مکرمی! ————- اسلام و علیکم و رحمۃ و برکاتہ گورنمنٹ اردو لائبریری، پٹنہ کے چیئرمین جناب ارشد فیروز کی الوداعی تقریب میں اردو کے حوالے سے جو بیش قیمتی باتیں آپ نے کہیں وہ آپ میں اردو کی محبت اور اس کی فکر، ایک کڑھن ہونے کا ثبوت ہے۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے کہ ریاست کی مکمل ذمہ داریوں کے باوجود آپ اردو اخبار کے ایک بہترین قاری ہیں، یعنی اپنی زندگی کی مصروفیات کے باوجود اردو اخبار کے لئے وقت نکال لیتے ہیں۔ جناب کی سرپرستی میں اردو کے تحفظ و فروغ کے لئے جناب نتیش کمار کی حکومت میں جو کچھ بھی ہو سکا وہ قابل ستائش ہے، آپ اردو اور اقلیت کے حق میں خاموشی سے وہ سب کچھ کر جاتے ہیں جس کا تصور نہیں کیا جا سکتا ہے۔ آپ کی اعلیٰ قابلیت کا اثر ہے کہ وزیر اعلی نتیش کمار بھی اردو کی ترقی کے لئے مسلسل کوشاں رہے ہیں۔ انہوں نے اردو اساتذہ ، مترجم بحال کئے اور اردو کی بازیابی کی تمام تر کوششیں کیں۔ اقلیتی بی پی ایس سی کوچنگ اور داروغہ بحالی میں اقلیتی امیدواروں کی رہنمائی سے اقلیتی طبقہ کی سرکاری نوکریوں میں تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ جناب آپ کی کوششوں سے ہی ممکن ہو سکا ہے کہ جناب نتیش کمار نے ریاست کے مختلف اضلاع میں اقلیتی ہاسٹل اور ملٹی پرپز بلڈنگ کی تعمیر کروائی۔ لیکن ابھی اردو کے حوالے سے بہت کام باقی ہیں جس پر آپ کی توجہ چاہئے۔ اردو کی لازمیت کا سوال، یہ بہت بڑا سوال ہے۔ کیونکہ ہم فارسی کا حال دیکھ چکے ہیں۔ اس لئے اردو کی لازمیت کو برقرار نہیں رکھا گیا تو اس کا بھی حال فارسی جیسا ہی ہوگا۔ اردو آبادی کے بچوں کے لئے اگر اسے لازمی قرار نہیں کیا گیا اور اردو استاذ کی بحالی لازمی طور پر نہیں کی گئ تو پھر اردو کے ساتھ انصاف نہیں ہو پائے گا۔ سیکنڈری و سینئر سیکنڈری اسکولوں میں کل مضامین میں اردو مادری زبان کی شکل میں ایک لازمی پرچہ کے طور پر شامل تھا اور اس لئے اردو اساتذہ کی بحالی بھی لازمی طور پر ہوتی تھی۔ لیکن اب یہ صورت بدل چکی ہے۔ ڈپٹی سیکرٹری محکمۂ تعلیم، بہار، پٹنہ کے مکتوب نمبر 799 مورخہ 15/05/2020 اور ایڈیشنل سیکرٹری، محکمۂ تعلیم، بہار، پٹنہ کے مکتوب نمبر 1155 مورخہ 27/08/2020 سے اردو طبقہ کو مایوسی ہوئی ہے۔ اس کے مطابق اردو کو اب اختیاری زبان کا درجہ دے دیا گیا ہے، 8+1 یا 9+1 کی جگہ اب صرف 6 اساتذہ کی ہی بحالی ہوگی، اس میں ہندی، انگلش، حساب، سائنس، سوشل سائنس، اور چھٹا ٹیچر بنگالی، میتھلی، مگہی، عربی، فارسی، بھوجپوری، پالی، پراکرت، میوزک، اردو اور سنسکرت میں سے کوئی ایک یعنی اردو کی لازمیت ختم۔ اس میں بھی کم سے کم 40 بچوں کی شرط لگا دی گئی ہے۔ اس لئے ہماری یہ پرانی مانگ رہی ہے کہ سال 2015 سے پہلے والی اردو کی حیثیت کو برقرار رکھا جائے۔ میں جناب کو بتانا چاہتا ہوں کہ اگر اردو کی لازمیت کے مسئلہ کو حل نہیں کیا گیا تو انتظامیہ بھی اردو کو چھوڑ کر دوسری زبان کے استاذ کو چھٹے استاذ کی شکل میں بحال کریں گے اور ہم ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔ دوسرا بڑا معاملہ ہے اردو اسکولوں کے وجود کا، حکومت ریاست کے ان تمام اسکولوں کا انضمام کرنے جا رہی ہے جو دو یا دو سے زیادہ اسکول ایک ہی کیمپس میں چلتے ہیں۔ اس معاملے میں مجھے کہنا ہے کہ بڑی تعداد میں اردو اسکول ہندی اسکولوں میں ضم ہو رہے ہیں۔ حالانکہ اس کے علاوہ بہت سے مسلم محلہ میں واقع اسکول جس میں اردو نام نہیں لگا ہے یا اسے اردو اسٹیٹس حاصل نہیں ہے، ایسے اسکول بھی بڑی تعداد میں ہیں جو اپنی شناخت کھونے کو مجبور ہیں۔ اس سلسلے میں یہ کہنا چاہوں گا کہ اردو اسکولوں کی وجہ سے ہی زبان کی آبرو بچی ہے ورنہ ہندی اسکولوں میں تو ہمارے بچے سنسکرت پڑھنے کو مجبور ہیں۔ آپ کی لاکھ کوششوں کے باوجود بھی سرکاری عمارتوں و دفاتر میں اردو کا استعمال نہیں ہو رہا ہے۔ آپ کے مکتوب کے حوالے سے ضلع مجسٹریٹ نے نیم پلیٹ ، سائن بورڈ ، سرکاری عمارتوں ، چوک چوراہوں پر بورڈ اور سرکاری دعوت نامہ وغیرہ میں ہندی کے ساتھ اردو کے استعمال کی ہدایت جاری تو کی ہے، لیکن خود ہی اس پر عمل درآمد نہیں کرتے ہیں۔ مظفر پور کلکٹریٹ کے مین گیٹ پر اردو میں کلکٹریٹ لکھنے اور ضلع مجسٹریٹ کی رہائش پر اردو میں نیم پلیٹ لکھنے کے لئے قومی اساتذہ تنظیم اور انجمن ترقی اردو مظفر پور نے ضلع مجسٹریٹ مظفر پور کو میمورینڈم سونپا اور کانٹی کے ممبر اسمبلی موجودہ وزیر بہار سرکار جناب اسرائیل منصوری نے اسمبلی میں سوال اٹھائے، اسمبلی سے ضلع مجسٹریٹ مظفر پور کو مکتوب بھی موصول ہوا، لیکن آج بھی کلکٹریٹ کے مین گیٹ پر اردو کے استعمال کو یقینی نہیں بنایا گیا ہے۔ اردو کے جو دیگر مسائل ہیں اس سے بھی میں آپ کو روبرو کرانا چاہوں گا، ان میں ریاست کے تمام اسکولوں کی روٹین میں لازمی طور پر اردو کو شامل کیا جانا۔ اسکول کی جانچ میں جانے والے تمام افسران کو یہ ہدایت ہونا کہ وہ اس بات کی جانچ کریں کہ اردو زبان کے اساتذہ اور طلبہ اسکول میں ہیں یا نہیں، اگر ہیں تو اس کی تعلیم کا کیا نظم ہے تاکہ اردو کی تعلیم کو یقینی بنایا جا سکے۔ اور ان سب میں ایک جو بہت اہم کام ہے وہ ہے اردو اساتذہ کی ٹریننگ کا، تاکہ اساتذہ نئی تعلیمی ٹیکنالوجی اور میتھڈ سے واقفیت حاصل کر موجودہ وقت کے بچوں کو زمانے کے حالات کے مطابق اس کو اچھی تعلیم و تربیت دے سکیں۔ اور ان سب میں ایک جو بہت ضروری کام ہے وہ ہے اردو میں درسی کتابوں کی دستیابی۔ اس معاملے میں، میں ایک مانگ کرتا آیا ہوں کہ جب سے بچوں کے کھاتے میں پیسے جانے لگے ہیں اور پرائیویٹ پبلیشرز کتابیں دستیاب کرانے لگی ہیں تب سے بچوں کے بستہ سے کتاب غائب ہو گئی ہیں، اردو کتابوں کی دستیابی کا معاملہ تو دور، اب ٹھیکیدار اسے شائع بھی نہیں کراتے اور تھوڑی سی کتابیں شائع ہوتی بھی ہیں تو صرف ایک اردو زبان کی کتاب، باقی دوسرے مضامین جیسے حساب، سائنس اور سوشل سائنس تو بلکل شائع ہوتے ہی نہیں ، اس سے بہتر تو حکومت کی طرف سے جو کتابیں شائع ہوتی تھیں ان میں اردو میں تمام مضامین شامل ہوتے تھے اور کچھ دیر سے ہی صحیح بچوں کے بستہ میں کتابیں ہوتی تھیں۔ اس لئے حکومت خود ہی کتابیں شائع کراکر بچوں کو دستیاب کرانے کی کوشش کرے تو بہتر ہوگا۔ عظیم اتحاد کی موجودہ حکومت نے تمام بلاک میں ماڈل اسکول بنانے کی بات کہی ہے، اس سمت میں عمل بھی ہو رہا ہے، لیکن اس معاملے میں اردو اسکولوں کو بلکل ہی نظر انداز کیا جا رہا ہے، اس لئے میری گزارش ہے کہ ریاست کے تمام 534 بلاک کے ہر پانچ ماڈل اسکولوں میں ایک اردو اسکول لازمی طور پر شامل ہو۔ ایک اور بڑا کام جو بچا ہے وہ ہے بہار کے مدرسہ بورڈ، اقلیتی کمیشن بہار و دیگر بورڈز کے چیئرمین کی تقرری اور مختلف اردو کمیٹیاں جو منسوخ ہیں اس کی تشکیل نو۔ بورڈز اور کمیٹیوں کی تشکیل کے تعلق سے ایک مشورہ ہے، میرا ماننا ہے کہ اردو اخبارات، اردو صحافی کی اردو آبادی کی رہنمائی، کردار سازی میں بڑا رول ہوتا ہے، اس لئے لازمی طور پر تمام بورڈ و کمیٹی میں ان کو ایک نمائندہ کی شکل میں شامل کیا جائے تو اس کے نتائج خاطر خواہ ہوں گے۔ اخبار کے تعلق سے ایک مشورہ یہ بھی ہے کہ اس کے وجود کا دارومدار بہت حد تک سرکاری اشتہار پر منحصر ہوتا ہے، اس سمت میں بھی آپ کا توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیں۔ آپ سے مؤدبانہ گزارش ہے کہ مذکورہ بالا مطالبات پر ہمدردانہ غور کر کے ہمیں شکریہ کا موقع فراہم کریں! عین نوازش ہوگی۔ محمد رفیع rafimfp@gmail.com