نتیش کمار کی ملاقاتوں کا سلسلہ اور بھاجپا کیلئے 80 کے دہائی والے حالات پیدا ہونے کے امکانات

Spread the love

سیف الرحمٰنچیف ایڈیٹر انصاف ٹائمس

بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے آج نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کے قومی صدر اور اپوزیشن کے سینئر لیڈر شرد پوار سے دلّی میں اُنکے مکان پر ملاقات کی اور 2024 لوک سبھا کیلئے اپوزیشن اتحاد پر چرچا کیا واضح ہو کہ شرد پوار کی پارٹی مہاراشٹر کی دو بڑی صوبائی پارٹیوں میں سے ایک ہے اور موجودہ وقت میں اُنکا وہاں کی دوسری بڑی صوبائی پارٹی شیو سینا و کانگریس کے ساتھ اتحاد بھی ہے جس اتحاد میں اتحاد کی قیادت پوار کے ہاتھ میں ہی مانی جاتی ہے اور قومی سطح پر اپوزیشن اتحاد کیلئے بھی وہ کوششیں کرتے رہے ہیں، اس لیے اُن سے نتیش کی ملاقات کو بھی اہم نظر سے دیکھا جا رہا ہے واضح ہو کہ نتیش کمار بہار میں بھاجپا کا ساتھ چھوڑکر اپوزیشن کی سبھی دیگر 7 پارٹیوں کی حمایت سے حکومت قائم کرنے کے بعد ویسا ہے مضبوط اپوزیشن اتحاد ملک بھر میں قائم کرنے کوشش میں لگ چکے ہیں- گزشتہ دنوں تلنگانہ کے وزیر اعلیٰ کے سی آر نے بہار کا دورہ کر نتیش سے ملاقات کی تھی اور نتیش کے اپوزیشن اتحاد کی تحریک میں ساتھ دینے کا اعلان کیا تھا جس کے بعد فوراً نتیش کمار دہلی پہونچ گئے جہاں اُنکی پہلی میٹنگ اپوزیشن کی سب سے بڑی پارٹی کانگریس کے رہنما راہل گاندھی سے ہوئی، جسے نتیش کے بہت سلجھے ہوئے قدم کے طور پر دیکھا گیا کیونکہ گزشتہ دنوں ممتا بنرجی،کے سی آر،شرد پوار،اسٹالن اور کیجریوال سمیت جتنے لوگوں نے اپوزیشن اتحاد کی کوشش کیا ہے وہ سب کانگریس کو ساتھ لینے کو لیکر کوئی کھلا فیصلہ نہیں لے پا رہے تھے جب کہ ملک کی 40 فیصد سے زیادہ سیٹوں پر بھاجپا کا مقابلہ کانگریس پارٹی سے ہی ہے- لہٰذا اُن تمام کوششوں کو تجزیہ نگار ادھورا مان رہے تھے لیکن اب نتیش کا پہلی ملاقات راہل کے ساتھ ہی کرنا اور خوش گوار انداز میں تصویر شیئر کرنا جس کے بعد یہ اندازہ لگایا جانے لگا ہے کہ جس طرح کانگریس کو زندہ کرنے کیلئے سونیا گاندھی نے گاندھی فیملی سے باہر کا صدر بنانے کا فیصلہ کیا ہے ویسے ہی کانگریس کی اعلیٰ قیادت میں یہ بات بھی چرچے میں ہے کہ بھاجپا کو اقتدار سے دور کرنے کیلئے کانگریس کسی غیر کانگریسی قابل قبول چہرے کو وزارت عظمیٰ کا متحدہ اُمیدوار بنائے جانے پر بھی تیار ہو سکتی ہے،یہ بات بھارتیہ جنتا پارٹی کیلئے تشویش کا ذریعہ بن گئی ہے اس کے ساتھ ہی اُنہوں نے سب سے زیادہ لوک سبھا والے صوبے اُتر پردیش کی سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی سماجوادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو و اُنکے والد ملائم سنگھ یادو، کرناٹک کی صوبائی پارٹی جنتا دل سیکولر کے صدر و سابق وزیر اعلیٰ کمار سوامی،دہلی کے وزیر اعلیٰ اور عام آدمی پارٹی کے قومی صدر اروند کیجریوال جو کہ وزیر اعظم کا ایک بڑا چہرہ مانے جاتے ہیں، ہریانہ کے سابق وزیر