حصوں میں منقسم ہے۔ پہلا حصہ نصاب تعلیم سے متعلق ہے۔ اس میں سب سے پہلے علماے مدارس کے سامنے جدید علمی اور دعوتی چیلنجز کیا ہیں ، اس حوالے سے بصیرت افروز بحث کی گئی ہے۔ اسے پڑھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ سوالات اگر درست انداز سے اٹھائے جائیں تو جواب کی دریافت آسان ہو جاتی ہے۔ مصنف نے اس ضمن میں نظریۂ ارتقا ، حکومت الٰہیہ کے تصور کے خلاف جدید سیاسی تنفر ، نسائیت ، لامحدود تصور آزادی اور جدید سودی نظام کو جدید عہد کے بنیادی سوالات بتائے ہیں، جن کی جواب دہی علماے عصر کی ذمہ داری ہے اور بالعموم فارغین مدارس جن سے پہلو تہی کرتے نظر آتے ہیں۔ مصنف کے مطابق ان سوالات کا سامنا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ معاصر عالم دین، علم فطرت ( natural science) اور سماجیات(social science) کی مبادیات سے واقف ہو، خصوصاً سماجیات کی تینوں شاخوں سیاسیات، اقتصادیات اور عمرانیات پر اس کی اچھی نظر ہو۔ تبصرہ نگار یہاں مصنف سے صد فی صد اتفاق کرتا ہے۔ یہ ایک سچائی ہے کہ ان مضامین سے واقفیت کے بغیر عالم زمانہ کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ میں عرض کروں کہ جامعہ عارفیہ کے نصاب میں اسی ضرورت کے نظر پیش رفت کی گئی ہے ۔ان شاء اللہ العزیز!امید کی جاتی ہے کہ نصاب میں شامل یہ سماجی مضامین طلبۂ مدرسہ ہذا کی فکروثقافت کی توسیع میں سنگ میل ثابت ہوں گے اور اہل نظر اس کی تحسین فرمائیں گے۔ لیکن مصنف کتاب نے جدید مضامین کے حوالے سے جو تجاویز پیش کی ہیں وہ ہنوز تشنۂ تکمیل ہیں۔ ان کے مطابق نصاب مدارس میں ان مضامین کو پڑھانے کے لیے جو کتاب شامل ہوں ، ان کی تصنیف میں اسلامی نقطۂ نظر کی بھی وضاحت ہو۔ یہ ایک مستقل علمی وعملی پروجیکٹ ہے ، جسے ملک کے بڑے دینی ادارے ماہرین تعلیم اور علماے اسلام کے ایک بورڈ کے تحت مکمل کرسکتے ہیں
۔مصنف کے تصور نصاب کے مطابق مدارس کا موجودہ درس نطامی – بعض ضروری ترمیمات کے ساتھ – مشترکہ تعلیمی نصاب کی ضرورت کے لیے کفایت کرتا ہے اور پھر جس طرح دسویں کے بعد اسکولی مضامین میں تخصصات پیدا ہوتے چلے جاتے ہیں، مدارس میں بھی تخصص کے موجودہ شعبوں کے ساتھ کچھ نئے شعبوں کا اضافہ کیا جانا ضروری ہے۔
مصنف سے اپنا اختلاف درج کراتے ہوئے میں عرض کروں کہ مدارس کا موجودہ درس نظامی ، مشترکہ تعلیمی نصاب کی ضرورت کی عارضی تکمیل تو کرتا ہے ، لیکن یہ مستقل یا پائیدار حل نہیں ہے۔ پائیدار حل کے لیے ہمیں بھی جزوی ترمیم کے ساتھ اسکول کے ابتدائی درجات کے مروج نصاب کو ہی اپنانا ہوگا ۔ اس کے بعد ہی کلیۃ الشریعۃ (sharia collage) یا کلیۃ الدراسات الاسلامیۃ (collage of Islamic studies) کا مخصوص پروگرام شروع کیا جاسکتا ہے۔