اعلیٰ اور انڈین نیشنل لوک دل کے رہنماء اوم پرکاش چوٹالہ سے بھی ملاقاتیں کی ہے تو وہیں لیفٹ سیاست کے تین بڑے لیڈران سی پی آئی ایم لیڈر سیتارام یچوری،سی پی آئی لیڈر ڈی راجا اور سی پی آئی ایم ایل لیڈر دیپانکر بھٹا چاریہ سے بھی ملاقاتیں کی، اس درمیان اُنہوں نے سماجوادی سیاست کے بڑے چہرہ اور نتیش کی پارٹی جدیو کے سب سے لمبے وقت تک قومی صدر رہے موجودہ آر جے ڈی لیڈر شرد یادو سے بھی ملاقات کر آگے کی منصوبہ بندی پر چرچا کیانتیش کمار کی موجودہ ہوئی ملاقاتوں پر چرچا اس لیے تیز ہے کہ ایک طرف اُنہوں نے جہاں کانگریس اور کیجریوال کو سادھنے کی کوشش کی ہے تو وہیں لیفٹ سیاست کے تمام اہم چہروں سے مل کر اُنکی حمایت تقریبا حاصل کرلی ہے- ساتھ ہی سماجوادی سیاست کے اُن تمام بڑے رہنماؤں سے ملاقاتیں کی ہے جو کہ سماجوادی سیاست پر اب بھی تقریباً مکمّل کنٹرول کر رکھتے ہیں- جب کہ خبر ہے کہ آنے والے دنوں میں وہ سماجوادی سیاست کے بڑے لیڈر ایم کے اسٹالن،دلت سیاست کی رہنماء مایاوتی و چندر شیکھر آزاد،ترنمول کانگریس صدر و بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی،آدیواسی سیاست کے سینئر لیڈر و جھارکھنڈ کے وزیر اعلیٰ ہیمنت سورین اور آندھرا پردیش کے وزیر اعلیٰ جگن موہن ریڈی و اڑیسہ کے وزیر اعلیٰ اور بیجو جنتا دل کے صدر نوین پٹنائک سے بھی ملاقاتیں کرینگےنتیش کی ان ملاقاتوں کے بیچ بہت سے تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ سماجوادی و آدیواسی سیاست کی تقریبا تمام پارٹیاں اور لیفٹ سیاست کی تقریباً تمام پارٹیاں پہلے ہی بھارتیہ جنتا پارٹی کو حکومت سے برخاست کرنے کیلئے متحد ہوکر نتیش کمار کے چہرے کو آگے بڑھانے کی منصوبہ بندی کر چکی ہے جسکے پیچھے ایم کے اسٹالن،کے سی آر ،شرد پوار اور لالو یادو و تیجسوی کا ہاتھ مانا جاتا ہے – اب نتیش کیلئے اصل چیلنج کانگریس سمیت اپنے بہتر دوست مانے جانے والے کیجریوال،ممتا بنرجی اور مایاوتی وغیرہ کو سادھنا ہوگا جسمیں اگر وہ کامیاب ہوگئے تو نہ صرف یہ کی بھارتیہ جنتا پارٹی کیلئے بڑی مشکل کھڑی ہو جائیگی بلکہ بہت سے لوگوں کا ماننا ہے کہ 1975 میں اندرا گاندھی کی قیادت میں چل رہی کانگریس حکومت کے ذریعے ایمرجنسی نافذ کرنے کے بعد 1977 میں جنتا پارٹی کے قیام نے کانگریس کیلئے جو صورتحال پیدا کی تھی جس کے بعد قومی سطح پر بھاجپا کا ابھار اور صوبوں میں صوبائی پارٹیوں کی سیاست کا ابھار ہوا جس نے شناخت کی سیاست بشمول دلت سیاست،آدیواسی سیاست،مسلم کمیونٹی سیاست اور خاص طور پر سماجوادی یعنی او بی سی سیاست کو بھی آگے بڑھایا- ٹھیک ویسی ہے صورتحال کا سامنا 2019 میں ملک کے صرف 37 فیصد ووٹ پر اس وقت جب کہ ممکنہ اپوزیشن اتحاد کئی الگ الگ حصوں میں بنٹا ہوا تھا حکومت بنانے والی بھارتیہ جنتا پارٹی کو بھی آنے والے لوک سبھا میں کرنا پڑسکتا ہے جب کہ اسے جنتا پارٹی جیسے عظیم اتحاد کے ساتھ ہی 10 سالہ حکومت کے خلاف ایک حکومت مخالف ہوا کا بھی سامنا ہوگا…..

Leave a Comment