تخصصات کے ضمن میں مصنف نے جن تین مضامین کا تعارف کرایا ہے، میری نظر میں یہ کلیۃ الشریعۃ کے ضمنی مباحث کے طور پر تو شامل کیے جاسکتے ہیں ، لیکن متعینہ ہدف کے تناظر میں مدارس کے اندران کو باضابطہ کورس کے طور پر شامل کیا جانا محل نظر ہے، اِلا یہ کہ کوئی مدرسہ یونی ورسٹی کی شکل اختیار کر لے اور اس میں دیگر شعبہ جات کے ساتھ ان شعبہ جات کا بھی اضافہ کرلیا جائے ، جیسا کہ عام طور پر یونی ورسٹیز میں یہ شعبے موجود ہوتے ہیں۔ مصنف کے پیش کردہ وہ تین تخصصات یہ ہیں: تخصص فی السیاسیہ تخصص فی الاقتصادیات ۔ تخصص فی علم الاجتماع
ان ننئ تخصصات کے تعارف میں مصنف نے سو صفحات سیاہ کیے ہیں، جو بہر کیف معلومات کے لحاظ سے اہم ہیں۔ ان صفحات سے اسلام کے ساتھ ان مضامین کے تعلق کے کئی ضروری گوشے سامنے آتے ہیں، جن سے علماے عصر کو ضرور واقف ہونا چاہیے۔
مصنف نے اس سیاق میں یہ تجویز پیش کی ہے کہ الگ الگ مدارس کو دعوہ کورس کے ساتھ سنسکرت ، فرنچ اور چینی زبانوں کی تدریس کا خصوصی انتظام بھی کرنا چاہیے۔ یہ تجویز بھی راقم کے نزدیک غیر ضروری ہے۔ عربی اور انگریزی تو لازمی ضرورت ہیں، دیگر زبانوں کا تخصص مستقل کام ہے جس کے لیے ملک میں مختلف انسٹی ٹیوٹ اور کلیات کام کر رہے ہیں۔ ان کا بوجھ مدارس پر ڈالنا تکلیف مالا یطاق یا الزام بما لیس بلازم ہے
۔مشترکہ تعلیمی لائحہ کے ضمن میں مصنف نے دینی مدارس کے لیے سہ لسانی فارمولہ پیش کیا ہے جس کے مطابق عربی، انگریزی اور کسی مقامی زبان کی تدریس کو لازمی بتایا ہے، یہ تجویز بہت اہم ہے ، دینی مصادر ، عصری مآخذ اور مقامی مزاج سے واقفیت کے لیے واقعی ان تینوں زبانوں کی تدریس ضروری ہے۔ اس فارمولے میں غریب فارسی چھوٹ گئی ہے، اگرچہ مصنف نے اس کے لیے اپنے طور پر اعذار پیش کر دیے ہیں، تاہم راقم السطور کی نظر میں اس فارمولے کے اندر تھوڑی سی جگہ اس غریب کو بھی ضرور ملنی چاہیے تھی۔
مشترکہ تعلیمی لائحہ کے ہی ضمن میں مدارس کے اندر انگریزی زبان کی تدریس کے حوالے سے مصنف نے بہت قیمتی مشورے دیے ہیں، جن کو مزید غور و خوض کے بعد اپنایا جاسکتا ہے۔ نصاب کی نئی درجہ بندی کے حوالے سے بھی مصنف کی تجاویز قابل تحسین و تعمیل ہیں۔
کتاب کا دوسرا حصہ مدارس سے متعلق مختلف- غیرنصابی -پہلوؤں پرمشوروں اور گزارشات پر مشتمل ہے۔ اس میں انگریزی کے اساتذہ کی قلت کا مسئلہ ، فارسی کتب سے استفادہ میں مشکلات، انگریزی داں علما اور مدارس و مساجد ، نصاب میں تبدیلی کے مثبت اثرات ، اتحاد ملت اور مدارس اسلامیہ ، ہماری ترجیحات میں تبدیلی ضروری، مدارس اسلامیہ اور عصری تعلیم ، اسلامی اقامت خانہ کا قیام ، دینی و اخلاقی تربیت اور مدرسہ اور مسجد کی نام گزاری کی سرخیوں کے ساتھ مفید تجاویز اور خیالات شامل کیے گئے ہیں۔
مصنف جواں سال، وسیع فکر اور ژرف نگاہ فاضل ہیں۔ امید ہے کہ ان کی یہ کتاب اصلاح نصاب کی بحث کو آگے بڑھانے میں ایک سنگ میل ثابت ہوگی۔ مولیٰ کریم کتاب کو مفید و مقبول بنائے اور مصنف کو دارین کی سعادتوں سے مالا مال فرمائے۔ آمین
۔